• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز میں انصاف کا حصول کتنا مہنگا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ میاں نوازشریف بھی پکار اٹھے ہیں کہ وہ وکیلوں کی فیسیں ادا کرکے تھک گئے ہیں۔میاں صاحب سے پہلے فیض صاحب نے نظام عدل وانصاف کے گر دیوں حاشیہ کھینچاتھاکہ
بنے ہیں اہل ِہوس مدعی بھی، منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
زیر نظر فیض صاحب کا ایک ہی شعر قومی سیاست، جمہوریت اور ریاست کی 70سالہ کارکردگی کی سمری ہے۔ اس ضمن میں’’حمودالرحمان کمیشن رپورٹ ‘‘ بھی شایدایسا نقشہ کھینچنے پر قادر نہ ہو جیسا فیض صاحب نے صرف دومصرعوں میں باندھ دیا ہے ۔قومی سیاست کا المیہ یہ بھی ہے کہ حکمرانوں پر مالی کرپشن کا الزام ہے اور وہ نااہل ہونے کے بعدپورے نظام عدل کو چیلنج کرنے کا نعرہ بلند کئے ہوئے ہیں ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جس نظام کو وہ چیلنج کررہے ہیں گزشتہ 36سال سے وہی اس کے PROTAGONIST(فلم کے مرکزی ہیرو)بھی ہیں ۔سینئر صحافی نذیر ناجی بتاتے ہیں کہ سیاست اور صحافت میں کرپشن کارجحان تو آغاز ہی سے تھا لیکن آمروں کے دور میں اس میں خوب کھادوغیرہ ڈالی گئی جس سے کرپشن کی فصلیں لہلہاتی رہیں۔بھٹو دور میں اگرچہ میں بہت چھوٹا تھا لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس دور سے وابستہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کی سواری سائیکل ہوا کرتی تھی۔ بعد ازاںجنرل ضیاالحق کے سرسایہ سرانجام پانے والے 1985کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجےمیں جو سیاسی کھیپ تیار کی گئی تھی اسے کرپشن ’’لازمی مضمون‘‘ کے طورپر پڑھایاگیا۔ یاد دہانی کے لئے عرض ہے کہ پیپلز پارٹی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیاتھا۔ میاں نوازشریف ،چوہدری برادران،شیخ رشیدسمیت سیاسی افق پرچھائے ہوئے 90فیصد کردار انہی غیر جماعتی انتخابات کا تحفہ ہیں۔ اقامہ ،پانامہ ، بھتہ خوری،سیاسی جماعتوں کی پرچیاں، قتل وغارت گری، سوئس بنکوں کے اکائونٹس،سرے محل،برطانیہ اورامریکی فلیٹس جیسی کرپشن کی لرزہ خیز کہانیاں ضیاالحق مارکہ انتخابات کے بعد رائج ہونے والی سیاست کا نتیجہ ثابت ہوئیں ۔کرپشن کی یہ کہانی نئی نہیں ہے سب جانتے ہیں کہ یہ پولیٹکل ایلیٹ ہم پر کس طرح مسلط کی گئی تھی ۔جنرل ضیاالحق نے بھٹو کی پھانسی کے بعد ایک منصوبہ بندی کے تحت پیپلز پارٹی کانام ونشان مٹانے کے لئے ’’ آرڈر پر مال تیار‘‘ کیا۔میاں نوازشریف اور ان کے رفقا کار انہی گملوں میں اگے تھے جن نرسریوں کو اب بند کرنے کے انقلابی نعرے بلند کئے جارہے ہیں ۔ منصفوں کی بات کریں تو سہروردی سے لے کر بھٹو تک عدالتی قتل اور نظریہ ضرورت میں لپٹے ہوئے فیصلے سامنے آتے رہے۔بے نظیر بھٹو نے میاں نوازشریف کے حق میں آنے والے عدالتی فیصلوں کو ’’چمک‘‘ کا عنوان دیاتھا۔میاں شہباز شریف اور جسٹس ریٹائرڈ ملک قیوم کے مابین ہونے والی وہ ٹیلی فونک ٹاک بھی ریکارڈ پر محفوظ ہے جس میں چھوٹے میاں صاحب اپنے کسی منظور نظر چوہدری سرور نامی ایم این اےکی نااہلی ختم کرنے کی سفارش کررہے ہیں۔اس دور میں چونکہ واٹس ایپ کال کی سہولت میسر نہیں تھی اسلئے ’’غازی تیرے پراسرار بندوں ‘‘ نے کال ریکارڈ کرلی تھی ۔2013کے انتخابات میںن لیگ کے منشور میں یہ نعرہ شامل تھا کہ عوام کو سستا اورفوری انصاف مہیاکیاجائیگا۔چار سال تک عوام کے اس بنیادی حق کی جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ جب پانامہ نمودار ہوا اور اقامہ کی بنیاد پر میاں صاحب کو نااہل قرار دے دیاگیا۔تب سے انقلابی ٹچ دیتے ہوئے سستے انصاف اور ووٹ کے تقدس کے نعرے تواتر سے بلند کئے جارہے ہیں۔
