• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز عجب گومگو میں الجھ کر رہ گیا ہے ایک طرف امریکی صدر کی دھمکیاں ہیں جسکے ہر سطح پر اثرات مرتب ہوتے نظر آرہے تھے لیکن منفی رد عمل کو ختم کرنے کے لئےہوسکتا ہے کہ خود امریکی ذرائع نے یا اسکی خفیہ ایجنسیوں نے، جو ہمیشہ پاکستان تو کیا دنیا کے ہر ملک میں ہر وقت مصروف عمل رہتی ہیں، ملک میں اندرونی سطح پربے چینی پیدا کرنے کیلئے اس قدر اچھالا کہ عوام اور حکمرانوں کا دھیان بٹ گیا اور ذرائع ابلاغ بھی اندرونی سانحے کے پیچھے لگ گئے اور بیرونی سانحے کو بھلا دیا یقیناً اس نازک معصوم بچی کےخون ناحق نے درندگی اور وحشت کی انتہا کر دی لیکن اس حادثے سے قبل بھی اسی شہر میں بارہ اسی نوعیت کے سانحات رونما ہو چکے ہیں اس سے قبل کہیں کسی نے آواز بلند کیوں نہیں کی، کہیں کوئی احتجاج نہیں ہوا حالانکہ ایک نہ دو پوری بارہ نوخیز کلیوں کو مسلا گیا روندا گیا اس سے زیادہ وحشت ناک بات کیا ہوگی جبکہ قبل بھی اس شہر قصور میں نوخیز بچوں کے ساتھ درندگی کی گئی اور ان کی ویڈیو بنائی گئی اس پر بھی معاشرہ خاموش رہا حالانکہ وہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا اب بھی پنجاب کے وزیر قانون بڑی بے حیائی سے یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ ہم نے کچھ مجرم پکڑ لئے ہیں ابھی تفتیش ہو رہی ہے اور ایسے غلیظ انداز میں صفائی پیش کر رہے تھے اور ٹی وی اینکر جو جائے حادثہ پرموجود تھا لوگوں کو دلاسا دے رہا تھا اس سے کہہ رہے تھے کہ تم لوگوں کو بھڑکا رہے ہو، وہ بار بار ہر سوال کے جواب میں ایک ہی بات دھرا رہے تھے کہ یہ آگ تم لوگوں کی لگائی ہوئی ہے یعنی ان کا کہنا تھا کہ اگر ٹی وی چینلز ایسے واقعات کو براہ راست نہ دکھائیں تو عوام کو پتا ہی نہیں چلے گا۔ ان کا خیال تھا کہ اس سانحے سے ان کے مخالف سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئےیہ تماشہ کر رہے ہیں، اگر ایسا واقعہ خود ان کے ساتھ یا ان کے کسی رشتہ دار یا قریبی ساتھی کے ساتھ پیش آیا ہوتا تو کیا وہ اسی طرح دلاسہ دیتےاور الزام تراشی کرتے؟ چلیں اگر اس سانحہ سے ان کے مخالفین کسی طرح کا سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے یہ ساری مہم چلا رہے ہیں تو اس سانحہ سے قبل اسی نوعیت کے واقعات پر ایسا رد عمل کیوں نہیں آیا ۔اس بار ایسا اسلئے ہوا کہ ہر چیز کی حد ہوتی ہے حکومت ، حکمرانوں اور انتظامیہ کی ایجنسیوں نے حد کردی ہے کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ، سب روز مرہ کے واقعات سمجھ کر آنکھیں بند کرلیتےہیں، آخر کب تک عوام برداشت کرتے رہتے برداشت کی بھی حد ہوتی ہے۔ اس تمام احتجاج کے باوجود بھی اس شہر میں ایک اور معصوم بچے کی لاش برآمد ہوئی ہے کیا پولیس، انتظامیہ اور حکمراں وقت سو رہے ہیں، اتنا ہنگامہ اور شور شرابا کرانے میں لوگوں کا خیال ہے خود حکمرانوں کا ہاتھ ہے تاکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان سے جو خوف کی فضا پیدا ہورہی تھی اسکا سدباب کیا جائے اور عوام کا دھیان بٹ سکے ،امریکہ کے خلاف جذباتی فضا بن رہی تھی عوام کا خیال تھا کہ تمام امریکی مصنوعات کا بائیکاٹ کردینا چاہئے خود انحصاری اختیار کرنی چاہئے، حکومت اور فوج ایک صفحہ پر آگئے تھے اب میاں صاحب جن کی جماعت حکومت کر رہی ہے جس کے وہ نا اہلی کے باوجود صدر ہیں خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے پر تلے ہوئے ہیں خود اپنی حکومت کے اداروں کے خلاف بر ملا الزام تراشی کر رہے ہیں وہ نہ صرف عوام کو بلکہ ملکی اداروں کو بھی اکسا رہے ہیں کہ وہ خود ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں،جو ادارے پس پردہ رہ کر میاں صاحب کو بھاری اکثریت دلا سکتے ہیں وہ ایسا اس بار کسی اور کے ساتھ بھی کرسکتے ہیں اس لئے میاں صاحب کوشش کر رہے ہیں کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ میاں صاحب کا شاید خیال ہو کہ اگر میں نہیں تو کوئی بھی نہیں اسی سبب وہ کھلم کھلا اپنی حکومت کے اداروں کیخلاف واویلا کر رہے ہیں، انصاف کی دہائی دے رہے ہیں روز بروز ان کی آواز بلند سے بلند تر ہو رہی ہے کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ میاں صاحب نے بڑی ہوشیاری سے اپنے گھر کے اندر کی مخالفت کو شہباز شریف کو وزیر اعظم نامزد کر کے قابو پالیابلکہ مسلم لیگ میں جو دھڑے بندی کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا وہ بھی ٹل گیا، اب جو ہوگا الیکشن میں کامیابی کے بعد ہوگا ،میاں صاحب کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ اپنے خلاف ہونے والی ہر بات ،ہر مہم جوئی کو یاد رکھتے ہیں اور موقع ملنے پر بدلہ لیتے ہیں ان کی جماعت کے حامیوں کا بھی یہ خیال ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ میاں صاحب خوب اچھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ آگے کیا ہونے والا ہے اورمحسوس کر رہے ہیں کہ ان کی سیاست کی کشتی بیچ منجدھار میں ہے تو اس میں مزید چھید کرنے کے بجائے کوشش کرنی چاہئے کہ جس طرح بھی ہو کنارے لگا لیا جائے لیکن شاید میاں صاحب کو انتقام کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آرہا یا شاید وہ اپنے سوا کسی پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں ہیں، نا اہلی ان کے حلق میں پھنس کر رہ گئی ہے جسے نہ نگلتے اور نہ ہی اگلتے بن رہی ہے ان کا بس نہیں چل رہا کہ وہ اپنی حکومت کے تمام ایسے مخالفین جو ان کی راہ میں کسی بھی طرح رکاوٹ بن رہے ہیں انہیں نیست و نابود کر دیں۔انکا شاید یہی مزاج ہے اس سے قبل بھی ان کے حامیوں نے عدالت عظمیٰ پر حملہ کیا تھا ایک بار تو میاں صاحب خود کالا کوٹ پہن کر عدالت میں آگئے تھے،
