• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایئر مارشل اصغرخان ہماری تاریخ پر اَنمٹ نقوش ثبت کر کے 97سال کی عمر میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ربِ کائنات اُن کی مرقد پر شبنم افشانی کرے! انہوں نے جو ناقابلِ فراموش قومی خدمات سرانجام دیں، اُن کا اعتراف پورے ملک میں پایا جاتا ہے۔ مجھے ان کی زندگی کے بعض گوشے بہت قریب سے دیکھنے اور کچھ اہم اُمور میں باہمی تعاون کا موقع ملا۔ یہ موقع اس انٹرویو کی بدولت میسر آیا جو میں نے مدیرِ اُردو ڈائجسٹ کی حیثیت سے ایئرمارشل اصغرخان کا مارچ 1968ء میں کیا تھا۔ وہ ان دنوں پی آئی اے کے چیئرمین اور شعبہ ہوا بازی کے سربراہ تھے۔ یہ انٹرویو دو دنوں پر محیط تھا۔ اس میں وہ روزانہ بریفنگ شامل تھی جو صبح سویرے انہیں دی جاتی تھی۔ اس بریفنگ میں ایئرمارشل نے اپنے اسٹاف سے نہایت کڑے سوال کیے، ایک ایک شعبے کا تنقیدی جائزہ لیا اور ضروری احکام دیئے تھے۔ اسی شام اُن کی بیگم سے ملنے میں اُن کی اقامت گاہ پر گیا اور ان سے ایئرمارشل صاحب کی زندگی کے بارے میں بہت سارے سوالات کیے، مگر وہ بھی اپنے شوہر کی طرح کم سخن اور آرائشی باتوں سے بے نیاز نکلیں۔ صرف اتنا کہا کہ اصغرخان نظم و ضبط کے سخت پابند ہیں، مشکل حالات میں بھی مسکراتے رہتے ہیں اور کبھی اونچی آواز میں بات نہیں کرتے۔ اُن کا پورا خاندان ایک ہی سانچے میں ڈھلا ہوا ہے اور وطن سے محبت اُن کی رگ رگ میں اُتری ہوئی ہے۔ اُن کے وہ بھائی جو ایئرفورس میں تھے، دفاعِ وطن میں جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں۔ بیگم صاحبہ نے باتوں باتوں میں یہ بھی کہا کہ میں نے اپنے بچے کانونٹ اسکولوں میں نہیں بھیجے کیونکہ وہ طلبہ میں قومی جذبہ اور ملی شعور پیدا ہونے نہیں دیتے۔
ایئرمارشل اصغرخان نے انٹرویو کے دوران ایک ایسا واقعہ بیان کیا جس نے انتہائی سنگین صورتِ حال کا احساس دلایا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ غالباً گیارہ بارہ اگست 1947ء کی بات تھی جب آزادی کی پریڈ کے سلسلے میں فوجی افسران بھارتی جرنیل تھمیا کے ساتھ کھڑے تھے جن میں زیادہ تر غیر مسلم تھے۔ اتنے میں بھارتی پارلیمنٹ کا ایک رکن جرنیل کے پاس آیا، اس نے سمجھا یہاں تمام کے تمام غیر مسلم افسر کھڑے ہیں۔ اس نے جنرل کا دامن پکڑتے ہوئے پوچھا:
’’مجھے بتاؤ ہم پاکستان کتنے گھنٹوں میں فتح کرسکتے ہیں؟‘‘
بھارتی جرنیل میری موجودگی میں اسے ٹالتا رہا، لیکن اس نے پیچھا نہیں چھوڑا اَور وہ یہی پوچھتا رہا کہ پاکستان پر کب حملہ کرو گے۔ اس خوفناک منظر نے میرے دل پر گہرا اَثر کیا اور مجھے کامل یقین ہو گیا کہ پاکستان کو اپنی بقا کے لیے ہر وقت مستعد اور چاق و چوبند رہنا ہو گا۔ میں نے پاکستان ایئر فورس کی تربیت اسی اصول پر کی تھی کہ ہم پر حملہ ہوا اَور اب حملہ ہوا۔ ہماری اس تیاری نے ستمبر کی جنگ میں دشمن کے ارادے ناپاک بنائے۔ ہمارے پاس مادی اسباب کم ہیں جو ہمیشہ کم رہے ہیں، لیکن اسلحے سے زیادہ اہم انسان کا فولادی عزم اور ناقابلِ تسخیر قوتِ ارادی ہے۔
اس انٹرویو میں انہوں نے انتہائی سادگی سے بڑے بڑے انکشافات کیے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے بارے میں بہت کم بتایا، اس لیے میں ان اصحاب سے ملا جنہوں نے ان کے ساتھ پاکستان ایئر فورس اور پی آئی اے میں کام کیا تھا۔ ان سے ایئر مارشل صاحب کی قائدانہ صلاحیت، غیر معمولی پیشہ ورانہ مہارت، اخلاقی عظمت اور کمال درجہ دیانت و امانت کی روح پرور تصویر سامنے آئی۔ یہ انٹرویو اپریل 1968ء میں شائع ہوا جس میں ایک متبادل قیادت کا مژدہ موجود تھا، چنانچہ سنجیدہ قومی حلقے ان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھنے لگے۔ ایئر مارشل صاحب کو میری یہ بے نیازی بہت پسند آئی کہ میں نے انٹرویو کرنے کے بعد ان سے اشتہارات کا مطالبہ نہیں کیا تھا اور انٹرویو کی اشاعت کے بعد بھی جس میں اُن کا ایک انقلاب آفریں امیج سامنے آیا پھر بھی کسی قسم کا تقاضا نہیں کیا تھا۔ ان کے لیے یہ ایک حیران کن امر تھا، کیونکہ انہیں ایسے صحافیوں سے واسطہ پڑتا رہتا تھا جو اشتہارات کے لیے انٹرویو کا ڈرامہ رچائے رکھتے تھے۔ ایئر مارشل اصغرخان غالباً جولائی 1968ء میں پی آئی اے سے ریٹائرڈ ہوئے۔ میں اپنے عزیز دوست جاوید نواز کے ساتھ جناب نسیم حجازی سے ملنے ایبٹ آباد گیا، وہ ہمیں ایئر مارشل کی اقامت گاہ پر لے گئے جہاں مستقبل کے منصوبے زیرِ بحث آئے، کیونکہ ایوب خاں کے خلاف عوام کے اندر اضطراب شدت اختیار کرتا جا رہا تھا، چنانچہ ایئر مارشل صاحب کو پبلک پلیٹ فارم پر لانے کا فیصلہ ہوا۔ ان دنوں میں ایک فکری تنظیم ’ایوانِ افکار‘ کا سیکرٹری جنرل تھا جس کے پروفیسر کرامت حسین جعفری، پروفیسر مرزا منور اور پروفیسر مشکور حسین یادؔ مرکزی عہدے دار تھے۔ اس تنظیم نے 23ستمبر کو لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں یومِ دفاع کی تقریب کا اہتمام کیا جس کے مہمانِ خصوصی ایئرمارشل اصغرخاں تھے۔ ہم نے پریس کوریج کے نہایت عمدہ انتظامات کیے تھے۔ ایئرمارشل صاحب نے آغاز میں جنگِ ستمبر کے بارے میں ایمان افروز تاثرات بیان کیے اور تاکید کی کہ ہمیں پوری طرح چوکس اور متحد رہنا چاہیے۔ بعدازاں انہوں نے کہا کہ میں صاف دیکھ رہا ہوں کہ چند ہفتوں یا چند مہینوں میں پاکستان کے اندر بہت بڑی تبدیلی آنے والی ہے اور ایک سڑے ہوئے بوسیدہ نظام کے خلاف عوام کو اُٹھ کھڑا ہونا ہو گا۔
ایئرمارشل کی تقریر تمام قومی اخبارات میں شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئی اور بیرونی اخبارات نے بھی اسے بڑی کوریج دی۔ اس تقریر نے سیاسی حلقوں میں ایک ہلچل مچا دی۔ اکتوبر 1968ء میں حکومت کے خلاف ہنگامے شروع ہو گئے۔
مسٹر بھٹو جو دسمبر 1967ء میں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھ چکے تھے، وہ گرفتار کر لیے گئے، تو ایئر مارشل اصغرخان میدانِ عمل میں آگئے اور عوامی تحریک کی قیادت کرتے رہے۔ اس دوران اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی (ڈیک) کے تحت جمع ہوئیں اور ایوب خاں سے استعفے کا مطالبہ کرنے لگیں۔ صدر ایوب خاں پر دباؤ بڑھتا گیا اور انہوں نے اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے گول میز کانفرنس راولپنڈی میں طلب کر لی۔ مسٹر بھٹو اور ایئرمارشل اصغرخان نے گول میز کانفرنس کا بائیکاٹ کیا۔ فروری 1969ء میں گول میز کانفرنس منعقد ہوئی اور مذاکرات کے نتیجے میں صدر ایوب خاں نے اپوزیشن کے دو بنیادی مطالبات تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ صدارتی کے بجائے پارلیمانی نظام کا قیام اور انتخابات کا بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انعقاد۔ شیخ مجیب الرحمٰن نے اس معاہدے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ میں اور برادرم نصیر احمد سلیمی ایئرمارشل صاحب سے ملنے مری روڈ، راولپنڈی گئے جہاں وہ اپنے بھائی کے ہاں قیام پذیر تھے۔ ہم وہاں پہنچے، تو شیخ مجیب الرحمٰن وہاں پہلے سے موجود تھے۔ وہاں جو گفتگو ہوئی، اس سے آئندہ کا نقشہ تو واضح ہو گیا تھا، مگر یہ احساس ہوا کہ ایئرمارشل جو بے پایاں صلاحیتوں کے مالک ہیں، انہیں فوجی ذہن کے بجائے سیاسی ذہن کو نشوونما دینا ہو گی۔ آگے چل کر جو عجیب و غریب واقعات ظہور پذیر ہوئے، اُن کا آج کے پیچیدہ حالات سے گہرا تعلق ہے جس کی کہانی آئندہ بیان کی جائے گی۔

تازہ ترین