• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف کے اس بیان نےکہ مجیب الرحمٰن کو کس نے محب وطن سے غدار بنایا، ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ اس بحث نے مجھے بھی بہت کچھ سوچنےپر مجبور کیا ہے۔ اس سوچ کا سرا 1906 میں مسلم لیگ کے بانی نواب سر سلیم اللہ سے جڑتا ہے۔
نواب سر سلیم اللہ کے بوڑھی گنگا کے کنارے واقع احسن محل کی سیڑھیوں پر بیٹھے میں عجیب خیالات میں کھو گیا، یہ وہی جگہ تھی جہاں 1906میں مسلم لیگ کا قیام وجود میں آیا۔ نواب احسن اللہ اس سے پہلے اسی جگہ پر کانگریس کے خلاف میٹنگز کی صدارت کیا کرتے تھے۔ وہ مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ جماعت کے قیام کے شدید حامی تھے اور اسی وجہ سے جب بعد میں نواب سلیم اللہ کو 1905 میں بنگال کے انتظامی طور پر دو الگ حصوں میں بٹنے کی وجہ سے مسلمانوں کو سکون کے سانس کے ساتھ ساتھ اکٹھا ہونے کا موقع ملا تو انہوں نے مسلم لیگ بنانے میں دیر نہیں کی۔یہ پاکستان کے قیام کی طرف پہلی پیش رفت تھی۔ ایک زمانے تک بنگال کے مسلمان جو مغربی پاکستان کے مقابلے میں تعداد میں زیادہ تھے، مسلم یونٹی کا خواب دیکھتے رہے۔ خود شیخ مجیب الرحمٰن بھی جو اپنی کتاب "Unfinished Memories" میں لکھتے ہیں کہ 1941میں وہ مکمل طور پر سیاست میں داخل ہو چکے تھے۔ انہوں نے گوپال گنج میں میٹنگز میں شرکت کرنا شروع کر دیا تھا۔ ان کے ذہن میں صرف اور صرف یہ سوچ تھی کہ مسلم لیگ کیلئے کام کیا جائے، اس لئے کہ انہیں یقین تھا کہ صرف مسلم لیگ کے علاوہ مسلمانوں کا کوئی اور مستقبل نہیں ہے۔ اسی یقین کے تحت انہوں نے گوپال گنج کے قریبی علاقوں جیسے مداری پور وغیرہ کا دورہ شروع کیا اور وہاں مسلم اسٹوڈنٹس لیگ بنانے میں مددگار ثابت ہوئے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہی شیخ مجیب الرحمٰن آخر کار مشرقی پاکستان کے مغربی پاکستان سے علیحدگی اور ایک الگ وطن بنانے کیلئے کیوں تحریک چلانے لگے۔ نواب سر سلیم اللہ کے مسلم لیگ کے اکثریتی صوبے والے لوگ کس طرح سے غدار ہو گئے؟ انہیں آخر کیوں مغربی پاکستان کے مسلمانوں سے اتنی نفرت ہو گئی کہ وہ ہر صورت میں ان سے الگ ہونے کیلئے ہندوستان سے سمجھوتے کی حد تک پہنچ گئے۔ عوامل پر غور کرتے ہوئے ہمیں چند حقائق کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ قدرت اللہ شہاب کی کتاب ’’شہاب نامہ‘‘ میں جب شہاب صاحب سیکرٹریوں کی ایک میٹنگ کا ذکر کرتے ہیں جس میں امریکہ سے آئی امداد کو تقسیم کرنے کی بات آتی ہے، تو خود شہاب صاحب کہتے ہیں کہ تمام سامان کی مغربی پاکستان کے لئے تقسیم کے بعد جو بچے کچے چند ٹوٹے ہوئے کموڈوں کی باری آئی تو ایک سیکرٹری نے کہا کہ یہ مشرقی پاکستان بھیج دیئے جائیں۔آج کی نسل کے لوگوں کو شاید تاریخ یہی بتاتی ہو کہ مشرقی پاکستان کے لوگ ہندوؤں کی سازش کا شکار ہو گئے اور یہ کہ مجیب الرحمٰن ایک غدار تھا جس نے ملک توڑ دیا۔ ضروری امر یہ ہے کہ اس نسل کے لوگوں کو کچھ حقائق اور بھی بتا دیئے جائیں۔ مغربی پاکستان کی بیورو کریسی اور فوجی جرنیلوں کے توسط سے ملے سیاسی نظام نے ان لوگوں کیساتھ کیا سلوک کیا؟ ضروری یہ بھی ہے کہ ہم مشرقی پاکستان کے رہنے والے مسلمانوں سے بھی پوچھ لیں کہ کیا وہ واقعی ہندو سیاست کا شکار ہوئے؟ کیا واقعی ان کے خمیر میں بغاوت تھی؟ ایسی بغاوت کہ جس کی بدولت انہوں نے سینکڑوں مغربی پاکستانیوں کے خون سے ہاتھ رنگے۔ میرے بنگلہ دیش کے 6 سے زائد دوروں میں مجھے جو تاثر سب سے زیادہ ملا وہ یہ تھا کہ میں کسی مسلم ملک میں آگیا ہوں۔ بنگلہ دیش کے لوگ اپنے عمل میں اس طرف کے لوگوں سے زیادہ بہتر مسلمان لگتے ہیں۔
