• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کئی مہینوں کی محنت شاقہ سے تیار ہونے والے کنٹینر، دوبارہ سڑکوں پر نکلنے کو۔
بناہے شاہ کا مصاحب،پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
لاہور میںـ’’شاہ‘‘ کے غلاموں، مصاحبوں کا اکٹھ ہی تو ہے، کیا گل کھلائے گا؟، عیاں ہونے کو۔ 2014 اپریل کی ریلیز، کامیابی کے کئی جھنڈے گاڑ چکی ہے۔ بلوچستان میں حکومت کی کھڑکی توڑ برخاستگی کے بعد، پرانے اسکرپٹ ڈائیلاگ، تاریخی میڈیا تشہیر، لاہور میں مال روڈ پر نمائش کے لئے حاضر ہے۔بظاہر پنجاب حکومت ڈھیرکرناہے، اصل منزل اسلام آباد۔ حال مست،ـ مستقبل اوجھل،ہمیشہ سے یہی ہے رخت سفر ’’شاہ‘‘ اور مصاحبین کے لئے۔
نواز شریف کی نااہلی کے لئے ایساکونسا ہنر جونہ آزمایا گیا؟، مخدوم جاوید ہاشمی نے راز اگست 2014 ءمیں اگل دیا۔ حکومت کو غیر مستحکم کرنے کیلئے ہر قسم کی عملیات
جاری ہیں۔ کون ہے جو اس فن سے متعارف نہیں کہ بلوچستان میں حکومت کیسے بنتی یا ٹوٹتی ہے ؟کونسا تیر چلالیا۔ پیپلز پارٹی پر ناحق تہمت کیوں؟قبل ازیں پانامہ کیس فیصلہ پر عمران خان کو خواہ مخواہ موردالزام ٹھہرایا گیا۔ ڈھٹائی، کمال بے شرمی سے، نواز شریف کی نااہلی، بلوچستان حکومت کی برخاستگی، 40ٹی وی چینلز پر دن رات پچھلے چار سالوں سے نواز شریف اور خاندان کی تذلیل وتحقیر کی تشہیرکا بھاری بوجھ اپنے کمزورکندھوں پر لئے بیٹھے ہیں۔ ملکی صورتحال تشویشناک، ایک طبقہ نواز شریف سے حد درجہ بیزارو متنفر، ہر برائی نواز شریف کے کھاتے میں ڈال چکے۔ایسوں کے نزدیک پاک بھارت جنگیں، سقوط مشرقی پاکستان، روس کی افغانستان میں مداخلت، اسامہ بن لادن، زرداری کی ریکارڈ توڑ کرپشن، جہانگیر ترین، علیم خان کی تاریخ رقم دھاندلیاں، دھوکابازیاں، غلط کاریاں،ایم کیوایم کی قتل وغارت بھتہ خوری،ڈاکہ زنی جلائو گھیرائو، کنٹرول لائن پر بھارتی خلاف ورزیاں، کشمیریوں پربھارتی مظالم، سب کا ذمہ دار نواز شریف ہی توہے۔ ’’شاہ ‘‘کے لواحقین، مصاحبین، متاثرین صدقے دل سے نواز شریف کے کھاتے درج کرچکے ہیں۔ نواز شریف کی پچھلے چار سالوں کی غیر معمولی کارگردگی، وزرائے اعلیٰ کا رول ماڈل شہباز شریف کا پنجاب کے طول وعرض میں میگا پروجیکٹس، سڑکیں، بجلی منصوبے،تعمیر وترقی، اقتصادی بحالی،محض آنکھوں میں دھول اورصریح دھوکہ گردانتے ہیں۔
کثیر تعدادنواز شریف کے خلاف ہونے والے فیصلے،پروپیگنڈہ،نادیدہ قوتوں کا مخصوص مفاداتی ایجنڈا قرار دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں کو65 سال سے جاری کھیل کی تجدید و توسیع سمجھتے ہیں۔سچ یہی ہے کہ دھرنے، لاک ڈائون، عدالتی فیصلے سب کچھ عوام الناس کومتاثرکرنے میں ناکام رہے۔وگرنہ حلقہ NA-120 سے آغاز، چکوال انجام، امابعدکے ضمنی انتخابات میںہزیمت آمیز شکست سے دوچار نہ رہتے۔ عوام سارے عملیات، مسترد کرچکے ہیں۔ یہ بھی سچ کہ گھمسان کارن پڑنے سے پہلے قوم بری طرح تقسیم ہو چکی ہے۔ ملکی حالات افراتفری، انارکی، نفسانفسی، سیاسی ابتری کی گرفت میں ہیں۔ میرے پڑھنے والے گواہ، کئی سالوں سے درجنوں دفعہ لکھ رہا ہوں، ’’امریکی بھارتی گٹھ جوڑ پاکستان کو توڑنے سے زیادہ خانہ جنگی، انارکی، سیاسی ابتری میں دلچسپی رکھتا ہے‘‘۔
