• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انکل شہباز !میں بابا بلھے شاہ اور وارث شاہ کے استاد خواجہ غلام محی الدین کے قبرستان قصور سے خط لکھ رہی ہوں، 5دن کی شدید تھکاوٹ اور ظلم کی چکی میں پس کر پرسکون جگہ پہنچی ہوں جہاں خواجہ صاحب کے علاوہ سینکڑوں حفاظ کرام مدفون ہیں۔ انکل میں زینب بنت محمد امین ناظم تبلیغ تحریک منہاج القرآن قصورا سکول ٹیچر کی بیٹی ہوں۔ مجھے 7سال کی زندگی میں ہی کیوں نشانہ بنایا گیا، بلھے شاہ کہہ رہے تھے آج 21کروڑ عوام کی غیرت کا جنازہ دیکھ کر بیٹا میرا دل کہہ رہا ہے کہ آخر میں بھی مر جائوں۔ انکل ظالموں کے ظلم کی وجہ سے تھک گئی ہوں، انکل اس شمر کو نہ چھوڑنا جس نے میرا پھول سا چہرہ مسلا ہے، انکل اب کی بار انصاف پھر اندھا، قانون بہرہ اور قوم کی طرح حسب سابق آپ بھی رسمی آہوں دعائوں، روایتی بیان بازیوں میں نہ رہنا۔ انکل صرف معطلیاں، تبدیلیاں، کمیٹیاں، تحقیقاتی رپورٹیں کہیں میری چیخوں، سسکیوں، ہچکیوں اور آہوں کے آگے دیوار نہ بن جائیں، میں تو رحمت بن کر آئی تھی، میرا یہ قصور تھا کہ میں آپکے دور حکمرانی میں پیدا ہوئی، آپکے ہوتے ہوئے خنزیروں نے میری ننھی عصمت کو تار تار کیا۔ کیوں اپنی ہوس و درندگی کا نشانہ بنایا، میرے قاتل اب اپنا چہرہ چھپانا چاہتے ہیں! انکل یاد رکھیں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے منقول ہے کہ ’’جس مقتول کا قاتل نامعلوم ہو جائے اسکا قاتل حکمران ہوتا ہے‘‘۔ میں قرآن کی تعلیم کیلئے گھر سے نکلی تھی اور اسی قرآن میں ایسے درندوں کو سنگسار کرنیکا حکم ہے۔ میرے ابو امی حرم کعبہ اور روضہ رسولﷺ پہ حاضر تھے، انکل ذرا تصور کیجئے ایک عام شخص کو بھی اپنے بچوں سے اٹوٹ محبت ہوتی ہے، انکل قانون کی حکمرانی ہوتی تو ایک شمر لعین مجھ تک آسانی سے نہ پہنچتا، انکل مجھے بتائو چار روز تک میری لاش شدید سردی میں کوڑے پر بغیر گور و کفن کیوں تڑپتی رہی؟ انکل آپکا قصور میں اتنا بڑا سیاسی، انتظامی اور خفیہ نظام جس میں ایم پی اے ن لیگ حاجی نعیم صفدر انصاری، ایم این اے پیر عمران ولی، ایم این اے وسیم اختر، چیئرمین میونسپل کمیٹی حاجی ایاز احمد، ڈی پی او چوہدری ذوالفقار، ڈی سی سائرہ عمر، ڈی ایس پی عبدالقدوس، ایس ایچ او ذوالفقار حمید، ایس ایچ او حاجی اکرم، اے ایس آئی امیر حسین، نائب ریڈر محمد اقبال، پی آر او ساجد حسین کے علاوہ ڈولفن فورس، مجاہد اسکواڈ، ہیوی سیکورٹی سسٹم، ریسیکو ٹیم، اعلیٰ کوالٹی کے کیمروں نے میری آہوں، درد بھری چیخوں کو کیوں نہ سنا۔ انکل میں رات سو کر صبح قصور کی ننھی پریوں فوزیہ، لائبہ، ایمان سے ملوں گی۔ انکل! الیکشن دو ہزار اٹھارہ سے پہلے ہمارے قاتلوں کو پکڑو ورنہ قیامت تک کیلئے میرا سوال آپ کے قدم لڑکھڑا دے گا۔ انکل ڈینگی خاتمہ، میڑوبس، اورنج ٹرین اور انڈرپاسز کی بھرمار کی طرز پر اس وبا کے خلاف بھی اخلاقی اقدار کا مضبوط بند باندھیں، ان بھیڑیوں کیخلاف ایسا نظام بنائیں کہ میرے والدین کے رونے کے بعد کسی اور زینب کے گھر والوں کو رونا نہ پڑے۔
میں انہی 280سے زائد قصور کے بچوں کی مانند ہوں جنکا کیس 2015میں سامنے آیا تھا کاش! انکل اس وقت آپ حرکت میں آتے اور سی ایم ہائوس لاہور کی بجائے قصور میں ڈیرے ڈال دیتے تو شاید آج میرا یہ حال نہ ہوتا۔
