• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ثمینہ خاور حیات پنجاب اسمبلی کی سابقہ رکن ہیں، وہ حکمرانوں کے خلاف بہت بولتی تھیں پھر ان کی بلند آواز کو خاموش کروانے کے لئے جعلی ڈگری کا ہتھیار استعمال کیا گیا، مقدمہ عدالت میں گیا تو ثمینہ خاور حیات سچی ثابت ہوئیں، ان کے مخالفین جھوٹے ثابت ہوئے مگر حکمرانوں کی خواہش کے مطابق ان کی سیٹ چھن چکی تھی۔ اصولی طور پر تو ثمینہ خاور حیات کو بحال ہونا چاہئے تھا مگر ایسا نہ ہو سکا ، ثمینہ خاور حیات سچی ہونے کے باوجود اسمبلی میں تو نہ آ سکیں مگر انہوں نے حکمرانوں کے خلاف احتجاج کا چراغ بجھنے نہیں دیا، اب بھی جب ظلم ہوتا ہے ، نا انصافی ہوتی ہے تو ثمینہ خاور حیات پورے طمطراق سے بولتی ہیں، انہیں کوئی خوف احتجاج سے نہیں روک پاتا، وہ مردانہ وار ظلم کے خلاف بولتی ہیں کہ ثمینہ خاور حیات کا تعلق قصور سے ہے۔ دو روز سے پورا ملک سانحہ قصور کی وجہ سے احتجاج کر رہا ہے ، پورے ملک کا ماحول سوگوار ہے جہاں جہاں پاکستانی بستے ہیں، وہ اپنی قسمت کو رو رہے ہیں، والدین بچیوں کے بارے میں متفکر ہیں، آنسوئوں سے بھری جھولیاں ہیں، ماحول افسردہ ہے، پولیس غائب ہے حکمران چھپے ہوئے ہیں جیسے چور چھپتے ہیں، بے یقینی کی کیفیت ہے۔ ایسی صورتحال میں 2017 ء کے پنجاب کی صرف ایک ماہ کی تصویر قصور کی ایک بیٹی ثمینہ خاور حیات نے مجھے بھیجی ہے۔ آئیے اس تصویر کو دیکھ لیجئے۔ یہ تصویر دسویں مہینے کی ہے۔ اس وقت تک پنجاب پولیس کی وردی تبدیل کر کے ’’دیہاڑی‘‘ لگائی جا چکی تھی۔ دیہاڑیاں لگانے سے حالات تبدیل نہیں ہوتے اور نہ ہی وردی تبدیل کرنے سے حالات تبدیل ہیں۔ باقی باتیں بعد میں کرتے ہیں پہلے ثمینہ خاور حیات کی طرف سے بھیجا گیا حالات کا جائزہ، واضح رہے کہ یہ صرف ایک ماہ کا جائزہ ہے۔
2017-10-3شیخوپورہ میں غریب محنت کش کی دس سالہ بیٹی اغوا،زیادتی کے بعد قتل
2017-10-4قصور میں ایک اور بچی اجتماعی زیادتی کا شکار، علاقے میں خوف و ہراس
2017-10-7بھاٹی گیٹ لاہور ، 9سالہ بچی زیادتی کے بعد قتل، لاش ہمسائے کی چھت سے ملی۔
2017-10-9بہاولنگر ، محنت کش کی نابالغ بیٹی اغوا، ملزم گرفتار نہ ہو سکے، ورثا کا احتجاج۔
2017-10-9شیخوپورہ ، زیادتی کی شکار دوشیزہ انصاف کے لئے دربدر، مقدمہ درج نہ ہو سکا۔
2017-10-9 پھالیہ، چودھریوں کا خاتون پر تشدد، قتل کی دھمکیاں، پولیس کارروائی سے گریزاں۔
2017-10-19جلال پور پیروالا، چیئر مین میونسپل کمیٹی کی یتیم لڑکی سے کئی ماہ تک زیادتی، ویڈیو اور عریاں تصاویر بھی بنائیں۔
2017-10-21چیئر مین چکوال کے بیٹے نےاسٹیج اداکارہ سپنا چودھری کو اغواء کر لیا، اجتماعی زیادتی۔
2017-10-22پھالیہ، پانچ اوباشوں کی طالبہ کو اغوا کر کے کئی روز تک زیادتی۔
2017-10-23فیکٹری مالک کے بیٹوں کا بورے والا میں مزدور پر برہنہ کر کے تشدد، مزدوروں کا احتجاج۔
2017-10-23تھانیدار کے بیٹے کی اغواء کے بعد بچی سے زیادتی کی کوشش، تھانیدار کے بیٹے نے راستے سے اغوا کیا، یہ واقعہ قصور کا ہے۔
2017-10-23جتوئی میں سود خور جاگیردار اراضی پر قابض، نابالغ لڑکی کو برہنہ کر کے تشدد۔