مستحکم سیاسی حکومت، مضبوط ادارے بنانے تھے۔ پارلیمان نے فوج اور سپریم کورٹ کا باپ بنناتھا۔ شروع دن سے پارلیمان کو جان کے لالے پڑے ہیں۔ انتھک محنت کہ مسلم لیگ کی حکومتیں توڑ کر نگران حکومتیںبنانی ہیں۔ تاکہ اگلے الیکشن میں مضبوط کنگز پارٹی اتاری جا سکے۔ سخت جان مسلم لیگ کی جان نکالی جا سکے۔ دھندا نیانہیں۔قبل اسکندر مرزا کی رپبلک پارٹی (1956)، ایوب خان کی کنونشن لیگ(1962)، ضیا الحق کی پگاڑو لیگ(1985)، مشرف کی ق لیگ(2002)، ایک ناختم ہونے والا جنابتی سلسلہ دیکھ چکے ہیں۔ میرا تجس اتنا، اگلی کنگز پارٹی کا نام کیا ہو گا؟کیسے کیسے پاپڑ بیلنے پڑے، بلوچستان میں نقد 545 ووٹ لینے والا ایم پی اے، آج ایک کروڑ 23 لاکھ مخلوق کا نمائندہ وزیراعلیٰ چن لیا گیاہے۔چنانچہ اعتماد آسمانوں پر،پنجاب کے سیاسی عدم استحکام کے لئے ایڑی چوٹی کازور لگاناہے۔ آنے والے دنوں لااینڈ آرڈر کی اینٹ سے اینٹ بجنی ہے۔ انارکی اور نفسا نفسی کو ہوا ملے گی۔خدشہ کہ خانہ جنگی میں نہ بدل جائے، اللہ خیر رکھے۔ بقول جاوید ہاشمی بابے رحمتے نے ایسی صورتحال سے نبٹنا ہے، پنجاب حکومت گرانا، بذریعہ بابا رحمتہ ممکن رہے گاکہ معاملہ ملک وملت بچانے کاہے۔ پنجاب حکومت زمین بوس ہو گی تو پلک جھپکتے مسلم لیگ (ن) کی ٹوٹ پھوٹ کنگز پارٹی کے لئے راہ ہمواررکھے گی۔ عرصہ دراز سے وزیراعظموں، حکومتوں، پارلیمان سے جاری کھیل نا ختم ہونے کو۔ اب تو قوم تھک کر چور ہوچکی، یااللہ یہ لوگ کب باز آئیں گے؟
امریکہ مع مال واسباب دہلیز پر، صدر ٹرمپ کی ’’تڑی‘‘ پر ارباب اختیارواقتدار کا جواب، قوم کا خون گرما گیا۔ اس سے پہلے بھی ایک دفعہ آج جیسے حالات، اپریل 1971 میں روسی صدر پڈگورنی کا صدر جنرل یحییٰ خان کو وارننگ خط ملا۔ جنرل یحییٰ بھی ملک وملت کی توہین برداشت نہ کر سکا، ترکی بہ ترکی روسی صدر کو جواب دے ڈالا۔ قوم کا خون گرما دیامگرپاکستان تڑوا بیٹھا۔ مجھے خدشہ ہے، سیاسی ابتری سے امریکہ ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گا۔
باک نہیں، قیام پاکستان سے لے کر آج تک( قائداعظم، قائدملت، خواجہ ناظم الدین، عبدالرب نشتر، معدودے چند درجن سیاستدان چھوڑ کر) جمعیت سیاستداں’’شاہ‘‘ اور ’’بابوں‘‘ کے جرائم میں برابر شریک رہی۔ پاکستان بنتے ہی انگریز کے بنائے 1935 ایکٹ کو بحالت مجبوری مملکت کا عبوری آئین بنانا غلطی ثابت ہواکہ افسر شاہی کو لامحدود اختیارات مل گئے۔ آزادی کے ساتھ ہی سول بیوروکریسی اپنے لامتناہی اختیارات پر پرزے نکالنے لگی۔ادھر16جنوری1951 میں پہلا پاکستانی جنرل ایوب خان فوج کا کمانڈربنا۔ سول بیوروکریسی کو طاقت پروازمل گئی۔ 1951 میں غلام محمد، اسکندر مرزا، ایوب خان کامضبوط ٹرائیکا وجود میںآیا تو آنے والے دنوں میں وزراء اعظموں سے کھیل مزیدآسان ہو گیا۔بابے رحمتے خندہ پیشانی سے تعاون کرتے رہے۔سازشیں، ریشہ دوانیاں شروع،اکتوبر 1951 میں GHQ راولپنڈی میں جنرل ایوب کی غیر موجودگی میں دو جرنیلوں، درجن بھربریگیڈیرز نے لیاقت علی خان کوہٹانے کی ٹھانی کہ ’’ قائد ملت، نااہل، کرپٹ اور بھارت بارے نرم ہیںـــ‘‘۔