• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خواہش تو یہ ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان بڑھتی کشیدگی اب اس سطح تک ضرور پہنچ جائے جہاں دو طرفہ معاملات کو آقا و غلام کے بجائے برابری کی بنیاد پر دیکھا جانے لگے۔ خواہش تو یہی ہے کہ تعلقات میں حالیہ شدّت کے طفیل پاکستان کی حیثیت فقط ایک امریکی اتحادی سے بڑھ کر اتنی بلند ضرور ہوجائے کہ ڈو مور (Do More)کا معاملہ محض یکطرفہ نہ رہے۔ کوئی کرشمہ ہوجائے کہ گزشتہ ساٹھ برسوں سے امریکی خواہشات کے سامنے بے بس و لاچار پاکستان اِس کشیدگی کی آڑ میں دنیا کے آگے سر اٹھانے اور امداد کا کشکول توڑ ڈالنے کے قابل ہوجائے۔ کچھ تو ہو جو اس نئی نو آبادیاتی غلامی سے مستقل چھٹکارے کا سبب بن جائے۔ لیکن ڈر یہی ہے کہ کمزور جمہوری روایات اور قیادت کے فقدان کے سبب قوم ماضی میں دستیاب مواقعوں کی طرح وسیع تر امریکی ایجنڈے کے تحت شاید اِس بار بھی ہتھیار ڈال دے۔
کاش امریکی صدر کی پاکستان کے خلاف تمام تر جارحانہ بیان بازی ، ناراضیاں اور بظاہر پاکستان کے خلاف ان کے حالیہ فیصلے سچائی اور حقیقت پر مبنی ہوں، اِن کے اثرات پاکستان پر سچ مچ انتہائی دوررس ہوں اور نتیجتاً یہ ملک ایک خودمختار جمہوریت کے طور پر اپنی حیثیت منوانے کے قابل ہوجائے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دنوں سے لیکر آج تک پاکستان سے متعلق جو کچھ کہتے رہے ہیں وہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ اور مفادات کے بر خلاف ہے۔ پاکستان کے خلاف ان کے اشتعال انگیز بیانات اور امداد بند کرنے کے تازہ فیصلے خود ان کی اپنی سیاسی جماعت کی ساٹھ سالہ روایات ، ترجیحات اور مقاصد کے منافی ہیں۔
جنرل ایوب خان، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف جیسے حکمران اُس مضبوط امریکی روایت کا اچھی طرح تجربہ کرچکے ہیں جس کے تحت پاکستان کو پہلے کچھ ڈرا دھمکا کر اور پھر بھاری مالی معاونت کے بدلے اپنے ساتھ رکھ کر علاقائی سطح پر مفادات کی مستقل نگرانی کی جاتی رہی ہے۔ سارا مسئلہ یہی تو ہے کہ پاکستان کی جیو اسٹرٹیجک (Geo-strategic) حیثیت کے پیش نظر ڈونلڈ ٹرمپ تو کیا ہر ری پبلکن صدر کے پاس پاکستان کو مستقل بنیاد پر دور کرنے یا دور رکھنے کے اختیارات کی بظاہر حد مقرر ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ہندوستان اور افغانستان سے متعلق پالیسی پر کسی بھی منتخب یا غیرمنتخب پاکستانی حکومت کے اختیارات بظاہر محدود ہوتے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد اُبھرنے والے بین الاقوامی منظرنامے کے تناظر میں سردجنگ میں اصل شدّت ری پبلکن پارٹی کے دور میں ہی شروع ہوئی۔ اِس پورے عرصے میں یہ پارٹی امور خارجہ سے متعلق اپنی پالیسی میں جارحیت اورخاص بین الاقوامی معاملات کے عسکری حل پر عمل پیرا ہوتی نظر آتی ہے۔ ری پبلکنز کو ابتدا ہی میں پاکستان کی سیاسی و جغرافیائی حیثیت کا ادراک ہوچلا تھا۔ کمیونزم کے پھیلائو اور سوویت جارحیت کو روکنے کے لئے امریکی خواہشات پر تشکیل کردہ سیٹو (SEATO) اور سینٹو ( CENTO)جیسی تنظیموں میں پاکستان کی شمولیت اس حقیقت کا تاریخی ثبوت ہے۔
افغانستان میں سوویت یونین کی عسکری مداخلت کے وقت امریکہ میں ری پبلکن صدر رونلڈ ریگن کی حکومت تھی۔ لہٰذا اِن کے لئے پاکستان پر اُس وقت قابض جنرل ضیا الحق کو اِس جنگ میں شامل کرنا نہایت آسان تھا! اس طویل جنگ میں نہ صرف پاکستان کے قبائلی علاقوں اور افرادی قوت کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا گیا بلکہ اس کے بھیانک اثرات پوری قوم سیاسی و سماجی مسائل اور انتہا پسندی کی صورت میں آج بھی بھگت رہی ہے۔ قسمت کا عجب کھلواڑ کہئے کہ سانحہ نائن الیون کے وقت بھی اِدھر ایک فوجی ڈکٹیٹر اور اُدھر ایک ری پبلکن صدر کی حکومت تھی۔ سو اس بار بھی ایک نئی جنگ کے لئے تمام امریکی شرائط من و عن تسلیم کرلی گئیں ۔
