• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلمانوں کے ازلی دشمن یہود وہنود راز و نیاز کر رہے ہیں۔
دہلی اور تل ابیب میں فاصلے گھٹ رہے ہیں۔
دہلی ایئرپورٹ پر یاہو مودی بغل گیری جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن ضرور بگاڑے گا۔
مودی پہلے بھارتی وزیراعظم ہیں جنہوں نے اسرائیل کی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ یاہو پچھلے 15 سال میں پہلے اسرائیلی وزیراعظم ہیں جو چھ دن کے دورے پر بھارت آئے ہوئے ہیں۔ اس دورے کے ایجنڈے میں عسکریت سرفہرست ہے۔ اس کے بعد تجارت۔ ویسے تو عسکریت بھی اب ایک تجارت ہی بن چکی ہے۔ اسرائیل سے اب تک بھارت ایک ارب ڈالر کا اسلحہ سالانہ لے رہا ہے۔ اسرائیل بھارت کو اسلحہ فراہم کرنے والوں میں ابھی چوتھے نمبر پر ہے۔ پہلے نمبر پر آنے کی اس کی تمنّا ہے۔ اسی لئے 100اسرائیلی کمپنیوں کے 130 نمائندے یاہو کے ساتھ دہلی میں اُترے ہیں۔ آتے ہی وہ بھارت میں پھیل گئے ہیں۔ بھارت کی مختلف بڑی کمپنیوں سے معاہدہ کر رہے ہیں۔ بھارت کے لئے سب سے زیادہ کشش ڈرون بنانے والے گروپ ’’ایروناٹک ڈیفنس سسٹم‘‘ میں ہے۔
اسرائیل اور بھارت دونوں ہمارے اتحادی امریکہ کے نک چڑھے ہیں۔ بلکہ ہماری آج کل کی زبان میں امریکہ کے لاڈلے ہیں۔ دونوں میں کئی امور قدر مشترک ہیں پہلی امریکہ کی سرپرستی۔ دوسری ہمسایوں سے دشمنی۔ ہمسایوں کو چین سے نہ رہنے دینا۔ دونوں میں سب سے اہم قدر مشترک مسلم دشمنی۔
مودی بہت ہی استقامت اور توجہ سے اپنے ایجنڈے کو تکمیل تک پہنچا رہے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن پر ایک چائے والے سے لے کر غاروں، جنگلوں، تہہ خانوں، آشرموں،مندروں سے ہوتے ہوئے پردھان منتری بھون تک پہنچنے والے نریندرمودی نے سارے پاپڑ ہی بیلے ہیں۔وہ ایک منجھے ہوئے جہاندیدہ۔ سرد و گرم چشیدہ گرگ باراں دیدہ (خرانٹ بھیڑیا) بن چکے ہیں۔ بھارت نے بھی امریکہ کی طرح اپنے قومی مفادات طے کر رکھے ہیں۔ کوئی بھی وزیراعظم ہو۔ کسی بھی سیاسی جماعت کا،وہ ان مفادات کی تکمیل کے لئے سرگرم رہتا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم کے وفد کے 130ارکان میں 11سالہ یہودی لڑکا موشے بھی ہے۔ جس کے والدین بمبئی حملوں میں مارے گئے۔ بھارت نے ان حملوں کا الزام پاکستان پر رکھ کر عالمی طور پر خوب فائدہ اٹھایا ہے۔
یہ دورہ بھارت اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات کی سلور جوبلی بھی ہے۔ باقاعدہ سفارتی تعلقات تو25 سال سے ہیں۔ لیکن بے قاعدہ تعلقات بھارت اور چین کے درمیان 1962ء میں سرحدی تنازع سے شروع ہوگئے تھے۔ 1971میں مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرنے کی بھارتی منظم کوشش میں اسرائیل نے مکمل ساتھ دیا تھا۔ اسلحے کی ترسیل جاری رکھی تھی۔ حالانکہ اس کے سرپرست امریکہ نے بھارت پاکستان دونوں کو اسلحے کی ترسیل پر پابندی عائد کردی تھی۔
اسرائیلی وزیراعظم سے بھارتی وزیراعظم کی جوشیلی جھپی (معانقہ) ہم پاکستانیوں کیلئے خطرے کی گھنٹی کیوں ہے؟
کیا ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے یا آنکھیں بند کرکے اپنے دھرنوں، ٹویٹوں، عدالتی پیشیوں، جنسی بے راہرویوں، مذہبی ریلیوں اور اپنے اپنے سیاسی بادشاہوں کی ناز برداریوں میں ہی مصروف رہنا چاہئے۔ ہماری سیکرٹری خارجہ اس وقت امریکی محکمۂ خارجہ کی ایک چھوٹی سی افسر کے پروٹوکول میں مصروف ہیں۔ ایک امریکی صدر کے ٹویٹ کے مقابلے میں امریکہ کے ادنیٰ اہلکاروں کے بیانات کو اہم سمجھا جارہا ہے۔ یہ سب ڈوبتے تنکے کا سہارا لینے کے مترادف کوششیں ہیں۔ 