• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنگ کے قاعدے ہوتے ہیں ،یہاں تک کہ شکاگو میں کھیلی جانے والی مَڈ ریسلنگ کا بھی کوئی ضابطہ ہوتا ہے مگر سیاست میں کوئی اصول نہیں ہوتا۔امریکی ارب پتی اور سابق صدارتی امیدوار،روز پیرٹ۔
نہ جانے کیوں مجھے یوں لگتا ہے جیسے روز پیرٹ نے یہ بات پاکستانی سیاست کے بارے میں کہی ہے۔ہر کھیل کے کچھ بنیادی اصول ہوتے ہیں یہاں تک کہ رسہ کشی اورکشتی کے بھی کچھ ضابطے ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں کھیلی جا رہی سیاسی شطرنج کی بساط پر کوئی اصول لاگو نہیں ہوتا۔کوشش کرتے ہیں کہ اس کے گُر کو جانیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر اپنے پالتو کتے ـکی ایک مختصر ویڈیو شیئر کی اور محض یہ لکھا ’’ہمارا زوروـ‘‘اس ویڈیو میں ایک طاقتور اور منہ زور کتا یوں دوڑتا ہوا لپکتا ہے کہ دیکھنے والے پر ہیبت طاری ہو جاتی ہے۔ہمارے ہاں اشرافیہ کو کتے پالنے کا بہت شوق ہے کیونکہ کتے بہت وفادار ہوتے ہیں۔اس سے پہلے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے ـ’’شیروـ ‘‘ کے چرچے تھے جو انہیں جنرل پرویز مشرف نے تحفے میں دیا ۔ اپنی کم علمی کے باعث کتوں کے بارے میں تو کچھ کہنے سے قاصر ہوں البتہ صحافت کے طالبعلم کی حیثیت سے یہ ضرور کہوں گا کہ ہمارے ہاں جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کی لڑائی بھی ـ’’شیروـ‘‘ اورـ’’زوروـ‘‘ کی سطح پر آ گئی ہے اور کسی اصول یا ضابطے کی پابند نہیںرہی۔
ـاپنے اپنے ’’شیرو‘‘ اور ’’زورو‘‘ آگے لانے کی تگ و دو میں جمہوری عمل اک تماشہ بن کر رہ گیا ہے اور لوگ اس سے بیزار ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ بلوچستان کے نئے وزیراعلیٰ میر عبد القدوس بزنجو2013ء میں آواران کے حلقہ پی بی 41سے 544ووٹ لیکر رُکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے جبکہ ان کے حریف امیدوار نے 95ووٹ لئے۔ اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 57666ہے مگر صرف672افراد نے ووٹ کاسٹ کیا۔اور یہ صرف ایک حلقے کی کہانی نہیں ۔بلوچستان کے بیشتر حلقوں میں سیاسی اور انتخابی عمل سے بیزاری کا یہی عالم دکھائی دیتا ہے کیونکہ ’’سیاسی انجینئرنگ‘‘ کا بے دریغ استعمال کرنے والوں نے ووٹ کا تقدس پامال کرکے انتخابات کو مذاق بنادیا ہے۔مثال کے طور پر پی بی 40نوشکی سے غلام دستگیر بدینی 5046ووٹ لیکر ایم پی اے بنے مگر یہاں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 61882ہے۔پی بی 48کیچ سے ڈاکٹر عبدالمالک 4539ووٹ لیکر کامیاب ہوئے مگر یہاں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 74374ہے ۔پی بی 49کیچ سے بھی نیشنل پارٹی کے امیدوار 3472 ووٹ لیکر کامیاب قرار پائے مگر یہاں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 40503ہے۔پی بی 42پنجگور سے نیشنل پارٹی کے رحمت علی 2072ووٹ لیکر رُکن اسمبلی منتخب ہوئے جبکہ یہاں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 42102ہے۔ژوب ،قلات سمیت بیشتر حلقوںمیں ووٹرز نے کم وبیش اس نوعیت کی لاتعلقی کا اظہار کیا ۔یہاں تک کہ کوئٹہ سے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی بی 4میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد66979ہے مگر یہاں سے پی کے میپ کے رضامحمد5352ووٹ لیکر الیکشن جیت گئے ۔جب مینڈیٹ کو بلڈوز کیا جائے گا اور اکثریتی جماعت کو دیوار سے لگا کر ایک ایسی جماعت سے وزیراعلیٰ لایا جائے گا جس کے پاس ایوان میں کل پانچ نشستیں ہیں تو لوگ انتخابی اور جمہوری عمل کو فراڈ ہی سمجھیں گے۔