مختلف ادوار میں کچھ ایسے ہی ملتے جلتے حالات کے سبب امریکی اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے جڑے حلقے ایک دوسرے کے قریب آتے رہنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے’’ مسائل‘‘ اور’’ مجبوریوں‘‘ کو بھی بہتر طور پر سمجھنے لگے۔ افغانستان اور عراق میں براہ راست عسکری کارروائیوں اور اسامہ بن لادن کے ایبٹ آباد میں برسوں چھپے رہنے کے باوجود پاکستان کو ملنے والی رعایتیں آخر کار اِس دیرینہ قربت کا سب سے مفید محاصل ثابت ہوئیں۔ البتہ ڈونلڈ ٹرمپ شاید آج بھی اِس گٹھ جوڑ کی مضبوطی اور دیرینہ حیثیت کا اندازہ لگانے سے قاصر ہیں ۔اُن کے فاضل مشیروں نے شاید اب تک انہیں یہ نہیں بتایا کہ امریکہ کے ڈیموکریٹ صدور غیرجمہوری حکومتوں سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے سے کتراتے رہے ہیں لیکن پھر بھی، غالبا ًمارچ 2000میں بل کلنٹن کو اپنی خواہش کے برخلاف ہندوستان کا دورہ مکمل کرنے کے بعد چند گھنٹوں کے لئے پاکستان آنا پڑا تھا! یہ قصہ بھی سنایا جاتا ہے کہ افغانستان میں امریکی جارحیت کے عروج پرامریکہ ہی میں جنرل مشرف کے کسی خطاب کے بعد بل اور ہلیری کلنٹن نے باقاعدہ اُن سے ملاقات کی اور بحیثیت اتحادی اُن کی خدمات کو سراہا۔ اگر ایک ڈیموکریٹ امریکی صدر کو اپنے ارادوں کے برخلاف ایک غیرمنتخب پاکستانی حکمران سے دو بار ملنا پڑ سکتا ہے تو بحیثیت ایک ری پبلکن امریکی صدر، پاکستان کے ساتھ کم از کم ایک مناسب روّیہ اختیار کرنا دیر سویر شاید ٹرمپ کی ترجیحات میں شامل کردیا جائے۔
جیسی بھی سہی لیکن پاکستان میں ایک منتخب حکومت کی موجودگی بھی ٹرمپ کے اس روّئیے کا سبب ہوسکتی ہے ۔ شاید اس لئے کہ منتخب نمائندوں پر مشتمل پارلیمنٹ کی موجودگی میں امریکیوں کے لئے ہر بات ، یا بار بار اپنی باتیں، منوانا نسبتاً آسان نہیں ہوتا! عراق میں شدید جنگ کے دوران امریکی دبائو کے باوجود پاکستان کا فوج بھجوانے سے انکار، سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے کے خلاف پاکستان کا موثر احتجاج اور حالیہ صورتحال میں پاکستان کا اٹل موقف اِس ضمن میں موزوں ترین مثالیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آمروں کے ادوار میں پاکستان کو ملنے والی مالی امداد کا حجم بھی، ذرائع کے مطابق، جمہوری حکومتوں کی حاصل کردہ امدادسے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ خود امریکیوں کے لئے ایک معمہ بنے ہوئے ہیں۔ شعبہ نفسیات سے تعلق رکھنے والے بہت سے پیشہ ور امریکی اِن کی ذہنی صحت سے متعلق شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ اِنہیں خدشہ ہے کہ ان کی ذہنی حالت امریکہ کو کسی بھی وقت شدید نوعیت کے کسی بھی خارجی یا داخلی بحران سے دوچار کرسکتی ہے۔ اس سلسلے میں عدالت کے دروازے بھی کھٹکھٹائے جارہے ہیں اور انٹرنیٹ کے ذریعے پٹیشن پر دستخط کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ لیکن اگر خود مختار پاکستان کے خواب کو ایک بار پھر مد نظر رکھ لیاجائے تو اِن تمام تر جارحانہ روّیوں اورمبینہ نفسیاتی مسائل کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ کا بحیثیت امریکی صدر چار سال پورے کرنا پاکستان کے دُور رَس مفاد میں جاتا نظر آتاہے ۔ صبر شرط ہے!.

تازہ ترین