• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ہاں عموماًعدالتوں میں زیر سماعت مقدموں کے فیصلوں میں غیر معمولی تاخیر کی شکایت کی جاتی ہے۔بعض مقدمات ،خاص طور پر جائیدادوں سے متعلق کیسوں کے فیصلوں میں چالیس پچاس برس لگ جاتے ہیں اور ایک نسل کا مقدمہ دوسری نسل تک منتقل ہوتا ہے۔اس کے بعد بھی جو فیصلہ آتا ہے ،اس پر عملدرآمد میں انتظامی مشینری ،پولیس اور دوسرے اداروں کی بد نظمی رکاوٹ بنتی ہے۔ پاکستان کے قانون و انصاف کمیشن کے مطابق نومبر 2017تک تمام ملکی اعلیٰ اور ماتحت عدالتوں میں 18لاکھ سے زائد مقدمات زیر التوا تھے۔اس وقت عدالت عظمیٰ میں38ہزاراکہتر،اسلام آباد ہائیکورٹ میں16ہزار دوسو چوالیس،لاہور ہائیکورٹ میں1لاکھ سینتالیس ہزارسے زائد،سندھ ہائیکورٹ میں93ہزار چارسو ،پشاور ہائیکورٹ میں 29ہزار پانچ سواور بلوچستان ہائیکورٹ میں 6ہزار پانچ سو سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں۔یہ ایسی صورتحال ہے جس پر صرف عوام ہی نہیں بلکہ جج صاحبان بھی تشویش محسوس کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سربراہ جسٹس میاں ثاقب نثار نےہفتہ کو کراچی میںاپنے خطاب میں بجا طور پر نشاندہی کی کہ ہائیکورٹ کے ججوں کو دو تین ماہ میںاپنے مقدمات نمٹا دینے چاہئیں اور دوسر ی عدالتوں میں بھی جلد فیصلے ہونے چاہئیں۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ماتحت عدلیہ میں کرپشن موجود ہے جس کے باعث عام سائلین کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہےجبکہ وہ وکیلوں کی مہنگی فیسیں الگ بھرتے ہیں۔مقننہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ فرسودہ قوانین کا جائزہ لےکر نئے تقاضوں کے مطابق نہ صرف قانون سازی کرے بلکہ اس پہلو کو بھی یقینی بنائے کہ عام لوگوں کو کم سے کم اخراجات میں فوری انصاف مل سکے۔ جرگے اور پنچایتی نظام بعض لوگوں کے ناپسندیدہ اثر سے وقعت کھوچکے ہیں اس لئے متبادل کے طور پر یونین کونسل کی سطح پر مصالحتی عدالتوں کا طریقہ کار وضع کرنے کیلئے سوئٹزرلینڈ اور برطانیہ کے جیوری سسٹم سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہےتاکہ بروقت انصاف ممکن ہوسکے اور اعلیٰ عدالتوں پر بھی بوجھ میں کمی آئے۔

تازہ ترین