• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بابا بلھے شاہ کے شہر قصور میں معصوم بچی زینب کے ساتھ جو کچھ ہوا ، اس پر جس قدر ماتم کیا جائے ، کم ہے ۔ اس سانحے پر جذبات کا اظہار کرنے کیلئے الفاظ میسر نہیں ۔ بس اندر سے ایک ہی آواز آ رہی ہے کہ ’’ کی جاناں میں کون ؟ ‘‘ زینب کو ایک درندے نے زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرکے کچرے کے ڈھیر میں پھینک دیا ۔ ’’ درکھلیاحشر عذاب دا۔برا حال ہویا پنجاب دا ‘‘ جب زینب کے واقعہ پر احتجاج اور ردعمل سامنے آیا تو پتہ چلا کہ صرف پنجاب میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں زینب جیسی کئی بیٹیاں اس طرح کی درندگی کا شکار ہو چکی ہیں ۔ ان بیٹیوں کی مظلومیت پر آنسو تو ہم بہا سکتے ہیں لیکن اس سوال کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں کہ ان بیٹیوں کو انصاف کیوں نہیں ملا ؟
اس طرح کے واقعات شاید دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی رونما ہوتے ہوں گے اور درندہ صفت انسان بھی ہر دور میں رہتے ہوں گے لیکن ہمیں شرمندگی ہو رہی ہے کہ اس طرح کے واقعات ہمارے عہد میں بھی رونما ہو رہے ہیں ۔ ہر دور میں اور ہر جگہ ایسے واقعات پر صرف ندامت کا احساس انسانی ضمیر کو مطمئن نہیں کر سکا ہو گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ مریضانہ اور مجرمانہ ذہنیت کے لوگ بیمار معاشروں میں جنم لیتے ہیں اور معاشرے کو بیما رکرنے والے عوامل اجتماعی رویوں کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ زینب اور دیگر بیٹیوں کے ساتھ ہونے والے اس وحشیانہ سلوک پر کلیجے پھٹ جاتے ہیں اور ہر اولاد والے کا دل کانپ جاتا ہے لیکن اس بات پر بھی بہت افسوس ہوتا ہے کہ فطری اور اجتماعی غم و غصہ کو کچھ لوگ اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ۔ دکھ میں چاہے کوئی بھی کسی مقصد کے تحت شریک ہو رہا ہو ، اس پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا لیکن خاموش رہنے سے دکھ میں اضافہ ہوتا ہے ۔ معصوم بیٹی زینب کا واقعہ میڈیا میں زیادہ اجاگر ہوا( اس طرح کے بہت سے واقعات میڈیا میں نہیں آتے ) لیکن اس واقعہ کو بعض لوگوں نے ٹی وی پر وقت حاصل کرنے اور اخبارات میں جگہ حاصل کرنے کا موقع گردانا اور کچھ لوگوں نے اسے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا لیکن حقیقی درد رکھنے والے ایسا نہیں کرسکتے ۔ اس کے باوجود میڈیا نے بہت مثبت رول ادا کیا۔
معصوم زینب کے واقعہ کے بعد اس طرح کے لاتعداد واقعات سامنے آ گئے ۔ منتخب ایوانوں میں لوگ چیخنے لگے اور تشویش ناک امر یہ ہے کہ ان واقعات میں انصاف نہ ملنے پر احتجاج ہو رہا ہے ۔ اس صورتحال سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارا معاشرہ کس قدر ٹوٹ پھوٹ اور بحرانوں کا شکار ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنی شناخت کی تلاش میں اپنا آپ بھی کھو چکے ہیں ۔ آج تک ہم اپنی قومی شناخت کے سوال سے دوچار ہیں ۔ جاگیردارانہ سماج کی اعلیٰ قدریں پیچھے چھوڑ آئے ہیں اور برائیوں کو سنبھال کررکھا ہے ۔ غیر جاگیردارانہ سماج کے لوگ بھی جاگیردارانہ ذہنیت کے حامل ہو گئے ہیں ۔ ہم نے جدید سماج کی اعلیٰ قدریں بھی نہیں اپنائیں ۔ ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں ۔ سب لوگ آج ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کہ قصور جیسے واقعات کے تدارک کیلئے قانون سازی کی جائے ۔ ہم شاید یہ بات نہیں جانتے کہ پاکستان اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ قوانین رکھنے والا ( Over-Legislated ) ملک ہے اور شاید دنیا کے ان ملکوں میں سرفہرست ہو گا جہاں قانون کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نئی قانون سازی سے کیا ہو گا ؟ اصل مسئلہ ذہنیت ( مائنڈ سیٹ ) کو تبدیل کرنے کا ہے ۔ معصوم زینب کو درندگی کا شکار بنانے والا شخص کسی ایسے معاشرے میں اس طرح کے بھیانک جرم کا ارتکاب نہیں کر سکتا جس معاشرے میں جزا اور سزا کا تصور ہو ۔ جس معاشرے میں کرپشن ، بیڈ گورننس اور ناانصافی ہو ، وہاں جزا و سزا کا نظام قائم نہیں ہوسکتا ۔ جہاں لوگوں کو عدالتوں سے انصاف کی توقع ختم ہوجائے ،جہاں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری سے غافل ہوں اور جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرتے ہوں ، جہاں کوئی اپنا کام نہ کرے اور دوسروں کے کام میں مداخلت کرتا ہو ، جہاں سرکاری دفاتر میں دکانیں کھلی ہوں ، ،جہاں طاقتور پر قانون کی گرفت نہ ہو ، جہاں میرٹ کا قتل کرکے من پسند لوگوں کو نوازا جاتا ہو ، جہاں کرپشن رواج ہو اور دولت عزت کا معیار ہو ، جہاں بچیوں اور خواتین کے معاملات پر سمجھوتوں کی ریت ہو ، وہاں زینب جیسی بیٹیوں کو ہم کیسے تحفظ دے سکتے ہیں ۔ ہمیں اپنے بچوں کو اس درندگی سے بچانا ہے تو کرپشن کا خاتمہ ، میرٹ کا نفاذ ، قانون کا اطلاق اور اداروں کو آزاد کرنا ہو گا اور سب سے بڑی بات یہ کہ ہم سب کو اپنا احتساب کرنا ہوگااور قوانین کا "enforcement" کرنا ہو گا ۔ ’’ اک نکتے وچ گل مکدی اے ‘‘
قومیں اپنے ساتھ رونما ہونے والے حادثوں اور المیوں پر ماتم کرتی ہیں لیکن وہ دیگر معاملات سے بھی لاتعلق نہیں رہ سکتیں۔ پاک امریکہ تعلقات آج بہت نازک موڑ پر ہیں اور ان تعلقات میں کشیدگی کی وجہ سے بہت خدشات جنم لے رہے ہیں ۔ امریکی صدر ٹرمپ کے پاکستان کے بارے میں اپنے منفی جذبات پر مبنی ٹویٹ کے بعد امریکی سینٹرل کمانڈ ( سینٹ کام ) کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل کا پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو فون خوش آئند ہے ۔ اس معاملے پر آئندہ تفصیلی بات کروں گا لیکن یہاں صرف یہ بتانا ضروری ہے کہ جنرل جوزف ووٹل امریکہ کی بہت اہم شخصیت ہیں ۔ پاکستان کو جنرل جوزف کے ذریعے امریکہ کے ساتھ روابط بڑھانا چاہئیں ۔ سینٹ کام امریکہ کی اہم مرکزی کمان ہے اور جنرل جوزف اصل آدمی ہیں ، جن کے ساتھ ڈائیلاگ کیا جا سکتا ہے ۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی سفارت کاری بہت مفید ہو گی۔

تازہ ترین