انکل سنا ہے میرے درد کی کچھ آواز، کرب، آہیں آرمی چیف، وزیراعظم، لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے بھی سنی ہیں۔ انکل تحقیقات ماتحت عملہ سے آئین کی روح سے کرانا ۔ ہاں انکل میری آواز اعتزاز احسن، بابر ستار، سلمان اکرم راجہ، فاروق ایچ نائیک، اکرم شیخ، خالد حبیب الٰہی جیسے نامور وکلا تک پہنچا دینا، کہ اگر ہو سکے تو وہ فی سبیل اللہ میرے کیس کی پیروی کرکے میرے غمزدہ والدین کا کچھ غم کم کریں۔ انکل یہ اس لئے کہہ رہی ہوں کہ مجھے خدشہ ہے کہیں کوئی ’’پیشہ ور‘‘ وکیل قصور میرا ہی ثابت نہ کر دے کہ میں کیوں گھر سے اکیلی نکلی، ہاں انکل آپ کی بااختیار وساطت سے میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذمہ داران سے بھی اپیل کروں گی کہ خدارا اخلاق باختہ ڈرامے، فلمیں، پروگرامز بند کریں، انٹرنیٹ پر گندی اور حیا سوز ویب سائٹس کے خلاف بھی قانون سازی کریں۔
انکل کہاں ہیں وہ این جی اوز، مبلغین، اساتذہ جو اعلیٰ دینی اقدار کو دلوں میں اتارنے میں ناکام ہوئے ہیں۔ انکل اس دردندہ صفت انسان سے پوچھ کر بتانا آخر میرا قصور کیا تھا۔ میرے ساتھ گھنائونا فعل کیوں کیا؟ انکل ہم یہاں جنت میں سوچ رہی ہیں کہ سب نے ہمیں ویران جگہوں پر کیوں پھینکا۔ انکل رسول اللہ ﷺنے تو ہمارے لئے فرمایا تھا کہ اپنے بچوّں کا اکرام کرو اور انہیں اچھی تربیت دو۔ انکل میں70سال میں جنسی زیادتی کی واقعات کی بات نہیں کروں گی بلکہ ان واقعات کی تعداد 2010میں 2252، 2011 میں2303، 2012 میں 2788، 2013میں3002، 2014میں 3508، 2015میں 3768، 2016 کے دوران 4139ہے جو مجموعی طور پر اکیس ہزار سات سو ساٹھ ہے۔ انکل آپ شرعی، آئینی، اخلاقی تقاضوں سے ہٹ کر جنسی تشدد کے شکار بچوں کے حقوق کے عالمی معاہدے کے آرٹیکل نمبر34 کے پابند ہیں۔ انکل یاددہانی کیلئے عرض ہے ایران نے میری ہم عمر سات سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کرنے والے کو سرعام پھنسی دی۔ اس کے بعد آج تک ایران میں دوبارہ کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔ انکل ایک بار میرے جیسے بچوں کے تحفظ کیلئے تشہیری مہم ہی چلا دیں۔ انکل میرا معاملہ صرف کمیٹیوں، تحقیقی رپورٹوں اور رسمی کاروائیوں کے حوالے کیا تو میں کائنات میں سب سے زیادہ حوّا زادیوں کی جنگ لڑنے والے نبی رحمت ﷺکی پیاری صاحبزادی زینب ؓاور تاجدار کربلا حضرت امام حسین ؓکی پیاری ہمشیرہ بی بی زینبؓ کا دامن تھام کر رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں جائوں گی اور عرض کروں گی پیارے آقاﷺ میں تو معصوم ہوں، میرے لئے کوئی حسینؓ میدان میں نہ آیا، یارسول اللہ ﷺمیں چیختی رہی کوئی عباس گھوڑا لیکر نہ پہنچا، یارسو ل اللہ ﷺمیں تو معصوم ہوں، صرف اتنا عرض کناں ہوں کہ اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں یزیدیت کی بربریت نے اتنے گہرے پنجے گاڑے ہیں کہ میرے لئے آواز اٹھانے والے 3بھائیوں کو بھی پولیس نے صرف اس بنیاد پر مار ڈالا کہ وہ اپنی بیٹی زینب کیلئے آواز بلند کر کے انصاف کیوں مانگ رہے ہیں۔ انکل اب تھک چکی ہوں، سانس بند ہو رہا ہے، لمبا سفر ہے، تنہائی بھی ہے، واپسی ممکن نہیں، میرے گھر والوں کو ظالم نظام کے ظلم سے بچانا۔ صبح 70سالوں کے دوران مارے گئے بچوں کو تلاش بھی کرنا ہے۔انکل آخر میں یہ کہوں گی کہ والدین اپنے بچوں کی حفاظت کے لئے خصوصی نظر رکھا کریں اور اور نبیﷺ کی اس دع کو روزانہ اول و آخر درود شریف کے ساتھ یاد کرائیں ان شاء اللہ حفاظت میں رہیں گے۔ الحمد للہ الذی عافانی ممن ابتلاک بہ و فضلنی علی کثیر ممن خلق تفضیلا۔ آپ کے جواب کی منتظر زینب امین ۔

تازہ ترین