• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈومور اور نومور کی تکرارمیں دونوں ممالک خفیہ رابطے کررہے ہیں،تجزیہ کار

Todays Print

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“میں میزبان نےتجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ججوں کی پریس کانفرنس نے پورے بھارت میں ہلچل مچادی ہے دوسری جانب ڈومور اور نومور کی اس تکرار میں بات اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ پا کستا ن اور امریکا خفیہ رابطے کررہے ہیں۔سابق وزیرخارجہ حنا ربانی کھر نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہاہے کہ دنیا کے کسی ملک کی خارجہ پالیسی ردعمل پر مبنی نہیں ہوتی بلکہ پہل کر کے حالات پر قابو پانے کی پالیسی اپنائی جاتی ہے، پاکستان صرف ٹرمپ کی ٹوئٹ کا جواب دینے کی کوشش کررہا ہے جو غلط خارجہ پالیسی کا عکاس ہے، صدر ٹرمپ کی ٹوئٹ امریکا کی حکومتی پالیسیوں کی ترجمانی نہیں کرتی ہے، ٹرمپ کی ٹوئٹ اپنے پالیسی بیان سے زیادہ مختلف نہیں تھی، پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانا امریکا کا عمومی رویہ رہا ہے، امریکا ہمیشہ افغانستان میں اپنی ناکامی کا مسئلہ پاکستان پر ڈالتا ہے، امریکی میڈیا ماضی کے برخلاف صدر کی ٹوئٹ پر تنقید کررہا ہے، افغانستان میں ناکامی کی بڑی وجوہات افغان اور امریکی حکومت کی مبہم پالیسیاں ہیں، امریکی صدر سترہ سال کی غلطیاں دہراتے ہوئے ایک بار پھر افغان مسئلہ کو فوجی قوت سے حل کرنے کی طرف جارہے ہیں، امریکا کو شاید اندازہ نہیں کہ پاکستان افغانستان جنگ میں کتنا اہم ہے، پاکستان کو صرف اپنے قومی مفادات کے تحفظ کی حد تک کسی ملک کا ساتھ دینا چاہئے۔پروگرام میں تر جما ن پنجاب حکومت ملک محمد احمد خان نے بھی اظہار خیال کیا۔میزبان شاہزیب خانزادہ نے اپنے تجزیئے مزید کہا کہ پاکستان سے تعلقات کے حوالے سے امریکا کی کنفیوژ ن واضح نظر آتی ہے، یہ کنفیوژن اور غیریقینی مستقل ہے یا عارضی اس میں بھی امریکا کی طرف سے کنفیوژن نظر آتی ہے، پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں گزشتہ چند ماہ سے کشیدگی بڑھتی جارہی ہے، ڈومور اور نومور کی اس تکرار میں بات اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ دونوں ممالک خفیہ رابطے کررہے ہیں، پاک امریکا تعلقات کے حوالے سے حالیہ امریکی رویہ عجیب ہے، ایک طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کے اہم افراد پاکستان سے متعلق سخت سے سخت بیانات دینے سے گریز نہیں کررہے جبکہ دوسری جانب ٹرمپ انتظامیہ کے ہی کچھ دیگر اہم اور سینئر افسران پاکستان کے ساتھ تعلقات برقرار رکھتے ہوئے ساتھ چلنے کی بات کررہے ہیں اور پاکستان کو کہہ رہے ہیں کہ موجودہ صورتحال عارضی ہے، اس صورتحال میں رواں ہفتے امریکی سینٹر ل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل اور ایک امریکی سینیٹر نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو صدر ٹرمپ کے پاکستان سے متعلق ٹوئٹ کے بعد پاک امریکا سیکیورٹی تعاون پر رابطے کیے، آئی ایس پی آر کے مطابق جنرل جوزف ووٹل نے آرمی چیف کو سیکیورٹی تعاون اور کولیشن سپورٹ فنڈ سے متعلق امریکی فیصلے سے آگاہ کیا، جنرل جوزف نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاک امریکا تعلقات میں موجودہ صورتحال عارضی مرحلہ ہے، انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ امریکا پاکستان کے اندر کسی یکطرفہ کارروائی کا نہیں سوچ رہا، افغانستان کے خلاف پاکستانی سرزمین استعمال کرنے والوں سے نمٹنے میں تعاون چاہتے ہیں۔شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ اعلیٰ امریکی سول و عسکری حکام کے آرمی چیف کو فون ایسے وقت میں آئے ہیں جب یہ خبریں بھی سامنے آئیں کہ گزشتہ دنوں پاک امریکا تعلقات میں آئی کشیدگی کو مزید بڑھنے سے روکنے کیلئے پاک امریکا خفیہ مذاکرات ہوئے، دفتر خارجہ کے ترجمان نے اس حوالے سے سوال پر کہا کہ دونوں ممالک باہمی مفادات کے معا ملا ت پر مختلف سطحوں پر ایک دوسرے سے بات چیت کررہے ہیں، یہ معاملہ میڈیا سے باہر رکھا گیا اس لئے مزید تفصیلات نہیں بتاسکتے، آج ایک انگریزی اخبار نے اس حوالے سے خبر شائع کی کہ پاک امریکا بات چیت سے آگاہ حکام نے بتایا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے اعلیٰ انٹیلی جنس حکام رواں ہفتے اسلام آباد آئے تھے جہاں پاک امریکہ حکام کی بات چیت کا مقصد دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مشترکہ عزم تلاش کرنے کی آخری کوشش کرنا تھا، خبر کے مطابق تعلقات میں بہتری کی کوشش میں پاکستانی وفد کے بھی واشنگٹن جانے کے امکانات ہیں۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہامریکی صدر کے مشیر برائے مسلم کمیونٹی ساجد تارڑ کہتے ہیں کہ پاک امریکا تعلقات جلد معمول پر آجائیں گے،شاہزیب خانز اد ہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ قصور میں جمعے کو بھی زینب قتل کے خلاف احتجاج ہوتا رہا، واقعہ کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی بنادی گئی ہے، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس منصور علی شاہ نے قصور واقعہ میں ملوث مجرم کو گرفتار کرنے کیلئے چھتیس گھنٹے کی مہلت دیدی ہے، آئی جی پنجاب پولیس عارف نواز خان نے جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 67افرا د کے ڈی این اے لیبارٹری بھجوائے ہیں لیکن ابھی تک ملزم کا پتا نہیں چل سکا، اس سے پہلے بچوں سے زیادتی کے سات کیسوں اور اب زینب کے کیس میں ایک ہی شخص کا ڈی این اے پایا گیا ہے لیکن وہ ابھی تک پکڑا نہیں جاسکا ہے، پچھلے سات کیسوں میں جب ڈی این اے میچ کرگیا تھا تو پولیس نے اس شخص کوپکڑنے کیلئے کیا کیا یہ پولیس نہیں بتارہی ہے۔ سانحہ قصور کے بعد کراچی میں دو ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جس میں بچوں کے ساتھ زیادتی کی کوشش کی گئی اور بچے نے اپنے والدین کو اس بارے میں بتایا ، زینب کیس کے بعد ایسے واقعات ہائی لائٹ ہوگئے ہیں، لوگ احساس کررہے ہیں کہ انہیں اس پر توجہ دینی ہے، بچوں میں باقاعدہ ردعمل دینے کا حوصلہ آرہا ہے، کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری میں ایک اسکول کی پانچ سالہ بچی نے اپنے والدین کو بتایا کہ چوکیدار نے اسے پکڑنے کی کوشش کی تھی، بچے کی شکایت پر گھر والے اہل محلہ کے ساتھ اسکول پہنچے، توڑ پھوڑ کی اور چوکیدار کی پٹائی کی اور رینجرز کے حوالے کردیا، یہ بھی لازمی ہے کہ آپ نے قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لینا ہے، بچے کو یہ اعتماد دیں کہ وہ آپ کے ساتھ ایسے ہی شکایت کرے جیسے اس بچی نے کی، بچی کے والد کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ زیادتی کا نہیں ہے، دوسری طرف پولیس نے شاہ فیصل کالونی میں گیارہ سالہ لڑکے سے زیادتی کرنے والے ملزمان کو گرفتار کرلیا، ملزمان نے لڑکے کو زبان کھولنے پر جان سے مارنے کی دھمکی بھی دی تھی لیکن لڑکے نے اپنی والدہ کو اس بارے میں بتادیا، اس کے بعد ان کی اطلاع پر دونوں ملزمان کو پکڑلیا گیا، یہ بہت اہم بات ہے کہ بچوں میں حوصلہ تھا، ان کا اپنے والدین پر اعتماد تھا، بچوں نے والدین کو بتایا۔ شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ کیا کبھی آپ نے سنا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز عدالت میں نہیں کیمرے کے سامنے بول رہے ہوں، دیگر اداروں کی کارکردگی پر نظر رکھنے والوں کو اپنے ہی ادارے کے سربراہ سے شکایات ہوں اور شکایت بھی ملک کے سب سے اہم عہدے پر فائز شخص سے ہوں، یہ سب کچھ پڑوسی ملک بھارت میں ہوا ہے جہاں سپریم کورٹ کے چار سینئر ججوں نے چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس دیپک مشرا پر قواعد کی خلاف ورزی کے الزامات لگادیئے اور خبردار کیا کہ عدالتی ادارے ٹھیک نہ ہوئے تو جمہوریت خطرے میں پڑجائے گی، اس پریس کانفرنس نے پورے بھارت میں ہلچل مچادی ہے، بھارتی میڈیا نے سپریم کورٹ کے ججوں کی پریس کانفرنس کو ملکی تاریخ کی سب سے اہم پریس کانفرنس قرار دیا ہے، نہ صرف بھارتی میڈیا بلکہ خود سپریم کورٹ کے ججوں نے اس پریس کانفرنس کوملکی تاریخ بلکہ پوری دنیا کی عدالتی تاریخ کا غیرمعمولی واقعہ قرار دیا ہے۔

تازہ ترین