• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ سفارتی زبان بھی بہت میٹھی زبان ہوتی ہے اس کی خوبی یہ ہے کہ مخالفین کو برا بھلا بھی میٹھے الفاظ میں کہنا پڑتا ہے، برے الفاظ کو بھی ایسی خوبصورت پیکنگ میں ڈال کر کہنا پڑتا ہے کہ عام آدمی سمجھ ہی نہ سکے کہ آیا تعریف ہورہی ہے یا برائی لیکن یہ بھلا ہو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہ انھوں نے عام آدمی کو بھی پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی نوعیت کسی بھی خوبصورت پیکنگ کے بغیر بازاری زبان میں سمجھا دی ہے لہٰذا اب پاکستان کا بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی نوعیت کیا ہے اور جن تعلقات کو پاکستان اور امریکہ کی حکومتیں گزشتہ دو دہائیوں سے خوبصورت پردوں میں چھپائے بیٹھی تھیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چند سیکنڈ میں وہ نقاب اتار پھینکاہے اور اب پوری دنیا کو دونوں ممالک کے اصل تعلقات کی نوعیت کا اندازہ ہوچکا ہے۔ اس وقت امریکی صدر کے الزامات پر دنیا کے اہم ممالک کی اکثریت یقین کرنے کو تیار نہیں ہے ،خاص طورپر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر متوازن فیصلوں نے دنیا میں امریکہ کی سپر پاور ساکھ کو بہت متاثر کیا ہے۔ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے امریکہ نے نہ صرف مسلم بلکہ غیر مسلم ممالک کو اپنے خلاف کرلیا ہے، جبکہ ایک جانب سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے لئے اربوں ڈالر کے معاہدے کیے تو اگلے روز قطر کے خلاف عرب ممالک کا اتحاد بنوادیا، ابھی یہ مسئلہ زوروں پر تھا تو اسی وقت امریکہ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کردیا جس سے ایسا محسوس ہوا کہ امریکہ نے مسلمان ممالک کو عرب قطر تنازعے میں مصروف کرکے اسرائیل کی خواہش کے مطابق یروشلم کو دارالحکومت قرار دیکر اپنا اور اسرائیل کا مقصد حاصل کرلیا۔ جس کے بعد امریکی صدر نے پاکستان کے خلاف اچانک انتہائی غیر سفارتی زبان استعمال کرتے ہوئے سنگین الزامات عائد کیے، لیکن ان الزامات پر بھی دنیا کے اکثر ممالک نے یقین نہیں کیا، شاید دنیا یہ جان چکی ہے کہ امریکہ کو صرف اپنے مفادات عزیز ہیں اور الزامات اور مفادات کے حصول کا یہ کھیل صرف مسلمان ممالک کیساتھ ہی نہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی ملک کیساتھ کھیلا جاسکتا ہے ۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران جاپان کے حوالے سے بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ جاپان میں تعینات امریکہ افواج کے اخراجات کیلئے جاپانی حکومت کو سالانہ فنڈ میں بھاری اضافہ کرنا پڑے گا ورنہ امریکہ وہاںسے اپنی افواج نکالنے پر غور کرسکتا ہے، جاپانی حکومت اور عوام کے لئے امریکی صدر کا یہ اعلا ن کسی بھی جھٹکے سے کم نہیں تھا جو اپنی قومی سلامتی کا سارا دارومدار امریکہ پر کرکے بیٹھے ہیں، امریکی صدر کے غیر سنجیدہ رویئے کے باعث عالمی برادری کو یہ امید کم ہی تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ انتخابات میں کامیابی حاصل کرسکیں گے تاہم ایسا ہوا اور ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر منتخب ہوئے اور پھر دنیا بھر کے ممالک نے اپنی پالیسیوں میں ہنگامی بنیادوں پر تبدیلیاں کیں اور اب دنیا ایک نئے امریکہ کے ساتھ رابطے میں ہے، پاکستان کے حوالے سے امریکی صدر کے غیر اخلاقی اور غیر سفارتی بیان کے بعد توقع یہی تھی کہ امریکہ کے اتحادی ممالک فوراََ امریکی پالیسی کے مطابق اپنی پالیسیاں بھی تبدیل کرینگے اور پاکستان مخالف بیانات اور اقتصادی پابندیوں کے اعلانات ہونا شروع ہونگے، خاص