• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میک اے وش فائونڈیشن لاعلاج مرض میں مبتلا بچوں کی آخری خواہش کی تکمیل کا عالمی ادارہ ہے جو دنیا کے 60سے زائد ممالک میں پھیلا ہوا ہے اور اِن ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ ادارے کا یہ مشن ہے کہ کوئی لاعلاج بچہ اپنی خواہش یا حسرت لئے اس دنیا سے رخصت نہ ہو۔ میک اے وش انٹرنیشنل ہر سال مختلف ممالک میں ’’وش لیڈر کانفرنس‘‘ منعقد کرتی ہے جس میں دنیا بھر سے میک اے وش فائونڈیشن کے الحاق ممالک کے سینکڑوں مندوبین شریک ہوتے ہیں۔ پاکستان جب سے میک اے وش فائونڈیشن کا الحاق ممبر بنا ہے، میں باقاعدگی سے ہر سال ’’وش لیڈر کانفرنس‘‘ میں شرکت کرتا ہوں اور اب تک10سے زیادہ ’’عالمی وش لیڈر کانفرنس‘‘ میں شرکت کرچکا ہوں۔ اس سال ’’وش لیڈر کانفرنس‘‘ کا انعقاد نیدرلینڈ کے شہر ویانن میں کیا گیا۔ 4 روزہ کانفرنس میں الحاق ممالک کے صدور اور سینکڑوں مندوبین موجود تھے جن سے ملاقات کے دوران ایک دوسرے کے قریب آنے، خیالات و تجربات سے آگاہی اور تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ کانفرنس میں فلاحی تنظیموں اور بین الاقوامی شہرت یافتہ عالمی شخصیات کو بھی لیکچرز کیلئے مدعو کیا گیا تھا تاکہ ان کے تجربات سے افادہ کیا جاسکے اور مندوبین میں جوش و جذبہ اور ولولہ پیدا ہو۔ کانفرنس کے ایک سیشن میں الحاق ممالک میں پورے سال کے دوران ہزاروں بچوں کی پوری کی گئی آخری خواہشات کی تکمیل میں سے 10 سرفہرست منفرد خواہشات کو منتخب کیا جاتا ہے جن کی فوٹیج شرکاء کو دکھائی جاتی ہے اور اس ملک کو اعزاز سے نوازا جاتا ہے۔ منفرد خواہش کی تکمیل کرنے پر میک اے وش فائونڈیشن پاکستان بھی یہ اعزاز حاصل کرچکا ہے۔
میک اے وش فائونڈیشن کو پاکستان میں متعارف کرانے کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ مجھے اس ادارے اور اس کے منفرد کام کے بارے میں آگاہی 2000ء میں اُس وقت ہوئی جب میں اپنی اہلیہ کے کینسر کے علاج کی غرض سے لندن میں موجود تھا جہاں کینسر اسپتال میں میری ملاقات میک اے وش فائونڈیشن کے رضاکاروں سے ہوئی جو کینسر میں مبتلا لاعلاج بچوں سے ان کی آخری خواہش دریافت کرنے آتے تھے۔ انہوں نے مجھے میک اے وش کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا۔ میں اور میری اہلیہ میک اے وش کے اغراض و مقاصد سے بہت متاثر ہوئے اور ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ اس عالمی ادارے کو پاکستان میں روشناس کرائیں گے۔ اہلیہ کی وفات کے بعد میں نے میک اے وش فائونڈیشن انٹرنیشنل امریکہ سے رابطہ قائم کیا۔مجھے اُس وقت شدید حیرانی سے دوچار ہونا پڑا جب مجھے ادارے کا یہ جواب موصول ہوا کہ "Pakistan is not on our map" (پاکستان ہمارے نقشے میں نہیں) لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور ادارے کے سربراہ سے وقت لے کر اُن سے ملاقات کیلئے امریکہ کے شہر فونیکس گیا جہاں میں نے ادارے کے صدر اور دیگر عہدیداران کو پریزنٹیشن دیتے ہوئے بتایا کہ ’’آپ کے ادارے کی سرگرمیاں دنیا کے بیشتر ایسے امیر ممالک میں ہیں جہاں کے والدین کیلئے اپنے بچوں کی خواہشات کی تکمیل کرنا کوئی مشکل کام نہیں لیکن میں جس ملک سے آیا ہوں وہاں غربت کے ستائے کچھ ایسے والدین بھی ہیں جو اپنے مرتے ہوئے بچے کی ایک چھوٹی خواہش بھی پورا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ میں نے عہدیداران پر واضح کیا کہ میں اُن سے کسی مالی تعاون کا خواہشمند نہیں بلکہ مجھے صرف اُن کے تجربات سے استفادہ حاصل کرنا ہے۔ ادارے کے تحفظات تھے کہ پاکستان میں کارپوریٹ سوشل رسپانسبلٹی تقریباً نہ ہونے کے سبب میک اے وش پاکستان میں کامیاب نہیں ہوسکے گا جس پر میں نے انہیں بتایا کہ انفرادی طور پر عطیات دینے والوں میں پاکستان دنیا میں سرفہرست ہے جن کے تعاون سے ان شاء اللہ میک اے وش بہت جلد ایک کامیاب ادارہ ہوگا۔‘‘ میری پریزنٹیشن سے میک اے وش فائونڈیشن انٹرنیشنل کے عہدیداران کافی متاثر ہوئے جس کے بعد انہوں نے مجھے پاکستان میں میک اے وش فائونڈیشن کے قیام کی اجازت دے دی۔ مجھے خوشی ہے کہ آج میک اے وش فائونڈیشن پاکستان لاعلاج مرض میں مبتلا ہزاروں بچوں کی خواہشات کی تکمیل کرکے نہ صرف کامیاب ادارہ بن چکا ہے بلکہ اسے گزشتہ سال برازیل میں منعقدہ ’’وش لیڈر کانفرنس‘‘ میں "Best Affiliat Member" کے ایوارڈ سے بھی نوازا جاچکا ہے۔