چکوال کے ضمنی انتخاب میں نون لیگ کے حیدر سلطان کے ہاتھوں پی ٹی آئی کے امیدوار کی شکست کو میاں صاحب کے حق میں ’’ریفرنڈم ‘‘ قراردیا جارہاہے۔چکوال میں ن لیگ کی کامیابی کو بنیاد بنا کر بعض تجزیہ نگار یہ کہہ رہے ہیںکہ منتخب نمائندوں کو گھر بھیجنے کا اختیار صرف عوام کو حاصل ہے ۔ یہی بات جب پیپلز پارٹی کے متفقہ اور منتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے لئے کہی جاتی تھی تو میاں صاحب کاArgument (دلیل)ا ور تھی ۔ اس وقت کہاجارہاتھا ۔۔۔بھئی !عدالت کا احترام کرو ،وزارت عظمیٰ چھوڑ اور گھر جائو ،عدالت اگر تمہارے حق میں فیصلہ دیتی ہے تو پھر واپس آئو۔۔ میاں صاحب نے میمو گیٹ اسکینڈل میں بھی جمہوری حکومت کے خلاف کالاکوٹ پہن لیاتھا۔ لالہ عطا اللہ عیسی خیلوی کا ایک گیت ہے ’’اج کالاجوڑا پا ساڈھی فرمائش تے‘‘ میاں صاحب نے کالاکوٹ نجانے کس کی فرمائش پر پہنا تھا؟قصہ مختصر سیاسی کامیابیوں کے لئے ہر حربہ اور ہر دائو آزمایاگیا کیونکہ اس وقت ووٹ کے تقدس کی جنگ لڑی جارہی تھی اورنہ ہی عوام کے لئے سستاانصاف مہیاکرنا ترجیح تھی۔چکوال فیکٹر پر بات کی جائے تو میاں صاحب سمیت ان کے حمایتی کہہ رہے ہیں عوام نے نااہلی کے فیصلے کوقبول نہیں کیا،بلکہ اب تو انہیں مظلومیت کے ووٹ بھی مل رہے ہیں۔ میاں صاحب اور نون لیگ کے سیاسی مخالفین خصوصاََ عمران خان،شیخ رشید اور نعیم بخاری لاہور سے این اے 120اور پی پی 20چکوال میں نون لیگ کی کامیابی سے حیران ہیں۔ چکوال میں اگر نون لیگ جیتی ہے تو بلوچستان میں اسے شکست بھی ہوئی ہے۔بلوچستان میں قاف لیگ دوبارہ زندہ ہورہی ہے۔ بالکل اس طرح جیسے فلم ’’دی ممی‘‘ میں بوقت ضرورت ممیاں زندہ ہوجاتی ہیں۔ثنا اللہ زہری کی حکومت ختم ہونے پر مجھے بھارتی شاعر ایندی ورکی استھائی یاد آگئی جسے لتا منگیشکر نے شرمیلاٹیگور کیلئے گایاتھا۔۔۔ہم تھے جن کے سہارے وہ ہوئے نہ ہمارے ۔۔ڈوبی جب دل کی نیاسامنے تھے کنارے۔۔ایک تاثر یہ بھی ہے کہ بلوچستان میں لائی گئی تبدیلی سے جمہوریت کو نقصان نہیں ہوگا بلکہ اس سے ریاست مضبوط ہوگی۔ریاست سے ناراض سیاستدانوں کو قومی دھارے میں شامل کرکے عوام کو وفاق سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔
میاں صاحب پر ہزار تنقید کی جائے لیکن ہمیں یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی چاہیے کہ وہ عوام کے محبوب لیڈر ہیں اور ایک بڑا ووٹ بنک ان کے ساتھ ہے۔ وہ اس مقام تک یونہی نہیں پہنچے انہیں یہاں تک پہنچانے میں جن قوتوں نے اس کارخیر میں اپنا حصہ ڈالا تھا ظاہر ہے انہوں نے تو یہ عظیم کام عوام کے وسیع تر مفاد میں سرانجام دیا تھا۔ لہذااب انہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں،ہمیں اپنے علاوہ دوسروں کو بھی محب وطن سمجھنا چاہیے۔ہم سب اورہمارے قائدین محب وطن ہیں اورہماری سب کی کوشش ہوتی ہے کہ وطن کی خدمت کرسکیں لہذا ایک دوسرے کو سیکورٹی رسک قرار دینابند ہونا چاہیے۔ میاں صاحب سمیت ان کے تھینک ٹینکس نے اس اندیشے کا اظہار کیاہے کہ 2018کے انتخابات کے لئے ’’انجینئرنگ‘‘ کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔محب وطن قوتوں کو کسی خاص سیاسی پارٹی یا کسی لیڈر کو لاڈلاسمجھنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے ۔شاید اسی لئے میاں صاحب نے شیخ مجیب الرحمان کا ذکر بھی کرڈالاہے۔شیخ مجیب کبھی قائد اعظم کا جیالا ہوا کرتاتھا لیکن 1966میں اس نے 6نکات پیش کردئیے تھے جنہیں وفاق کے خلاف بغاوت سمجھاگیا۔شیخ مجیب الرحمان نے ایسا کیوں کیااس پر بات کسی دوسری نشست میںہوگی ۔فی الحال زینب کا نوحہ کرنا چاہتاہوں جو اپنے نازک جسم اور ننھی روح پر وحشت کے داغ لئے دفن ہوگئی ہے ۔زینب کے ساتھ وحشیانہ سلوک پر جس طرح قوم تڑپ اٹھی ہے یہ ردعمل ضروری تھا لیکن اس بھی ضروری یہ ہے کہ ایسے مکروہ اور قبیحہ سانحات کی مکمل روک تھام کی جائے۔قوانین بنانے کے ساتھ ساتھ ان پر عملدرآمد یقینی بنایاجائے اور سب سے ضروری یہ ہے کہ بچوں کو اس فعل سے آگاہی فراہم کی جائے۔

تازہ ترین