20کروڑ بالخصوص 60فیصد جوان آبادی والے ملک کو اتنے عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ ہمارے پاس اللہ کا عنایت کردہ بہت کچھ ہے۔ہم کچھ کرنے کی ٹھان لیں تو بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ یہود و ہنود کا گٹھ جوڑ ہمیں کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا۔ مگر ہم تو اپنی لگائی آگ میں جلتے رہتے ہیں۔ 1800علماء کا فتویٰ یقیناًخوش آئند ہے۔ لیکن ان علماء کو اب ان منحرفین سے مکالمہ کرنا ہوگا۔ جن کے ذہنوں اور دِلوں میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ ریاست پاکستان، اس کے سربراہ اور حکام مرتد ہوگئے ہیں۔ یہ واجب القتل ہیں، کیا ہم ان سب سے اسلحہ واپس لے لیں گے جو آئینی اور قانونی طور پر اسلحہ رکھنے کے مجاز نہیں ہیں۔ کیا اب جہاد کی پرائیویٹائزیشن ختم کردی جائے گی۔
پاکستان نے اسرائیل کے وجود میں آنے سے اب تک اس کو تسلیم نہیں کیا۔ ہر عالمی فورم پر اس کی مخالفت کی ہے۔ 70سالہ اس عرصے میں اسرائیل سے براہِ راست متصادم مسلم ملکوں نے اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کیا۔ بلکہ اس سے مضبوط سفارتی تجارتی تعلقات بھی قائم کرلئے ہیں۔ سابق صدر مشرف کہا کرتے تھے کہ ہماری ساری لڑائیاں انڈیا سے ہوئی ہیں۔ لیکن ہمارے پاسپورٹ پر لکھا جاتا ہے۔ All Countries of The World Except Israel۔ اس دور میں کوشش بھی کی گئی کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کئے جائیں۔ ہمارے برادر مسلم ملک ترکی نے پاکستان اور اسرائیل کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کی میزبانی بھی کی۔ نیو یارک میں ’’یہودی کونسل‘‘ کا نمک بھی ہم نے مشرف صاحب کے ساتھ ایک ڈنر میں کھایا۔ یہودی بھی پاکستانیوں کی میزبانی کرکے پرجوش تھے۔ کئی ہفتوں تک پاکستان میں یہ مباحث چلتے رہے کہ پاکستان اور اسرائیل ایک دوسرے کیلئے دروازے کھولنے والے ہیں۔ کہا جاتا تھا کہ اس طرح ہم اسرائیل کو بھارت کے ہاتھوں پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کا راستہ روک دیں گے۔ لیکن یہ کوششیں دونوں طرف سے وقتی تھیں۔ اسرائیل سے ہماری دشمنی فلسطینیوں کی ریاست پر غاصبانہ قبضے کے سبب ہے۔ یہی وجہ انڈیا سے بھی مسلسل مخالفت کی ہے۔ کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ تسلط، فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز قبضے سے مماثل ہے۔
اسرائیل کو پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھی بہت بُری طرح کھٹکتا ہے۔ اس نے کئی بار کہوٹا پر حملوں کا پروگرام بھی بنایا ہے، جیسے وہ افریقی ممالک میں کرچکا ہے۔ اسرائیل اور انڈیا مل کر پاکستان کو دبائو میں رکھنا چاہتے ہیں،انڈیا پھر دائود ابراہیم کو اپنے حوالے کرنے کے مطالبے کررہا ہے۔ حافظ محمد سعید کی نظربندی ختم ہونے پر بہت برہم ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ حافظ محمد سعید کو راستے سے ہٹایا جائے۔ ہماری معاشی ابتری دیکھ کر اس کے حوصلے بلند ہوجاتے ہیں۔ وہ ہمیں لقمۂ تر خیال کرتا ہے۔ وہ ہمیں لالچ بھی دے رہا ہے کہ اگر ہم اس کی دونوں خواہشیں پوری کردیں تو وہ ہماری معیشت مضبوط کرنے میں مدد کرے گا اور آئندہ آزاد کشمیر پر اپنا حق نہیں جتائے گا۔
دہلی ایئرپورٹ پر یہود و ہنود کی یہ گرمجوشی پاکستان پر زور دیتی ہے کہ ہم مل جل کر اپنے قومی مفادات کا تعین کریں۔ ان کی روشنی میں سارے ملکوں سے معاملات طے کریں۔ چین سے بھی ان کے تناظر میں ہی سی پیک میں اشتراک بڑھائیں۔ سی پیک یکطرفہ نہیں ہونا چاہئے۔ اس سے متعلقہ سب امور میں پارلیمنٹ اور عوام کو اعتماد میں لیا جائے۔ آپ کا کیا خیال ہے۔.

تازہ ترین