مارچ 1951 کی وہ سازش تو ناکام رہی، بد قسمتی سے چند ماہ بعد قائد ملت کو راولپنڈی میںدوران تقریر شہید کر دیا گیا۔ خواجہ ناظم الدین نے فوری طور وزیر اعظم کاحلف لیا۔ ٹرائیکا نے ملی بھگت سے غلام محمد کو گورنر جنرل بنا کرمزید مضبوط کیا۔ مصیبتوں اور تکالیف کا باقاعدہ نقطہ آغاز یہی۔ خواجہ ناظم الدین کو ڈیڑھ سال بعد ہٹنے پر مجبورکیا۔ بابے رحمتے نے مہرثبت کرنے میں بخل نہ دکھایا۔ جبری معطلی کے بعد دوسرے بنگالی محمد علی بوگرا 2سال تین مہینے کے لئے تیسرے وزیراعظم بنے۔ ڈیڑھ سال گزرے،بوگرا بیرون ملک دورے پر تھے، اسکندرمرزا اورجنرل ایوب خان جہاز لے کر انگلستان پہنچے، وزیراعظم کو عملاً گھسیٹ کر جہاز میں بٹھایا،اپاہج غلام محمد کے سامنے پیش کیا۔غلام محمد نے اسکندر مرزا اور ایوب خان کی موجودگی میں نا صرف گالیوں سے نوازا فوراًکابینہ تحلیل کر کے نئی کابینہ بنانے پر مجبوررکھا۔ یہ تب ہوا جب محمد علی بوگرا شاندارمتفقہ آئینی دستاویز ’’ڈوگرفارمولا‘‘ بنانے میں کامیاب رہے۔ نیا آئین بنانا دنوں کا کام تھا۔
نئی کابینہ میں غلام محمد نے تین نام کمانڈر ان چیف ایوب خان، اسکندر مرزا اور چوہدری محمد علی(سابق سول سرونٹ)کو شامل کرواکراہم محکموںکا مالک بنوایا۔دوسری طرف اسکندر مرزا نے مضبوط ہوتے ہی جنرل ایوب خان کی مدد سے غلام محمد کو ذلیل کرکے چلتا کیا،مگر وزیراعظموں سے کھیل تندہی سے جاری رکھا۔چوہدری محمد علی کو وزیراعظم بنایا۔ چوہدری محمد علی نے بھی ایک بہت بڑا کام کر ڈالا، 1956میں پہلی دفعہ پاکستان کو آئینی ریاست بنایا۔گورنر جنرل کا عہدہ ختم ہوا تو اسکند مرزا نے صدارت پر قبضہ کرلیا۔صدر کاعہدہ ہمیشہ سے ڈکٹیٹرزکا من بھاتا ہے۔آئین میں صدر اسکندر مرزا کے اختیارات میں معمولی کمی بیشی ہوئی تو چوہدری محمد علی کو سزاملی۔ علیحدہ ہونا پڑا۔سکندر مرزانے یکے بعد دیگرے تین وزیراعظموں کویک جنبشِ سازش نکال ڈالا۔ آخری وزیراعظم فیروز خان نون کو گھر بھیجنے کے لئے تومارشل لا لگانا پڑا۔حاضر سروس جرنیل، وزیر دفاع ایوب خان نے حکم مانا ضرور، 22دنوں بعد مارشل لا پہ اپنامارشل لالگا دیا،اسکندر مرزا کونکال کراقتدار پر خودقبضہ جمالیا۔ وزیراعظم بھٹو صاحب، 1988سے1999اور2008 سے آج تک وزیراعظم سے کھیل یکسانیت سے جاری ہے، درمیان میں مارشلائی دورجب راوی نے چین بیان کیا۔ یقیناََ سیاستدان قدم بقدم شریک جرم رہے۔
عمران خان کے باربار شریک جرم بننے پر افسوس کہ ہر دفعہ ــ ــ ’’شاہ‘‘ نے ٹشو پیپر سمجھا، استعمال کے بعدردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ تحریک انصاف کا ایسا رول، ’’نعرہ تبدیلی ‘‘پر ساتھ دینے والوں کے ساتھ دھوکاد ہی ہے۔ آج نواز شریف مخالف برضاورغبت سارے مصاحبین باجماعت کنٹینرز پر موجود، ’’شاہ‘‘ کی خدمت میں مستعد، ریاست کی چولیں ڈھیلی کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت گرانے کا کارنامہ نئی راکٹ سائنس نہیں ہو گا،65سال سے کئی بار ملاحظہ کر چکے۔فکر اتنی کہ اب ریاست متحمل نہیں ہوپائے گی۔بدنیتی جانوںیا جہالت، سمجھنے سے قاصر کہ صدر ٹرمپ کاہرابھرا نوٹس، ’’شاہ‘‘کے سامنے موجود،سیاسی ابتری میں امریکہ ات مچانے کو۔ باقی رہے نام اللہ کا۔

تازہ ترین