بظاہر یوں لگتا ہے جیسے جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کی لڑائی ناک آئوٹ کی سطح پر آگئی ہے اور یہ بات اس لحاظ سے خوش آئندبھی ہے کہ ہم فیصلہ کن مراحل کی جانب بڑھ رہے ہیں ۔ہمارے ہاں ہمیشہ آدھا تیتر آدھا بٹیر والا معاملہ رہا ہے ۔اب یہ طے ہوجانا چاہئے کہ ہم تیتر ہیں یا بٹیر ؟یہاں حق حاکمیت کس کے پاس ہے ؟مگراڑچن تو یہ ہے کہ اس فیصلہ کن لڑائی میں ہم اہل قلم کیا کریں ؟کیا روائتی غیر جانبداری کے کھونٹے سے بندھے رہیں اور منافقانہ انداز میں اپنا مبہم کردار ادا کرتے رہیں یا پھر جوہمارے تئیں حق اور سچ ہے اس پر ڈٹ کر کھڑے ہو جائیں ؟
جب سے صحافت میں قدم رکھا ، ایک بات بہت تواتر سے سنی ہے، صحافی کو غیر جانبدار ہونا چاہئے مگر آج تک اس غیر جانبداریت کا مفہوم نہیں سمجھ پایا ۔ سائنس سے شغف رکھنے والوں کو معلوم ہو گا کہ کیمیائی طور پر ایک غیرجانبدار یا نیوٹرل مادہ اسے کہا جاتا ہے جو بے رنگ،بے بو اور بے ذائقہ ہو۔حرکیاتی طور پر نیوٹرل گیئر کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مشینری جامد رہے ،حرکت نہ کرے ،گاڑیاں چلانے والے نیوٹرل گیئر کی اصطلاح سے بخوبی واقف ہیں۔انسانوں میں بھی ایک قسم ہوتی ہے جسے ’’نیوٹرل ‘‘ کہا جاتا ہے اگرچہ عام افراد اس ضمن میں کوئی اور اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ہومیو پیتھک ادویات کو بھی میں غیر جانبدارشمار کرتا ہوں کیونکہ یہ کسی قسم کا فائدہ پہنچاتی ہیں نہ نقصان کا باعث بنتی ہیں۔اس لیئے جب بھی صحافیوں سے غیر جانبدار رہنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو میں حیران رہ جاتا ہوں اور سوچتا رہتا ہوں کہ ان لوگوں کی دلی مُراد کیا ہے؟کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ منافقت کی روش اختیار کرتے ہوئے شیطان اور رحمان دونوں کو راضی رکھا جائے؟ہمارے ہاں دو جملے بہت تواتر سے استعمال کئے جاتے ہیںمثلاًفریق اول کی جانب سے کہا جاتا ہے ’’صحافی اپنے ضمیر کے مطابق اپنا کردار ادا کریں اور حق بات کہیں ـ‘‘جبکہ فریق ثانی مطالبہ کرتا ہے کہ صحافی کسی کے ترجمان نہ بنیں اور غیر جانبدار رہیں۔یہ جملے تو ایک جیسے ہیں لیکن ان کا مطلب اور معانی بدلتا رہتا ہے۔جب کوئی برسراقتدار جماعت یہ کہتی ہے کہ صحافی اپنے کام سے کام رکھیں اور کسی کے ترجمان نہ بنیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم مزے میں ہیں تم لوگ اپنی اوقات میں رہو اور کلمہ حق کہنے سے پہلے ہم سے اجازت لے لیا کرو ۔اسی طرح جب کوئی گروہ آپ کو کلمہ حق کہنے پر اکساتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ لوگ مشکل میں ہیں ،ان کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے اور اب وہ آپ کے کندھے استعمال کرتے ہوئے میڈیا کے ذریعے شور و غوغا کرکے اس صورتحال سے نکلنا چاہتے ہیں۔
مارٹن لوتھر کنگ نے کہا تھا ـ’’جہنم کے گرم ترین مقامات ان افراد کے لئے مخصوص ہیں جو کسی اخلاقی کشمکش کے دور میںغیر جانبدار (یعنی نیوٹرل) رہتے ہیں‘‘ عین ممکن ہے میرے بہت سے دوست اس اخلاقی کشمکش کے دوران اپنی غیر جانبداریت برقرار رکھنا چاہتے ہیں مگر میں نے واپس’’جنگ‘‘ آکر اپنا مورچہ اس لئے سنبھالا ہے کہ میں جمہوریت کی اس فیصلہ کن جنگ میں ہرگز غیر جانبدار نہیں ہوں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ میں کبھی بھی غیر جانبدار نہیں رہا ۔سیاسی وابستگی کے نتیجے میں اپنے قائدین کی اندھی تقلید کرنے والوں اور حقیر ذاتی مفادات کے لئے سر دھننے والوں کا معاملہ الگ ہے وگرنہ کوئی بھی کالم نگار غیر جانبدار ہو ہی نہیں سکتا ۔

تازہ ترین