10سال قبل جب میں نے پاکستان میں میک اے وش فائونڈیشن کی بنیاد رکھی تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن اس ادارے کا شمار پاکستان کے سرفہرست فلاحی اداروں میں ہونے لگے گا۔ پاکستان میں اپنے قیام سے لے کر اب تک یہ ادارہ ہزاروں بچوں کی منفرد خواہشات کی تکمیل کرچکا ہے جن میں وزیراعظم نواز شریف، آرمی چیف جنرل راحیل شریف، ملالہ یوسف زئی، بھارتی سپر اسٹار اداکار سلمان خان اور WWF کے عالمی چیمپئن جان سینا سے ملاقات کرنا، ایک دن کا فوجی، ٹیچر، پائلٹ اور ایئرہوسٹس بننا، حج و عمرے کی سعادت حاصل کرنا، عیدالاضحی پر بکرے کی قربانی کرنا، راحت فتح علی خان کے ساتھ گانا گانا اور مختلف شوبز شخصیات سے ملاقات کرنا جیسی منفرد خواہشات بھی شامل تھیں۔ میک اے وش پاکستان آج تک جن بچوں کی آخری خواہشات کی تکمیل کرچکا ہے، اُن میں بڑی تعداد ایسے بچوں کی ہے جو آج ہم میں موجود نہیں لیکن مجھے خوشی ہے کہ وہ بچے کوئی خواب لئے اس دنیا سے رخصت نہ ہوئے۔
ہم اُن بچوں کی زندگیوں میں اضافہ تو نہیں کرسکے مگر اُن کی زندگی کے بقیہ دنوں میں خوشیاں ضرور لاسکے۔ ان تمام خواہشات میں سے ایک خواہش نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا، وہ سرگودھا سے تعلق رکھنے والی کینسر کے مرض میں مبتلا 14 سالہ عظمیٰ حیات کی وش تھی جس نے میک اے وش فائونڈیشن پاکستان کو بذریعہ خط اپنی آخری خواہش سے آگاہ کیا کہ ’’میں کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوں، میری آخری خواہش ہے کہ کراچی آکر مزار قائد پر حاضری دوں مگر غربت کے باعث ہمارے لئے یہ ممکن نہیں۔‘‘ خط موصول ہونے اور عظمیٰ کی بیماری کی تصدیق کے بعد میک اے وش پاکستان نے بچی کو والدین کے ہمراہ کراچی لانے کے انتظامات کئے۔ عظمیٰ کی ماں راستے بھر اپنی بیٹی پر زور دیتی رہی کہ کراچی جاکر مزار قائد پر حاضری دینے کے بجائے میک اے وش والوں سے ٹی وی سیٹ یا کوئی بڑی چیز مانگ لو مگر عظمیٰ اپنی خواہش پر بضد رہی۔ مزار قائد پر فاتحہ پڑھنے اور پھول چڑھانے کے بعد عظمیٰ کی خوشی قابل دید تھی۔ اس موقع پر میں نے جب عظمیٰ سے اْس کی منفرد خواہش کا سبب دریافت کیا تو اُس نے بتایا کہ ’’مجھے معلوم ہے کہ میری زندگی مختصر ہے لیکن میری ہمیشہ سے یہ خواہش رہی کہ کراچی جاکر اْس قائد کا شکریہ ادا کروں جس نے ہمیں اتنا پیارا وطن دیا۔‘‘ آج عظمیٰ ہمارے درمیان نہیں مگر جب بھی میرا گزر مزار قائد سے ہوتا ہے تو اُس کا چہرہ اور قائداعظم سے اس کی محبت کا جذبہ یاد آجاتا ہے، ساتھ ہی یہ خیال بھی آتا ہے کہ ہم صحتمند لوگ آج قائد کے دیئے گئے ملک کے ساتھ کیا سلوک روا رکھ رہے ہیں۔
لوگ اکثر مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ ’’آپ بچوں کی آخری خواہشات پوری کرکے اْن کے چہروں پر خوشیاں بکھیر رہے ہیں، آپ کی اپنی دیرینہ خواہش کیا ہے؟‘‘ میرا اُنہیں یہی جواب ہوتا ہے کہ میرے دل میں چھپی دیرینہ خواہش پوری کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں تھی اور نہ ہی یہ خواہش دولت سے حاصل کی جاسکتی تھی بلکہ میک اے وش کے ایک لاعلاج بچے کی دعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے کچھ سال قبل غسل کعبہ کی سعادت کی میری آخری خواہش پوری کردی اور میں نے خانہ کعبہ کے اندر نہ صرف 45 منٹ گزارے بلکہ اْس جگہ نفل نماز ادا کی جہاں نبی کریمﷺنماز ادا کرتے تھے۔ میرا یہ ایمان ہے کہ اگر آپ دوسروں کیلئے خوشیاں ڈھونڈیں تو آپ کو اپنے لئے خوشی مل جائے گی۔

تازہ ترین