• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدمات و حادثات دل پر زخم لگاجاتے ہیں جو نظر نہیں آتے لیکن اداس اورغمزدہ کر جاتے ہیں۔ اللہ پاک کا نظام ہے کہ وقت ہی زخم لگاتا اور وقت ہی مندمل کرتا ہے۔ دکھ کامداوا ہو جائے تو وہ مرہم بن جاتا ہے لیکن اگر مداوے کی امید دور دور تک نظر نہ آئے تو دکھ اور کرب کی گھڑیاں طویل ہو جاتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل میں ڈیڑھ ماہ کے لئے امریکہ کے ایک شہر میں تھا۔ قدرتی حسن اپنی جگہ مگر نظم و نسق نہایت متاثر کن..... فرائض کی ادائیگی کااحساس اور انتظامیہ کی اہلیت و کارکردگی، حکمرانوں کی صلاحیت اور گورننس کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ بات تو فقط اتنی سی ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی حد درجہ ترقی کرچکی ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانا اور انتظامیہ کی صلاحیت کو بہتر بنانا حکمرانوں کا فرض ہے مگر اس فرض کی سرانجام دہی کے لئے بصیرت اور اہلیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی منظم اور قانون کی حکمرانی والے معاشرے میں جائیں تو جہاں اپنی انتظامیہ کی کرپشن، نااہلی، سردمہری اور ناکامی کا احساس شدت سے ہوتا ہے، وہاں اپنے حکمرانوں کی بصیرت و اہلیت پر بھی رونا آتا ہے۔ جن حکمرانوں میں تبدیلی لانے اور انتظامی مشینری کو بہتر بنانے کی صلاحیت ہوتی ہے وہ تو چار پانچ برسوں میں ہی یہ کارنامہ سرانجام دے دیتے ہیں لیکن جو بصیرت، حکمت اور اہلیت سے محروم ہوتے ہیں۔ دو تین دہائیوں میں بھی کچھ نہیں کرسکتے، وہ عوام کادل بہلانے کے لئے دکھاوے کے منصوبے اور سیاسی شعبدے دکھاتے رہتے ہیں جبکہ لوگوں کے مسائل، دکھ اور عدم تحفظ میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ نمائشی منصوبوں کا نتیجہ سوائے خزانے کے زیاں کے، کچھ نہیں ہوتا۔ دراصل یہی حکمرانوں کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ قومی خزانے، عوام کے دیئے ہوئے ٹیکسوں اور وسائل کا استعمال کس طرح کرتے ہیں اور ان کے منصوبوں سے عوام کو کس قدر فائدہ پہنچتا ہے؟ خزانے کا کتنا حصہ حکمرانوں کی پبلسٹی، شان وشوکت اور سیکورٹی پر خرچ ہوتا ہے؟
بات ذرا دور نکل گئی۔ میں عرض کر رہا تھا کہ میں امریکہ کے ایک خوبصورت ٹائون میں کوئی ڈیڑھ ماہ رہا اور ان کی انتظامیہ کی کارکردگی دیکھ کر رشک کی آگ میں جلتا رہا کہ ہمارے ہاں اس کا معمولی سا عکس بھی نہیں ملتا۔ ہمارے لوگوں میں اللہ کی دی ہوئی ذہانت بھی موجود ہے، انتظامی مشینری بھی موجود ہے، قوانین بھی موجود ہیں، طریقہ کار بھی طے شدہ ہےاور اس نظام کا خاصا حصہ ہمیں انگریز حکومت سے ورثے میں ملا ہے۔ یہی سسٹم انگریز کے دور میں منظم اور کارگر تھا۔ اب یہ اس قدر سردمہر، کرپٹ اور نااہل کیوں ہو گیا ہے؟ موٹی موٹی وجوہ تو جوابدہی کا فقدان، حد سے بڑھی ہوئی سیاسی مداخلت، کرپشن اور زر کی ہوس، گرفت سے بے خوفی، سفارشی بھرتیاں اور اہلیت و تربیت کی کمی ہیں، جن کا مداوا ہمارے حکمرانوں کی ذمہ داری ہے مگر وہ تو خود اس مرض کے ذمہ دار ہیں۔ مختصر یہ کہ جب انتظامیہ کے مختلف شعبوں میں بھرتی کےلئے اراکین اسمبلیوں کو کوٹے دیئے جائیں گے ، اراکین کی مرضی سے ٹرانسفرز اور پوسٹنگ ہوگی، ضلعی انتظامیہ کا ہر اہل کار رکن اسمبلی کے ہاتھوں میں کھلونا ہوگا، زر کی ہوس اوررشوت کی حرص سر پر سوار ہوگی تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ صرف قصور کے ضلع میں ایک سال کے اندر اندر دو درجن سے زیادہ بچیاں اور بچے اغوا اور جنسی زیادتی کا نشانہ بن کر زندگی سے محروم ہوگئے اور سنگدل مجرموںکا نشان بھی نہیں ملا۔ پورے پنجاب میں بچوں سے زیادتی اور قتل کی ہرروز اتنی وارداتیں ہوتی ہیں کہ اخبارات ایسی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں۔ ہر خبر ظلم کی ایسی داستان سناتی ہے کہ دل پر زخم لگا جاتی ہے اور قلب و روح کا چین حرام کرجاتی ہے۔ یقین کیجئے قصور کی معصوم مسکراتی زینب کے سانحے نے میرے دل و جگر کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے لیکن میں سیاستدان نہیں کہ ننھی زینب کے والدین کے پاس جا کر تعزیت کروں اور میڈیا پر اپنی تشہیر کروں۔ خادم اعلیٰ کو اپنی مقبولیت کا بے حد یقین ہے لیکن وہ بھی رات کے اندھیرے میں صدمے سے نڈھال والدین کے پاس پہنچے کیونکہ انہیں علم تھا کہ دن کے اجالے میں جانا زندگی کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ قصور میں ایک سال کے اندر اندر اس طرح کے بہت سےسانحات ہوچکے ہیں۔ خادم اعلیٰ ان کے گھروں میں کیوں نہیں گئے؟ کیونکہ انہیں میڈیا نے اُچھالا نہیں۔ غریب ا ور محروم لوگوں کی بچیاں اغوا ہوتی اور زیادتی کا نشانہ بن کر مردہ حالت میں کوڑے کے ڈھیروں پہ ملتی رہیں۔ خبریں چھپتی رہیں کہ پولیس نے نہ کوئی دلچسپی لی اور نہ ہی گمشدہ بچی کو ڈھونڈنے کی زحمت کی لیکن خادم اعلیٰ سے لے کر صوبائی انتظامیہ کے اعلیٰ افسران تک سبھی اسے معمول کا سانحہ قرار دے کر سرد مہر رہے۔ کرپشن، سنگدلی اور نااہلی کی داستان اس وقت میرے صدمے کو سہ آتشہ کرگئی جب میں نے ٹی وی کے ایک چینل پہ یہ سنا کہ جو پولیس کانسٹیبل کوڑے کے ڈھیر سے بچی کی لاش اٹھا کر لایا اس نے کہا کہ مجھے دس ہزار روپے انعام دیں میں نے آپ کی بچی کو ڈھونڈ نکالا ہے۔ تلخ سچ یہ ہے کہ ہماری پولیس مکمل طور پر کرپٹ، نااہل اور سنگدل ہے اوربڑے سے بڑے سانحے کو پیسے کمانے کاذریعہ بنا لیتی ہے۔ اب قصور میں احتجاج کےدوران گرفتار ہونے والے بھی پولیس کے لئے آمدنی کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ سنگدلی، ظلم اور نااہلی کی تاریک رات ہے جس کے خاتمے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے کیونکہ ہماری سیاسی قیادتیں نظام کو بہتر بنانے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ وہ صرف نمائشی منصوبے بنا سکتی ہیں اور ووٹ لینے کے لئے اشک شوئی کرسکتی ہیں۔ میںگزشتہ کئی دہائیوں سے اس تنزل کو دیکھ رہا ہوں لیکن احتجاج بے سود کیونکہ انتظامیہ میں حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی سیاسی مداخلت نے انتظامی مشینری کا بیڑا غرق کردیا ہے۔ خادم اعلیٰ موجودہ ڈھانچے کو بہتر بنانے کی بجائے کبھی ایلیٹ فورس بناتے ہیں، کبھی ڈولفن کے یونیفارم اور موٹر سائیکلوں سے قوم کو امید دلاتے ہیں لیکن یہ سب بے کار ہے۔ بات پھر دور نکل گئی۔ میں امریکہ کے جس ٹائون میں تھا وہاں پہنچتے ہی موبائل کے لئے سم لی۔ دوسرے دن میں اپنے موبائل فون پر ایک پیغام دیکھ کر حیران رہ گیا کیونکہ یہ بالکل غیرمتوقع تھا۔ مقامی پولیس کا پیغام تھا کہ دس منٹ پہلے پارک سے ایک دس سالہ بچی اغوا ہوئی ہے، جس کا حلیہ یہ ہے۔ اغوا کرنے والے کاحلیہ یہ ہے اور وہ اسے اس رنگ کی اس طرح کی کار میں لے کر گیا ہے۔ آپ چوکنا رہیں۔ یہ کار نظر آئے تو فوراً اطلاع دیں۔ ایک گھنٹے کے بعد پیغام ملا بچی مل گئی ہے۔ مجرم گرفتار ہوچکا ہے۔ اطلاع کسی شہری نے دی تھی جسے میری طرح پیغام ملا تھا۔ پولیس نے اغوا کے چند منٹوں کے اندر اندر کارروائی شروع کردی تھی۔ کیمرے نے اغوا کرنے والے کا حلیہ اور کار کی تفصیل بتا دی تھی۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں کیمرے خراب ہوتے ہیں، پولیس کئی دن مقدمہ درج نہیں کرتی اور نہ ہی تفتیش، فوری حرکت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔سراغ رساں ادارے سیاسی مخالفین کے خلاف مواد اکٹھا کرنے میں مصروف رہتے ہیں، انہیں وارداتوںکا سراغ لگانے کے لئے کہا ہی نہیں جاتا۔ کوئی حادثہ ہوتا ہے توچند دن شور بپا ہوتا ہے پھر وہی بے حسی اور موت کی سی خامشی۔ ان حالات میں، میں بہتری کی امید کیوں کررکھوں اور دل پہ لگنے والے زخم کس کودکھائوں؟ خدارا مجھے مایوس ہونے سے بچائو۔

تازہ ترین