• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ عرصے سے ترکی اور امریکہ کے تعلقات میں سرد مہری دیکھی جا رہی ہے۔ دراصل اس سرد مہری کا آغاز ترکی میں 15 جولائی 2016ء کو ناکام بغاوت کے بعد شروع ہوگیا تھا کیونکہ ترکی میں ایردوان حکومت کا تختہ الٹنے کے لئےامریکہ نے اپنے ہاں مقیم فتح اللہ گولن اور ان کی تحریک کے مہروں کا استعمال کیا تھا اور ترکی نے اس بارے میں تمام ثبوت امریکی انتظامیہ کو فراہم کئے تھے اور امریکہ سے ترکی کی ناکام بغاوت میں ملوث فتح اللہ گولن کو ترکی کےحوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن امریکہ نے ہمیشہ کی طرح ترکی کی جانب سے فراہم کئے جانے والے تمام شواہداور ثبوتوں کو ناکافی قرار دیا اور مزید ثبوت اور شواہد فراہم کرنے کا مطالبہ جاری رکھا۔ اس دوران ترکی کے وزیراعظم ،نائب وزرائے اعظم اور دیگر سرکاری حکام کی سطح پر ہونے والے دوروں کے دوران فائلز پر فائلز یعنی سینکڑوں کلو فائلز پیش کی گئیں لیکن اوباما انتظامیہ ٹس سے مس نہ ہوئی اور اب ٹرمپ انتظامیہ نے بھی ترکی کے اس مطالبے کی ذرہ بھر پروا نہ کی اور ہر بار مزید ثبوت فراہم کرنے کا مطالبہ جاری رکھا۔ صدر ایردوان کئی بار برملا اظہار کرچکے ہیں کہ ’’ امریکہ نے جب بھی ہم سے دہشت گردوں یا دیگر ملزمان کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہم نے فوری طور پر ان کو امریکہ کے حوالے کردیا لیکن آئندہ ہم اس وقت تک دہشت گردوں اور ملزمان کو امریکہ کے حوالے نہیں کریں گے جب تک امریکہ فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے نہیں کردیتا۔ ‘‘ ترکی اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی سرد مہری ہی کے نتیجے میں ترکی نے امریکہ جانے والے اپنے باشندوں کو محتاط رہنے سے آگاہ کیا ہے۔ترک وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں امریکہ جانے والے ترک باشندوں کو دہشت گردی ، تشدد کے واقعات کی بھر مار اور بلا وجہ گرفتاری اور حراست میں لینے کے واقعات میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے متنبہ کیا گیا ہے اور امریکہ میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات کی جانب توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ امریکہ میں ہونے والے دہشت گردی کے حملوں کے علاوہ ہجوم پر گاڑیاں چڑھانے کے واقعات میں بھی بڑا اضافہ دیکھا گیا ہے اور یہ زیادہ تر حملے ثقافتی مراکز، میٹرو اسٹیشن، پبلک عمارتوں ، اداروں، عبادت گاہوں، اسکولوں اور کیمپس پر کئے جا رہے ہیں اس لئے ترک باشندوں کوامریکہ جانے سے قبل اچھی طرح سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہاں گرفتاری یا حراست کی صورت میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے جاتے بلکہ امریکی انتظامیہ کی جانب سے کھلم کھلا فتح اللہ گولن کی حمایت کی وجہ سے ترک باشندوں پر جھوٹے مقدمات چلانے کے ساتھ سا تھ ان کو انصاف سے بھی محروم رکھا جارہا ہے۔
صدر رجب طیب ایردوان نےکہا کہ دہشت گرد تنظیم ’’ فیتو‘‘ کی 15 جولائی 2016ء کی ناکام بغاوت کے بعد اب ایک بار پھر امریکہ ہی میں مقیم مختلف عناصر مختلف سرگرمیوں کے ذریعے ترکی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نےدہشت گرد تنظیم ’’فیتو‘‘، سی آئی اے اور ایف بی آئی کے ذریعے ترکی میں حالات خراب کرنے کے لئےاپنی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں لیکن یہ عناصر کبھی بھی اپنی چالوں میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ 15 برسوں میں ترکی کی ترقی سے بے چینی محسوس کرنے والے متعدد حلقے ترکی سے حسد کرتے ہیں،یہ ترکی کی ترقی کو روکنے کے لئے جو کچھ کرنا چاہتے ہیں کرکے دیکھ لیں ہم اپنے ترقی کے سفر کو مصمم ارادے کے ساتھ جاری رکھیں گے۔ یاد رہےترکی نیٹو اتحاد میں شامل واحد اسلامی ملک اور مشرق وُسطیٰ میں امریکہ کے اہم ترین حلیفوں میں سے ایک ہے۔ تاہم حالیہ چند ماہ کے دوران مختلف معاملات پر انقرہ اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔ ترکی کے صدر ایردوان اس بات سے بھی پوری طرح آگاہ ہیں کہ امریکہ اور مغربی ممالک جان بوجھ کر اسلامی ممالک کو نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ اسرائیل کے لئے راہ ہموار کررہے ہیں۔ انہوں نے فرانس روانہ ہونے سے قبل اتاترک ہوائی اڈے پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم امریکہ، اسرائیل اور متعدد مغربی ممالک کی پاکستان اور ایران کے داخلی معاملات میں مداخلت برداشت نہیں کریں گے ۔ انہوں نے صدر ٹرمپ کی پاکستان پر الزامات سے بھر پور ٹویٹ پر بھی سخت ردِ عمل پیش کیا تھا اور صدر پاکستان کو ٹیلی فون کرکے پاکستان سے یکجہتی کا اظہار کیا تھا۔
صدر ایردوان امریکہ کی شام سے متعلق دوغلی پالیسی پر بھی شدید برہم ہیں ۔ انہوں نے امریکی صدر کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنی اس دوغلی پالیسی سے باز آجائیں ورنہ امریکہ کو علاقے میں ایسا نقصان اٹھانا پڑے گا جس کی تلافی ممکن نہ ہوگی۔امریکہ اس وقت شام اور ترکی کی سرحد پر ترکی کی دہشت گرد تنظیم ’’PKK‘‘ کی ایکسٹینشن ’’PYD‘‘ اور ’’YPG‘‘ کے 30ہزار جنگجوئوں پر مشتمل ایک نئی سرحدی فورس جسے ’’SDG‘‘ کا نام دیا گیا ہے قائم کررہا ہے ، ترکی اس نئی فورس کی تشکیل کے سخت خلاف ہے۔ صدر ایردوان نے اس سلسلے میں صدر ٹرمپ کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ علاقے میں نئی فورس قائم کرنے سے باز آجائے ورنہ ترکی جس نے کچھ عرصہ قبل شام کے علاقے میں ’’فرات ڈھال‘‘ کے نام سے جو فوجی آپریشن شروع کیا تھا اس کے نتیجے میں پہلے جبرالوس اور بعد میں ادلیب میں کامیابی حاصل کی اب اس آپریشن کو جلد ہی ’’آفرین‘‘ میں شروع کرتے ہوئے تیس ہزار جنگجوئوں پر مشتمل نئی فورس کو تتر بتر کرتے ہوئے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا جائے گا۔ ترکی کا خیال ہے کہ کرد جنگجو امریکہ کی ہمدردیاں حاصل کرکےترکی اور شام کی راہداری میں ایک نئی کرد مملکت قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس فورس کے قیام سے نئی مملکت کے قیام کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ ترکی نے امریکی اقدام کے بعد بڑی تیزی سے علاقے میں فوجی کمک پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ صدر ایردوان نے امریکہ کو واضح پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’وہ سانپ کو دودھ پلانے سے باز آجائے ورنہ یہی سانپ اسے کسی بھی وقت ڈس سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے ترکی کے اتحادی ملک امریکہ سے اپنی توقعات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس آپریشن میں ہم اپنے اتحادیوں سے اپنے باہمی دیرینہ تعلقات کی روشنی میں ترکی کا مکمل ساتھ دینے کی امید کرتے ہیں اور اس آپریشن کے نتیجے میں مثالی اتحاد، دوستی اور اسٹرٹیجک اشتراک کے کس قدر حقیقی اور قابلِ عمل ہونے کا پتہ چل جائے گا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ہمیں توقع ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک ترکی کی جائز کوششوں میں اس سے تعاون کریں گے اور اپنے شایان شان طرز عمل اختیار کریں گے۔‘‘ انہوں نے امید ظاہر کی کہ آفرین آپریشن کے دوران دوست اور دہشت گرد ایک ہی صف میں شامل نہیں ہوں گے۔ انہوں نے امریکہ پر دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’’دہشت گردوں کو امریکی وردی پہنانے اور ان کی کمین گاہوں پر امریکی پرچم لہرانے سے حقیقت کو نہیں جھٹلایا جاسکتا ۔ ان دہشت گردوں کو ٹریلروں اور طیاروں کے ذریعے پہنچایا جانے والا اسلحہ اب بلیک مارکیٹ میں فروخت ہورہا ہے اور ہم یہ مسلسل کہتے چلے آرہے ہیں کہ ’’آپ جس سانپ کو دودھ پلا رہے ہیں وہ کسی بھی وقت آپ کو ڈس سکتا ہے۔‘‘

تازہ ترین