2017-10-25 بہاولنگر ، سترہ سالہ لڑکی کی اغوا کے بعد زیادتی، پنچائت نے ونی قرار دے دیا۔
خواتین و حضرات! یہ ہے پنجاب کی اچھی حکمرانی ، جس کی تعریفیں کرتے پوری ن لیگ نہیں تھکتی، جس کے حق میں کئی صحافی کہانیاں گھڑتے ہیں، کئی ٹی وی پر جھوٹ بولتے ہیں، کئی تو اتنا شور کرتے ہیں کہ باقاعدہ قوالی شروع کر دیتے ہیں۔اگر آپ ان خبروں پر نظر ڈالیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اس ملک کی اشرافیہ کہاں کہاں اور کیسے کیسے ظلم کرتی ہے، یہ سیاسی غنڈے لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں ان سیاسی غنڈوں کی غلام پولیس کس طرح مقدمات درج نہیں کرتی۔ یہ سب کچھ اس وقت ہوتا ہے جب بری حکمرانی ہو۔ اس سلسلے میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک فرمان بہت اہم ہے ۔ آپ ؓ فرماتے ہیں کہ ’’جس مقتول کا قاتل نا معلوم ہو، اس کا قاتل حاکم وقت ہوتا ہے‘‘اس فرمان کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہو جانا چاہئے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟
زینب پر نہیں لکھنا چاہتا تھا ، زینب پر لکھا نہیں جا رہا تھا ، زینب پر لکھنا مشکل ہے، زینب کے ساتھ جو ہوا، اسے بیان کرنا بس سے باہر ہے، وہ چیختی چلاتی، پورے انسانی معاشرے کا ماتم کرتی ہوئی آسودہ خاک ہے مگر اس نے حکمرانوں کے لئے کئی سوالات چھوڑ دئیے ہیں، یہ سوالات ان تمام لوگوں کے لئے ہیں جو حکمرانوں کے گیت گاتے ہیں، ان کے حق میں لکھتے ہیں، ان کے حق میں کہانیاں بیان کرتے ہیں، ان کے حق میں ٹی وی پر قوالیاں کرتے ہیں ، یاد رکھو، ان سب کا حساب ہو گا ، ہمارے بدقسمتی ہے کہ ہم پر پینتیس چالیس سال سے ایسے لوگ حکمرانی کر رہے ہیں جن کا شرم و حیا سے کوئی واسطہ نہیں، جنہیں ظلم کرتے وقت خوف خدا بھی نہیں آتا، جنہیں ہر وقت دولت کی ہوس رہتی ہے، جو ہر حال میں اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں ۔ ان لوگوں نے اس پیارے دیس کو لوٹا، یہاں سے لوٹ مار کر کے پاکستان کی دولت بیرون ملک لے گئے۔ ان لوگوں نے یہاں کی تعلیم،صحت اور ہر چیز برباد کی ، یہ جالب کا کلام پڑھتے ہیں مگر جالب کی سی زندگی نہیں گزارتے، یہ ظالم لو گ ہیں۔ یہ چور ، لٹیرے، اچکے، ڈاکو اور غنڈے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں سپریم کورٹ نے رہنما کی بجائے رہزن کہا۔ یہی لوگ عدالتوں پر تنقید کرتے ہیں۔ یہی افواج پر تنقید کرتے ہیں، زینب کی بے بسی پر انسانی حقوق کے چیمپئن کدھر گئے،کدھر گیا موم بتی مافیا، زینب کے والد نے چیف جسٹس اور آرمی چیف سے مدد مانگی ہے۔ حالات سنگین ہیں، مجھے زیادہ پتہ نہیں مگر میں اتنا یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ زینب کے بہیمانہ قتل نے ہمارے حکمرانوں کا تخت ہلا کر رکھ دیا ہے۔ حکمرانی کا سنگھاسن ڈول چکا ہے، ذرا سی دیر ہے، ظلم کا راج ختم ہونے والا ہے، چیف جسٹس اور آرمی چیف سے جو درخواست زینب کے والد نے کی ہے بس اس کے ساتھ یہ شعر ہی پڑھ لیں کہ بقول غالب:۔
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم ، تم کو خبر ہونے تک.

تازہ ترین