• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں سردمہری کسی سے پنہاں نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹویٹ، مائیک پنس اور پھر مائیک پومپیو کے بیانات سے یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ پاکستان پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔اور امریکہ براہ راست نہیں بلکہ بھارت یا افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرے گا۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت شاید اس لئے بھی نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم دنیا پر ان کے عزائم عیاں کرنے کو کافی تھی لیکن وہ ان مقاصد کے لئے اس سرعت سے سرگرم ہوں گے، اس کا شاید کسی کو اندازہ نہیں تھا۔ ٹرمپ کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے سے قبل یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ امریکہ نے اپنے آئندہ مقاصد کی ٹھوس بنیادوں پر اور انتہائی غور و فکر کے بعد منصوبہ بندی برسوں قبل کی ہوتی ہے اور اس میں آنے والی ہر تبدیلی اسی منصوبہ بندی کے تحت ہی معمولی فرق یا قدرے تامل سے رونما ہوتی ہے۔ مثلاًبیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کا فیصلہ امریکہ 1985س میں کر چکا تھا لیکن اس پر عمل 2017ء میں ہوا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی افغان پالیسی میں بھی کوئی نئی بات نہ تھی، امریکہ کے یہ الزامات کافی عرصے سے ہم سنتے چلے آ رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان معاملات میں تیزی کی وجہ کیا ہے؟ ذرا ماضی قریب میں جائیں اور سوچیں کہ پاک ایران گیس پائپ لائن کیوں ہنوز تشنہ تکمیل ہے؟ اب اس بات کو سی پیک کے تناظر میں دیکھیں تو بات سمجھنے میں دشواری نہ ہو گی۔ دراصل ہانگ کانگ کے بعد جنوبی ایشیا میں امریکہ کا کوئی محفوظ ٹھکانہ نہیں اور اگر وہ گوام میں موجود ہے تو اسے ہر وقت شمالی کوریا کے میزائلوں کا خطرہ رہتا ہے، لے دے کے افغانستان رہ گیا ہے جہاں وہ پاکستان کی مدد کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ امریکہ افغانستان ،چین اور روس کے باعث یہاں قدم جمائے رکھنا چاہتا ہے اور اس کے لئے وہ پاکستان پر ’’گاجر اور چھڑی‘‘ کی حکمت عملی آزمانے میں کوشاں ہے۔ دھمکیاں بھی دے رہا ہے، امداد بند کرنے کی باتیں بھی کر رہا ہے اور دہشت گردی کے خاتمے کی صورت میں پاکستان کو ساتھ لے کر چلنے کا عندیہ بھی دے رہا ہے۔معاملہ تب خراب ہوا جب ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر پاکستان کو 33ارب ڈالر دینے اور پاکستان کے دھوکہ باز ہونے کی بات کی۔ اس پر پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کے ساتھ ساتھ عوام کی طرف سے بھی شدید ردعمل سامنے آیا۔ سب نے جمہوری یگانگت کا ثبوت دیا اور طے کیا کہ ایسی حکمت عملی اپنائی جائے کہ اپنی عزت و وقار پر بھی حرف نہ آئے اور حالات مزید کشیدگی کی طرف بھی نہ جائیں۔ امریکہ بھی یہ جانتا ہے کہ اس کا پاکستان کے بغیر گزارہ نہیں چنانچہ دفتر خارجہ کی طرف سے یہ خوش خبر آئی ہے کہ فریقین باہمی دلچسپی کے امور پر مختلف سطح پر بات چیت جاری رکھیں تاکہ ٹرمپ کے ٹویٹ سے جو تلخی در آئی ہے اس کا خاتمہ ممکن ہو۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ امداد کی بندش کے بیان کے فوری بعد امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے بتایا کہ سینٹ کام کمانڈر، جو افغانستان جنگ کی کارروائیوں پر نظر رکھتے ہیں جنرل قمر جاوید باجوہ سے بات کر رہے تھے۔ دونوں ملکوں نے قبل ازیں بھی بات چیت کا آغاز کیا لیکن بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ انہوں نے خواجہ آصف کے بیان کو ان کا ذاتی غصہ قرار دیا جو اس بات پر نالاں تھے کہ امریکہ پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم نہیں کر رہا۔ انہوں نے کہا کہ پس پردہ دونوں ملکوں میں کیا بات چیت ہو رہی ہے، وہ اس سے آگاہ نہیں۔ پاکستان اور امریکہ کے حوالے سے یہ ایک اچھی خبر ہے کہ دونوں ملک مکالمے کی راہ اپنانے پر آمادہ ہیں۔ انہی صفحات میں تجویز دی جا چکی ہے کہ پاکستان جن کٹھن حالات سے دوچار ہے اسے تصادم کی بجائے مکالمے کی راہ پر چلتے ہوئے دنیا کے تحفظات دور کرنا ہوں گے۔ بات چیت کا سلسلہ منقطع نہیں کرنا چاہئے کہ مسائل کا حل گفت و شنید میں ہے تصادم میں نہیں۔ کسی تصادم سے بچنا ہی ہماری کامیابی ہے اور یہ مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ امریکہ سے گفت و شنید کے سلسلے کو وسعت دے تاکہ غلط فہمیاں بھی دور ہوں اور کسی تصادم کی راہ بھی ہمیشہ کیلئے بند ہو جائے۔

تازہ ترین