• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج میرے ہاتھ اور قلم کانپ رہے ہیں کچھ لکھنے کی سکت نہیں۔ دل پھٹا جارہا ہے ،خوف کی ایسی کیفیت سے دو چار ہوں جس کا بیان مشکل ہی نہیں ناقابل فہم بھی ہے۔ آج مجھے کسی ٹرمپ کی دھمکی کا خوف ہے نہ اس بات کی فکر کہ پاکستان کو ٹرمپ کی دھمکی افغانستان میں غیر ملکی افواج کو کس حد تک نقصان پہنچائے گی اور امن کی آڑ میں افغانستان میں اور کتنا خون بہے گا اور یہ خون رنگ و نسل سے بالاتر بے گناہوں کا ہے یا کسی گناہگار کا۔ آج میری سوچ کا محور ٹرمپ کی حماقتیں نہیں، مجھے سابق نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف کے عدلیہ، فوج مخالف المیہ بیانات، باغیانہ خیالات سے بھی کوئی سروکار نہیں کہ وہ مشرقی پاکستان کو پاکستان سے دو لخت کرکے بنگلہ دیش بنانے والے مرکزی کردار شیخ مجیب الرحمن کو محب وطن اور سیاسی مظلوم ثابت کرکے اپنی شکل میں ایک اور مجیب الرحمن کو کیوں تاریخ کا سیاہ باب بنانا چاہتے ہیں۔ اس سوچ کے پیچھے ان کے کیا عزائم کار فرما ہیں اور وہ سیاسی بھنور سے نکلنے کے لئے جو سیاسی لہجہ اختیار کئے ہوئے ہیں وہ پاکستان کو درپیش مسائل میں مزید اضافہ کرے گا یا ان کے لئے سیاسی آسانیاں پیدا کرے گا۔ مجھے اس سے بھی کوئی سروکار نہیں کہ وہ یہ دھمکی اداروں کو دے رہے ہیں یا عوام کو یا خود اپنے خاندان کو۔ آج مجھے عمران خان کی تیسری ’’پر اسرار روحانی شادی‘‘ خانہ آبادی میں بھی کوئی دلچسپی نہیںکہ خاں صاحب کے ستارے کیا کہتے ہیں اور اس روحانی شادی کے فیصلے سے کیا ان کی قسمت کے ستارے بدل جائیں گے یا وہ ’’روحانیت کی معراج‘‘ وزارتِ عظمیٰ کے منصب کو پا لیں گے یا نہیں۔ مجھے یہ کھوج بھی نہیں لگانی کہ اس روحانی شادی کے پیچھے پوشیدہ راز کیا ہیں اور حال کی بشریٰ بی بی ماضی کی ’’پنکی پیرنی‘‘ کی طلاق کیوں ہوئی اور ان کے سابق خاوند اپنے اس فیصلے سے اتنے مطمئن کیوں ہیں اور مجھے یہ بھی فکر نہیں کہ اس ’’گمشدہ شادی‘‘ کے خان صاحب کی سیاسی زندگی پر کیا اچھے، برے اثرات مرتب ہوں گے اور خان صاحب کی سو کہانیاں سو افسانے کبھی ختم ہوں گے بھی یا نہیں۔ آج مجھے بلوچستان کے سیاسی بحران اور اس کے نتائج میں ڈولتے سیاسی نظام پر بھی کچھ نہیںکہنا۔ مستقبل کی کوئی تصویر کشی کرنی ہے نہ کوئی تجزیہ۔ مجھے کسی بھوکے ننگے بچے، تعلیم یافتہ بے روزگارنوجوان کا کوئی نوحہ نہیں لکھنا، کسی بیوہ ماں کا دکھ نہیں رونا، کسی یتیم بچے بچی کی فریاد نہیں سنانی۔ آج بس دل خون کے آنسو رورہا ہے، پتھر کی دیواروں سے سر ٹکرانے کو دل چاہ رہاہے۔ آج پھر تین حرف کہنے ہیں ایسے تاریخ پر تاریخ دینے والے نظام حکومت اور نظام عدل پر جو آج تک کسی غریب کاسہارا بنا نہ کسی مظلوم کو انصاف دے سکا۔آج میں خوب رونا چاہتا ہوں، اپنی بے بسی پر، اس اپاہج نظام پر اور بے حِس معاشرے پر۔ میرے گرد آہوں سِسکیوں کا ایک گہرا حصار ہے جو مجھے اندر ہی اندر کھائے جارہا ہے۔ دکھ بڑا گہراہے۔ چوٹ ایسی لگی ہے کہ روح کانپ جائے۔ ایک درندہ میری ننھی پری زینب کو کھا گیا۔ زمین پھٹی نہ آسمان ٹوٹا۔ یہ کیسا وحشت ناک نظام ہے اور ہم درندوں کے کس معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ کبھی سوچا نہ تھا اسلام کے نام پر اور عزتوں کے تحفظ کی خاطر تخلیق پانے والے پاکستانی معاشرے میں یہ درندگی اس حد تک بڑھ جائے گی کہ یہاں ہماری عزتیں، معصوم بچوں کی زندگیاں اور حُرمت تک محفوظ نہ رہے گی۔ کہاں ہیں اس نظام کے رکھوالے اور ٹھیکیدار، میرا سوال اپنے سمیت ہر ایک سے ہے یہ بڑے بڑے انصاف کے ایوان ، قانون ساز ادارے اور ان پر اٹھنے والے اربوں کے اخراجات، لاکھوں کی تعداد میں سیکورٹی اہل کار، سی سی ٹی وی کیمرے اور کھربوں کے سیکورٹی بجٹ، حکمرانوں کی عیاشیاں اور ان کے اہل خانہ کی حفاظت پر خرچ ہونے والے قارون کے خزانے ہمارے کس کام کے؟ جو ایک معصوم زینب کی حرمت بچا سکے نہ زندگی، یہ کیسا نظام حکومت ہے جو صرف چند خاندانوں کی نمود و نمائش کا سبب بن رہا ہے، یہ کیسا عدل ہے جو صرف اشرافیہ کو تحفظ دے رہاہے۔ آج ہرطرف خود نمائی ، خود ستائش ہورہی ہے۔ سیاست دانوں کی طرح کھوکھلے دعوے، نعرے، ہٹو بچو کی کھینچا تانی جاری ہے اور ہم عوام اور ہمارے بچے بچیاں سڑکوں پر گلیوں محلوں میں سرعام درندوں کے ہاتھوں عزتیں لُٹارہے ہیں، قتل ہو رہے ہیں۔ رہی بات جمہوریت کے رکھوالوں کی تو انہیں اکیس کروڑ عوام کے پیسوں پر اپنی اولادیں پالنے سے ہی فرصت نہیں، انہیں ان قوانین سے سروکار ہے جو ان کی اولادوں کے تحفظ اور خوش حالی کی ضمانت دیں۔ ڈرہے کہ میڈیا چار دن شور مچا کر ٹھنڈا پڑ جائے گا، قانون ساز روپوں کو ڈالر بنانے میں پھر سے مگن ہو جائیں گے، سیاست دان کوئی اور ڈفلی بجائیںگے، پولیس اسی تنخواہ پر کام کرے گی۔ اخباروں کی شہ سرخیاں اپنا راستہ لیں گی، کالم نگار اور دانش ور نئے موضوعات تلاش کرنے میںمگن ہو جائیں گے، ٹی وی چینلوںکے ہاتھ کوئی نیا ایشو آ جائے گا، سب اپنی زندگی میں مگن ہو جائیں گے، آہ! یہ المیہ ہے، یہ داستان ہے ننھی پریوں کی تذلیل کی۔ جس معاشرے میں پریوں کو ونی کر دیا جائے، جائیداد ہتھیانے کے لئے قرآن سے ان کی شادیاں کر دی جائیں، بیوائوں کا حق مار لیا جائے، یتیم بچیوں کے سر پر ہاتھ رکھنے کے بجائے ان کا دوپٹہ کھینچ لیا جائے، لوگ ایک دوسرے کے دکھ سے لاتعلق ہو جائیں، اس معاشرے میں زینب لٹتی ہی رہے گی۔ افسوس، غصہ، شرمندگی جیسے احساسات زینب کے دکھ کے سامنے ہیچ ہیں۔ ننھی کلیوں کو مسلنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں لیکن اس واقعے نے جھنجورڑ کر ہی رکھ دیا۔ اُدھر زینب کی روح تڑپ رہی ہے، اِدھر میرا ضمیر۔ ہاں یہ علیحدہ بات کہ جن کے ضمیر مردہ ہیں وہ اس ظلم پر بھی سیاست چمکا رہے ہیں۔ یادرکھیئے کچرے میں پڑی لاش زینب کی نہیں تھی ، ہمارے ضمیر کی تھی۔ جب معاشروں کے ضمیر مردہ ہو جائیں تو زینب کی زندگی کی سانسیں ٹوٹ ہی جایاکرتی ہیں، ہاں البتہ امید کی کرن اس وقت نظر آتی ہے جب شہر کا شہر ننھی پری کے غم میں متحد ہو جائے۔ اس واقعہ نے تھانوں کے گھنائونے چہرے، عدالتوں کی غفلت اور پارلیمنٹ کی بے حِسی اور نااہلی کو بھی عیاں کر دیاہے۔ مظلوم کی داد رسی کے بجائے ظالم کی پشت پناہی ہماری پولیس کا وطیرہ بن چکا ہے۔ دوسری طرف اگر عدالتوں سے بروقت اور سستا انصاف فراہم ہو تو ایسے واقعات تواتر سے نہ ہوں۔
خدارا! خدارا!خادم اعلیٰ صاحب اس سوچ سے باہر آئیے، نظام کو ٹھیک کیجئے، یہ تبادلے ، یہ معطلیاں ہمارے غم کم نہیں کرسکتیں۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کھربوں روپے کے میٹرو اورنج لائن منصوبے، لمبی چوڑی سڑکیں غریب کی عزتیں محفوظ کرسکتی ہیں۔ صرف نظام کو ٹھیک کیجئے ، پیسہ بھی بچے گا عزت بھی۔ ورنہ اس معاشرے کی تباہی نوشتۂ دیوار ہے۔ آج اگر زینب کی میت پر گریہ کرنے والے سیاست دان ، قانون ساز ، بڑے منصف اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو قصور واریہی ہیں۔ کاش انصاف کرتے تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

تازہ ترین