ان کے مزاج کا حصہ ہے کہ وہ جو چاہتے ہیں ،جیسا چاہتے ہیں اسے ویسا ہی ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں اگر ویسا نہ ہو تو آپے سے باہر ہوجاتے ہیں یہی کیفیت آج کل ان کے مزاج کی نظر آرہی ہے۔ حالانکہ ٹرمپ کی دھمکی کوئی ہوائی دھمکی نہیں ہے ایک بڑی اہم سپر پاور کی دھمکی ہے جس کی خوشا مدہمارے حکمراں کرتے رہے ہیں ،اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ کیا رد عمل سامنے آتا ہے پاکستان نے بظاہر دو ٹوک جواب دے کر امریکی دھمکی کا اثر نہیں لیا ہے جس سے اہل سیاست اور عوام کو خدشہ ہے کہ کہیں امریکہ کسی ہیبت ناک پاگل پن کا مظاہرہ نہ کرے لیکن الحمدللہ ہماری افواج بھی کسی سے کسی طرح کم نہیں لیکن دشمن کو کبھی کمزور نہیں سمجھناچاہئے، جبکہ امریکہ تو ویسے ہی بہت طاقتور ہے ،اللہ ہماری ،ہمارے وطن عزیز کی حفاظت فرمائے اور ہر بلا اور آفت سے محفوظ رکھے، آمین۔
kk
چھوٹی مگر مشکوک باتیں
فکر جہاں…محمد مہدی
چند ہفتے قبل کی بات ہے۔ مقامی پولیس کے جوان انار کلی میں معمول کا گشت کر رہے تھے۔ غالباً ان کو سلامتی کے حوالے سے غیر معمولی حالات کے سبب سے یہ ہدایت جاری کی گئی تھی کہ غیر ملکی افراد کی تمام احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے شناختی دستاویزات کی جانچ پڑتال کریں۔ دنیا بھر میں یہ ایک معمول کا معاملہ تصور کیا جاتا ہے اور دوست ممالک کے شہری بھی اس پر ناگواری کا احساس ظاہر نہیں کرتے۔ قصہ مختصر، پولیس نے چند چینی افراد کو چہل قدمی کرتے ہوئے دیکھا اور دوستوں سے شناخت طلب کی۔ مگر رد عمل غیر معمولی طور پر غیر متوقع اور جارحانہ سامنے آیا۔ پولیس والے بھونچکا رہ گئے۔ جب ان افراد نے اپنی شناخت کروانے اور کسی بھی قسم کی شناختی دستاویزات پیش نہ کرنے کا رویہ اپنایا، غیر ملکی اور وہ بھی چینی۔ پولیس والوں کو سمجھ نہ آیا کہ چوک میں لگے اس تماشے سے جان کیسے چھڑائیں۔ بہرحال جان کسی نہ کسی طرح چھڑا لی گئی۔ مگر اس واقعے نے ہر اس شخص کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا جو کہ پاکستان اور چین کی مستحکم دوستی میں دونوں ملکوں کا مفاد دیکھتا ہے۔ کیونکہ اس نوعیت کے چھوٹے چھوٹے واقعات غلط فہمی اور رفتہ رفتہ معاملات کو بدمزگی کے حوالے کر ڈالتے ہیں۔ لازم ہے کہ ہم پاک چین دوستی کو ان دونوں المیوں سے بچانے کی غرض سے کھل کر اپنا نقطہ نظر بیان کریں۔ گزشتہ سال کی آخری سہ ماہی میں چینیوں کی دعوت پر دو بار چین کی سرزمین پر وقت گزارنے کا موقع ملا۔ دوستوں نے اس امر کا برملا اظہار کیا کہ انہیں سی پیک کے منصوبے کے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں پاکستان میں کچھ رکاوٹیں درپیش ہیں۔ غیر ضروری رکاوٹیں، شکایات افسوس ناک تھیں۔ اسی طرح پاکستان کے سرکاری ، سیاسی اور صحافتی حلقوں میں بھی بعض رویوں کے سبب سے چین کے معاملات پر ایک ابہام نظر آیا۔ دوستوں میں شکایت کی کیفیت ہو یا ابہام کا معاملہ۔ رفع فوراً ہونا چاہیے۔ پاکستان کے مقتدر سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں میں اس امر پر کافی تشویش پائی جاتی ہے کہ جو چینی حکومت چین کی طرف سے پاکستان آ رہے ہیں۔ وہ تو مکمل دستاویزات رکھتے ہیں مگر جو چینی براہ راست حکومت چین کی طرف سے نہیں آ رہے ان کی دستاویزات نا مکمل بلکہ مشکوک تک پائی گئی ہیں۔ مشکوک دستاویزات کے حامل افراد مشکوک دستاویزات پر کیوں سفر کر رہے ہیں؟ معاملے نے اس وقت مزید چونکا دیا۔ جب چینی باشندے ایک صوبے سے غائب ہوئے اور بدقسمتی سے قتل ہو گئے۔ چونکنے کا معاملہ یہ تھا کہ یہ ویزا جن وجوہات کی بنا پر لیکر آئے تھے اس کی بجائے عیسائیت کی تبلیغ میں، درپردہ، مصروف تھے۔ ایسی مزید مذہبی سرگرمیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ مقصد صرف تبلیغ ہے، اس کے آگے سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان میں غیر ملکی افراد کی حصص کی خریداری اور جائیداد خریدنے کے لئے باضابطہ قوانین موجود ہیں جو ان قوانین کے اندر رہتے ہوئے باآسانی خریدی جا سکتی ہے۔ کچھ معاملات میں سامنے یہ آیا کہ پاکستانیوں کو فرنٹ مین بنا کر جائیداد، حصص چینیوں نے خرید لئے۔ کاروبار کی دنیا میں کاروباری حربے ضرور استعمال کیے جاتے ہیں مگر ایسے حربے جن سے تشویش جنم لے، سی پیک اور دیگر سفارتی معاملات کے حوالے سے بہت نقصان دہ ثابت ہونگے۔ کاروبار کے حوالے سے یہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ بعض کاروبار کے دفاتر بنائے گئے مگر ان دفاتر سے کاروبار نہیں کیا جا رہا۔ کاروبار کے دفاتر سے اگر کاروبار نہ کیا جا رہا ہو تو ۔ دھوکے بازی کی جا رہی ہوتی ہے۔ یہ تصور کیا کیا گل کھلا سکتا ہے؟ اسی طرح پرائیویٹ سکیورٹی ایجنسیز کے قیام کا پاکستان میں طریقہ کار وضع کر دیا گیا ہے۔ کوئی کتنا ہی دوست کیوں نہ ہواسے قانونی طریقہ کار سے روگردانی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ شکایت اس حوالے سے بھی موجود ہیں۔ ابھی ان معاملات کی مکمل رونمائی عوامی طبقات میں نہیں ہوئی۔ اس لئے عوامی سطح پر یہ زیر بحث بھی نہیں۔ کچھ دن قبل پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان خان کاکڑ میرے پاس تشریف لائے۔ دوران گفتگو کہنے لگے کہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کا قرضہ نہ دے سکو تو وہ مزید قرضہ دے کر اپنا قرضہ واپس نکلوانے کی سبیل کرتے ہیں مگر سری لنکا جب چین کا قرضہ نہ دے سکا تو آج اس کی بندرگاہ چین کے پاس ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ پاکستان اور چین کی دوستی دونوں ممالک کے لئے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ چین میں جو بھی سی پیک پر بریفنگ ملی اس میں چینی دوستوں نے برملا اعتراف کیا کہ چین کے لئے سی پیک بنیادی اور پائلٹ پروجیکٹ ہے اور نہایت ضروری ۔ پاکستان کے لئے اس پائلٹ پروجیکٹ کی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ جن مسائل کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے ابھی اپنی ابتدائی شکل میں سامنے آرہے ہیں۔ لامحالہ جب سی پیک جیسے بڑے منصوبے پر عملدرآمد کیا جاتا ہے تو اس کے ساتھ نئے نئے چیلنج بھی درپیش ہوتے ہیں۔ یہ بھی اس نوعیت کے معاملات ہیں۔ دونوں ممالک کی حکومتوں کو فی الفور ان پر مشاورت کا عمل شروع کر دینا چاہئے۔ کیونکہ چھوٹی چھوٹی باتیں بسا اوقات بہت بڑی بن جاتی ہیں۔

تازہ ترین