مسجد بیت المکرم میں نماز کے وقت جو تعداد اور ولولہ نظر آتا ہے ایسا اس طرف کی مسجدوں میں کم نظر آتا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ایک مذہب ہوتے ہوئے وہاں اپنے ہم مذہبوں سے علیحدگی کا سوال پیدا ہوا؟ اس کا ایک جواب تو قدرت اللہ شہاب کی کتاب کے حوالے سے دے دیا۔ دوسرا جواب بقول مشرقی پاکستانیوں کے ان کا استحصال ہے۔ پاکستان بننے کے وقت ان کی تعداد 56 فیصد جبکہ ہماری تعداد 44 فیصد تھی۔ ہم نے ان پر ون یونٹ مسلط کیا تاکہ Parity کے نظام کے تحت ہم برابر کے حقوق لے سکیں۔ اس کے باوجود ہمارے تفاخر کا یہ عالم تھا کہ ہم نے ان پر اپنا کلچر اور اپنی زبان مسلط کرنے کی کوشش کی۔ ہم یہ جاننے میں ناکام رہے کہ بنگالی کسی بھی صورت اردو زبان کے تسلط کو برداشت نہیں کریں گے۔ ہم یہ جاننے میں بھی ناکام رہے کہ اگر ان لوگوں کو معیشت، فوج، صنعت اور سیاست میں برابر کے حقوق نہیں دیں گے تو مذہب ہمیں اکٹھا رکھنے میں ناکام ہو جائیگا اور جب بنگالیوں نے اپنے استحصال کے خلاف آواز اٹھانی شروع کی تو ہم نے انہیں سختی سے دبانے کی کوشش کی۔ مغربی پاکستان کے لوگ اس وقت حکومتی پروپیگنڈہ کا شکار تھے اسی وجہ سے اکثر لوگ یہ سمجھتے تھے کہ بنگال میں ہندوؤں کا تسلط ہے۔ ڈاکٹر کمال حسین جو بنگلہ دیش کے فارن منسٹر رہے ہیں اور اگرتلہ سازش کے تحت شیخ مجیب الرحمٰن کے ساتھ گرفتار رہے، کہتے ہیں کہ رمضان کے دنوں میں، میں نے ایک پٹھان فوجی سے کہا کہ مجھے پانی کا لوٹا لا دو میں وضو کرنا چاہتا ہوں تو وہ حیران رہ گیا کیونکہ اس کے خیال میں جن گرفتار لوگوں پر اس کی ڈیوٹی تھی وہ ہندو تھے۔ اس نے کہا کہ حیرانی کی بات ہے کہ آپ کے گرفتار کرنے والے روزے کے بغیر ہیں اور آپ روزے سے ہو۔ یہ سب تو ہوا” اُدھر تم اِدھر ہم“ کا نعرہ لگا لیکن اس سب کے باوجود اگر یحییٰ خان ہٹ دھرمی نہ دکھاتا، اقتدار شیخ مجیب الرحمٰن کے حوالے کر دیا جاتا، اگر بھٹو صاحب اور مجیب کو بٹھا کر کوئی سمجھوتا کرا لیا جاتا، اگر فوجی آپریشن نہ کیا جاتا تو شاید ہم اتنے بڑے سانحے کا شکار نہ ہوتے۔
دو قومی نظریئے پر بنا ملک صرف 24 سال بعد پھر دو حصوں میں بٹ گیا اور لاکھوں جانوں کی قربانی دے کر۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بعض لوگوں کے مطابق مشرقی پاکستان ایک بوجھ تھا تو پھر اس بوجھ کو اچھے طریقے سے الگ کیوں نہ کر دیا گیا۔ اس کیلئے اتنے لوگ شہید کرانے کی کیا ضرورت تھی؟ یا پھر سچ یہ ہے کہ جو شیخ مجیب نے بقول کھرصاحب بھٹو کیلئے آخری پیغام میں کہا تھا کہ ہم دونوں مارے گئے، تم بھی اور ہم بھی۔میرے ذہن میں وہ بنگالی چہرہ ابھی تک گھوم رہا ہے کہ جو آج بھی پاکستان کا پرچم بلند کئے بنگلہ دیش کے محمد پور کیمپ کا رہائشی ہے۔ یہ سب لوگ جو بہار سے بے وطن ہو کر مشرقی پاکستان پہنچے تھے۔ 71ء کی جنگ کے بعد سے کیمپوں میں رہ رہے ہیں انہیں کوئی ملک قبول نہیں کرتا۔ زندگی ان پر تنگ ہے اور بقول اس پٹھان کے کہ باہر جاتے وقت جب بنگالی اس کو طعنہ دیتے تھے کہ مل گیا پاکستان؟ تو اس کا دل چاہتا تھا کہ مغربی پاکستان کے وہ لوگ جنہوں نے اسے بھلا دیا ہے وہ انہیں مخاطب کر کے کہے کہ اب خوش ہو۔

تازہ ترین