• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں قصور میں ننھی سی کلی زینب کو درندوں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اور پھر قتل کر کے اس کی لاش کو کوڑے کے ڈھیر پر پھینک گئے ۔ شہر قصور میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ ان کا ایک تسلسل ہے ۔ مختلف رپورٹس کے مطابق گزشتہ دو سالوں کے دوران 12سے زائد ننھی بچیوں کی معصومیت کو نوچا گیا۔ ان سب کی لاشیں بھی اُس جگہ سے ملیں جہاں سے زینب کی لاش ملی تھی ۔ شہریوں کی برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے، جب یہ حد ختم ہوئی تو وہ قوم کی اس بیٹی کو انصاف دلانے کیلئے گھروں سے نکلے ، انہوں نے احتجاج کیا جسے میڈیا نے اپنے اپنے مفادات کے انداز میں اچھالا ، اگر یہ کہا جائے کہ معاملہ سلجھائو کی بجائے بگاڑ کی طرف گیا تو غلط نہیں ہوگا ، دوسرے روز جب لوگ انصاف کیلئے احتجاج کر رہے تھے تو پولیس نے ماڈل ٹائون سانحے کی یاد تازہ کرتے ہوئے براہ راست فائرنگ کر کے دو نوجوانوں کو ہلاک کردیا ۔ پھر کیا تھا وہ حکمراں جو21سال سے حکمرانی کررہے ہیں، سب جانتے ہیں کہ ان کے صوبے میں ایسے واقعات ملک بھر میں سب سے زیادہ ہیں۔ جنہوں نے ہمیشہ ایسے واقعات کو دبانے اور چھپانے کی کوشش کی لیکن جب میڈیا پر خبریں آنا شروع ہوئیں تو پھر مگر مچھ کے آنسوئوں کے ساتھ نوٹس لینے کو اپنی ذمہ داری سمجھی ،اور ایک بار پھر یہ نعرہ گونجا کہ جب تک مجرموں کو کیفرکردار تک نہ پہنچایا چین سے نہیں بیٹھوں گا۔ ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس صرف پنجاب میں 56سو 60ریپ کیس رپورٹ ہوئے، حالانکہ ان کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہے ۔ صرف جنوری 2017 سے جون2017 تک 1764بچوں سے زیادتی کے واقعات سامنے آئے اور 2015 کے مقابلے میں 2017 میں اس طرح کے واقعات میں 12.5فیصد اضافہ ہوا ۔ 2016 میں ایسے واقعات کے بعد ایک سو بچے اپنی زندگی سے ہاتھ دو بیٹھے ۔ ایک معتبر اخبار کے مطابق پنجاب بھر میں ایک برس کے دوران 9سو افراد کو ریپ ، گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا اور ایسے واقعات میں دوسو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ قصور وہ شہر ہے جہاں آئے روز زیادتی کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں اور 2015 میں متعدد لڑکوں اور لڑکیوں سے زیادتی کی جو ویڈیو سامنے آئی وہ بھی قصور سے تھی لیکن افسوس کہ حکمرانوں نے کبھی اِدھر توجہ نہ دی اور اس اسکینڈل کے33مقدمات میں سے 15خارج کردیئے گئے جبکہ دس ملزم رہا ہوگئے۔مگر جب عوام نے آواز اٹھائی تو اپنی سیاست بچانے کی خاطر انکوائری کمیٹیاں بنائی جاتی رہیں، عوام کو دھوکہ دینے کیلئے ملزموں کے سروں کی قیمتیں رکھ دی گئیں ،اُن کی نشاندہی پر کروڑوں روپئے انعامات کے اشتہار اخبارات میں شائع کروا کر اور متاثرین کے گھر رات کے اندھیرے میں پہنچ کر انہیں خاموش کرانے کے بعد اپنی تصاویر اخباروں کی زینت بنواتے رہے ۔ یہ روایتی انداز ان حکمرانوں کا خاصا ہے، اب سوشل میڈیا بہت زیادہ متحرک ہے تو ہر شہری اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے۔ بعض اوقات بہت اہم رد عمل اور خرابیوں کی نشاندہی ہوتی ہے اور بعض اوقات ایک غیر ذمہ دارانہ ردعمل بھی سامنے آتا ہے ۔ اس سانحے کے بعد عوام کے حقیقی جذبات جو سامنے آرہے ہیں وہ قومی اخبارات کے ذریعے بھی لوگوں تک پہنچنے ضروری ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ آج تک ایسے سانحات کے مجرموں کو کبھی کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا، حکمراں صرف تحقیقات کا حکم دینے اور اسی قسم کے ڈرامے کرنے سے عوام کو اب بیوقوف نہیں بناسکتے۔ یہ بہت بڑا سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر حکمرانوں کے کسی رشتہ دار سے زیادتی ہوتی تو وہ کمیٹیوں کے چکر میں پڑتے ۔ اگر معصوم تہمینہ سے لیکر عائشہ ، فاطمہ، نور فاطمہ ، لائبہ ، کائنات اور زینب ان کی پوتیاں ہوتیں تو وہ پریس کانفرنسیں کرکے اپنی تصاویر کو صفحہ اول کی زینت بنواتے ،اگر قصور میں پہلی کلی تہمینہ کے قاتل کو کیفرکردارتک پہنچایا جاتا تو آج یہ سانحہ پیش نہیں آتا؟ عوام کا کہنا تو یہ بھی ہے کہ حکمراں جس طرح ایسے واقعات پر اپنی سیاست چمکاتے اور اسکی آڑ میں اپنی کرپشن کو چھپاتے اور اپنی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں اور عوام جو ان ڈراموں میں آکر خاموش ہو جاتے ، پھر ایسے ہی درندوں کو منتخب کرتے ہیں تو پھر وہ دن دور نہیں جب ہر گھر سے اپنی اپنی زینب کا ماتم کر رہے ہوں گے اور یہ کہہ رہے ہوں گے کہ آئو بیٹیاں جلا دیں کہ شاید پھر انصاف ہو جائے۔ میں اپنی مریم جلاتا ہوں تو اپنی تہمینہ جلا ڈالو اگر ناموس بچانی ہے تو بدن کو خاک کر ڈالو۔ اگر انصاف چاہتے ہو تو گھر کے آنگن میں نہیں بلکہ شہر کے بیچ چوراہے پر بیٹیاں جلا ڈالو ،انصاف کی راہ میں جو بھیڑیئے قابض ہیں، یہ بھیڑیئے جلا ڈالو۔ شاید تمہاری ماریہ ، لائبہ اور زینب کو انصاف مل سکے ۔ خداراہ ایسے سانحات کو اپنی گندگی سیاست کیلئے استعمال نہ کریں۔ہم بیٹی زینب سے بھی کہتے ہیں کہ ہم تم سے شرمندہ ہیں ۔ ہم تیری عزت اور جان کی حفاظت نہ کر پائے۔ یہ حکمراں اپنی سیاست بچانے کی فکر میں تم کو بھول گئے۔ اے نیلی آنکھوں والی گڑیا۔ کوئی بات نہیں کہ اب تمہاری ماں ہر روز اُس وقت تک مرتی رہے گی جب تک قاتل درندے زندہ ہیں کیونکہ آج تک ایسے سانحوں میں کبھی سرعام سزائیں نہیں دی گئیں۔
ہاں مجھے یاد ہے کہ 1981 میں ایک مرتبہ باغبانپورہ لاہور میں قتل ہونیوالے پپو کے قاتل کو سرعام پھانسی پر لٹکایا گیا تھا۔لوگوں نے ایک آمر کو بھی شاباش دی، اب تو عوامی نمائندے لوگوں کی خدمت کے دعوے کرتے نہیں تھکتے مگر یہ کبھی عوام کے مفاد کیلئے کام نہیں کرتے ۔ بس تمہیں یہ بتانا مقصود ہے کہ اب حکمرانوں ،سیاستدانوں کو تمہاری لاش پر ایک نئی دکانداری کا موقع مل گیا، تمہاری عزت کی بربادی کے بعد ان کے منافع شروع ہوگئے اور جب تک جاری رہیں گے جب تک کوئی اور بنت حوا بھیڑیوں اور درندوں کی ہوس کا نشانہ نہیں بنتی۔
زینب اور اس جیسی حوا کی بیٹیاں جو درندوں کی ہوس کا نشانہ بنتی ہیں اور پھر قانون بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ، پولیس بھی ان درندوں کی آبیاری کرتی ہے اس حوالے سے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارا موجودہ انصاف کا نظام، ناقص تفتیش ، پاکستان پینل کورٹ ایکٹ اور انتظامیہ ذمہ دار ہے، مقدمات کا ٹرائل روزانہ کی بنیاد پر نہیں ہوتا ، تفتیش میں کئی کئی سال لگ جاتے ہیں اور مجرموں کو سیاسی سرپرستی حاصل ہوتی ہے تو اس ڈھیل کی وجہ سے مجرم بچ جاتے ہیں۔ جب ہم موبائل اور انٹرنیٹ کو بغیر کسی ضابطے کےعام کر دیں گے تو ایجوکیشن نہیں ، فحاشی پھیلے گی۔ کیا ہم بے مہار میڈیا کو کنٹرول کرنے کی طرف توجہ نہیں دے سکتے، جس کا ایسی برائیوں کے پھیلائو میں کردار ہے.ہر شہری کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی آئینی ذمہ داری ہوتی ہے۔ کیا حکومت اور حکمراں ملک میں ایسا پُرسکون ماحول اور نظام فراہم نہیں کر سکتے ۔ جس سے ایسے دلخراش واقعات ہی نہ ہوں۔

تازہ ترین