طور پر جاپان ان ممالک میں سے سمجھا جاتا ہے جو امریکی پالیسیوں پر سب سے پہلے عمل درآمد کرتا ہے، لیکن جاپان کی جانب سے ایسا نہ ہونا پاکستان کی بہت بڑی سفارتی و سیاسی کامیابی سمجھا جانا چاہیے، جبکہ اس سے بڑھ کر یہ ہوا کہ ٹرمپ کے پاکستان مخالف بیان کے صرف تین دن بعد ہی جاپانی وزیر خارجہ تارو کونو نے پاکستان کا سرکاری دورہ کیا ،یہ کسی بھی جاپانی وزیر خارجہ کا دس سال بعد پاکستان کا سرکاری دورہ تھا اس دورے میں جاپانی وزیر خارجہ نے پاکستان کے وزیر اعظم، وزیر خارجہ اور آرمی چیف سے ملاقاتیں کیں اور سب سے بڑھ کر امریکی صدرکے بیان کے برخلاف پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کوسراہتےہوئے بہترین کردار کی تعریف کی اور آرمی چیف کے ہمراہ شہداہ کی یادگار پر پھول بھی چڑھا ئے۔ جاپانی وزیر خارجہ کے اس اہم دورے میں پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے جاپانی وزیر خارجہ تارو کونو کودہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی قربانیوں سے آگاہ کرتے ہوئے ان اقدامات کے حوالے سے بھی بتایاجو پاکستان دہشت گردی سے پا ک کرنے کیلئے کررہا ہے۔ وزیر اعظم نے جاپانی وزیر خار جہ تاروکونو کو بھارت کی جانب سے پاکستان کی سرزمین پر دہشت گردی پھیلانے کی کوششوں اورکشمیر میں بھارت کی معصوم کشمیریوں کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے بھی آگاہ کیا ۔نیزجاپانی وزیر خارجہ نے پاکستان کیلئے جاپانی امداد اور فنی تعاون بھی تیز کرنے کے لئے جاپانی عزم کا اعادہ کیا۔ اس حوالے سے پندرہ فروری کو اسلام آباد میں معاشی پالیسی ڈائیلاگ کا انعقاد کیا جارہا ہے جس میں دونوں ممالک کے درمیان معاشی تعاون میں اضافے کے حوالے سے خصوصی مذاکرات ہوںگے۔
یہ ڈائیلاگ پاکستان اور جاپان کے درمیان معاشی تعاون میں اضافے کا سبب بنیں گے، اس حوالے سے جاپان میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹر اسد مجید خان جو جاپانی زبان سے بہترین واقفیت اور اپنی متحرک اور متاثر کن شخصیت کے سبب جاپان کے سیاسی اور حکومتی ایوانوں میں خاصا اثر ورسوخ رکھتے ہیں اور جن کی کوششوں کی بدولت بڑی تعداد میں جاپانی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کررہے ہیں، نے جاپانی وزیر خارجہ تارو کونو کے دورہ پاکستان کو عالمی حالات کے حوالے سے انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ تقریباََ دس سال بعد جاپانی وزیر خارجہ کا پہلا دورہ پاکستان تھا خاص طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان مخالف بیان کے بعد اس دورے کی اہمیت میں خاصا اضافہ ہوگیا تھا جو بلاشبہ پاکستان کی ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے۔ خاص طو ر پر جاپانی وزیر خارجہ کی جانب سے پاکستان کی حمایت میں بیان اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کوششوں کی تعریف کو عالمی سطح پر پاکستان کے لئے انتہائی مثبت قرار دیا جارہا ہے، پاکستانی سفیر کے مطابق جاپان کے کسی بھی وزیر اعظم نے دو ہزار پانچ کے بعد سے پاکستان کا دورہ نہیں کیاہے لہٰذا ان کی کوشش ہوگی کہ جاپانی وزیر اعظم سال رواں میں ہی پاکستان کا سرکاری دورہ کرسکیں۔ اس موقع پرپاکستانی سفیر ڈاکٹر اسدمجید خان نے کہاکہ پاکستان جاپان کے ساتھ معاشی تعلقات میں اضافے کے لئے بھرپور اقدامات کررہا ہے ہم جاپانی سرمایہ کاروں کو سی پیک میں سرمایہ کاری کی دعوت دے رہے ہیں، اس وقت بڑی تعداد میں جاپانی سرمایہ کار پاکستان جا بھی رہے ہیں جبکہ پاکستانی برآمد کنندگان کے لئے جاپانی مارکیٹ تک رسائی کی بھی کوشش کررہے ہیں توقع ہے کہ عنقریب مطلوبہ نتائج حاصل کرلیں گے ۔

تازہ ترین