• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جو یہ بتا رہے کہ ’’اصلی تے وڈی عدالت عوامی‘‘ اور جو یہ رٹا رہے کہ’’ عوامی عدالت‘‘ نااہلی کو ردی کی ٹوکری میں پھینک چکی ، ان سب سے یہی گزارش حضور باقی سب چھوڑیں اگر صرف زینب کی عوامی عدالت ہی لگ جائے تو بات نااہلی سے بھی آگے نکل جائے ۔
فرض کریں ’’ اصلی تے وڈی عدالت عوامی ‘‘ہی،فرض کریں یہاں مہذب معاشرہ نہیں ، کوئی قانون، ضابطہ نہیں ، فرض کریں یہاں کا نظام ایسا کہ کوئی ڈاکہ ڈالے یا قتل کرے ، کسی کو نیب پکڑے ، جے آئی ٹی قصور وار قرار دے یا کسی کے خلاف سپریم کورٹ فیصلہ دیدے لیکن جب عوام مطلب عوامی عدالت بری کر دے تو سب سزائیں ختم اور تمام گناہ گار معصوم ، اسی تھیوری کو آگے بڑھاتے ہوئے وقتی طور پر یہ بھی فرض کر لیں کہ شریف خاندان عوامی عدالت سے پوچھ کر سعودی عرب گیا ، انہوں نے مشرف حکومت سے پانچ یا دس سال کی ڈیل سے پہلے عوامی عدالت کی منظوری لی اور واپس پاکستان میں قدم تب رکھا جب عوامی عدالت نے گرین سگنل دیدیااوراگر یہ بھی فرض کر لیں کہ اپنی 35سالہ سیاست میں شریف برادران نے ہر کام عوامی عدالت سے پوچھ کر کیا ، توپھر بھی چندسوال جواب طلب ،جب 2013کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کرپشن اور بیڈ گورننس کو بنیاد بنا کر شریف برادران گلی گلی ، محلے محلے ، گاؤں گاؤں اور شہر شہر عوامی عدالت سجا چکے تھے ، جب شہباز شریف سوئس بینکوں میں پڑے زرداری صاحب کا کالا دھن واپس لانے کے وعدے کر رہے تھے ، جب علی بابا چالیس چوروں کو لاہور اور لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹنے کے نعرے لگ رہے تھے اور جب پیٹ چیر کر چوری کا مال نکالنے کی باتیں ہورہی تھیں ،تب کیا میاں نواز شریف یا شہباز شریف نے عوامی عدالت کو یہ بھی بتایا تھا کہ ہم نے آف شور کمپنیاں بنار کھیں ، کل کلاں پانامہ لیکس ہو جائیں تو حیران و پریشان نہ ہوں ، کیونکہ 5 براعظموں میں ہم سرمایہ کاری کر چکے ، سعودی عرب ، دبئی اور قطر کے رستے سرمایہ برطانیہ لے جا کر لندن میں بیسوؤں جائیدادیں خرید چکے ، کیا میاں نواز شریف نے عوامی عدالت کو آگاہ کیا کہ ہم قطری دوستوں سے زبانی کلامی کاروبار کر رہے ، ہمارے پاس لین دین کے کاغذی ثبوت اور نہ کسی قسم کی منی ٹریل ، کیا نواز شریف نے عوامی عدالت کو مطلع کیاکہ میں اقامہ ہولڈر، میرے بچے غیر ملکی ، میرے سمدھی عربی شیخ سے 3سالوں کی تنخواہ کی مد میں ایک ارب وصول کر چکے اور کیا میاں نواز شریف نے 2013سے 2017تک عوامی عدالت کو وہ سب بتایا جو انہیں پارلیمنٹ ، سپریم کورٹ اور جے آئی ٹی میں بتانا پڑا ، اگرتو میاں نواز شریف نے 2013کے پہلے جلسے سے 2017میں نااہل ہونے تک کسی دن ،عوامی عدالت کو یہ سب بتایا تو پھر واقعی ان کا یہ مطالبہ جائز کہ کسی ملکی عدالت کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ انہیں نااہل کرے اور انکی اہلی یا نااہلی کا فیصلہ کرنے کی مجاز صرف عوامی عدالت ، لیکن چونکہ صورتحال اسکے برعکس،چونکہ 90کی دہائی سے پانامہ لیکس تک ہاؤس آف شریفس جو کاروبار کر چکا ، جو باہر لے جا اور کما چکا ، عوامی عدالت کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی ،چونکہ جو لین دین ہوا اور جومنی لانڈرنگ ،کرپشن ، کمیشن کے الزامات لگ چکے ، سپریم کورٹ کی طرح عوامی عدالت کے فرشتوں کو بھی اس کا علم نہیں اورچونکہ صورتحال یہ کہ کل عوامی عدالت یاد نہ تھی اورآج عوامی عدالت بھول ہی نہیں رہی ، لہذا یہ فیصلہ آپکا کہ یہ عوامی عدالت یعنی عوام کی عزت افزائی یا توہین ۔؟
بات آگے بڑھاتے ہیں ، ویسے تو میاں نواز شریف 3مرتبہ وزیراعظم رہے اور شہباز شریف تیسری مرتبہ وزیراعلیٰ ہیں لیکن ہم شریف برادران کے 3دہائیوں پر پھیلے اقتدار کی بات نہیں کرتے ، صرف میاں صاحب کے گزرے 4سالہ اقتدار پر نظر مار لیتے ہیں ، سندھ میں اغواء ہوئے 9سو بچے ہوں یا تھر میں بھوک اور علاج نہ ہونے سے مرچکے 2ہزار بچے ،جعلی دوائیوں ، ملاوٹ زدہ کھانے پینے کی چیزوں کی بھینٹ چڑھ چکے پاکستانی ہوں یا مہنگائی، بے روزگاری سے تنگ آکر خودکشیاں کر چکی رعایا،بلوچستان اور سندھ میں جانوروں سے بھی بدتر زندگیاں گزارتے انسان ہوں یا نا انصافی اور رسوائی کی سولیوں پر لٹکی مخلوق ، اسموگ اور فوگ میں اندھا دھند زندگیاں گزارتے لوگ ہوں یا ہر روز زہر نما پانی پیتی انسانیت ، سڑکوں اور رکشوں میں بچے جنتی مائیں ہوں یا اسکولوں کا منہ دیکھے بنا بچپن گزا ر رہے کروڑوں بچے ، اپنی فصلیں اپنے ہاتھوں سے جلاتے کسان ہوں یا دو وقت کی باعزت روٹی تک نہ کما سکنے والے مزدور ، وبا کی طرح پھیل چکی کرپشن ہو یا دیمک کی طرح چاٹ رہی سفارش ‘ اقرباپروری اور امیر سے امیر تر ہوتا 2فیصد ٹولہ ہو یا غریب سے غریب تر ہوتا 98فیصد طبقہ ، کیا میاں برادران کسی ایک عوامی عدالت میں سرخرو ہوئے ،مطلب ا گر کسی روز مذکورہ مسائل ومصائب میں سے کسی ایک مسئلے یا معاملے پر عوامی عدالت لگ جائے تو کیا میاں نواز شریف کے پاس کارکردگی کے اتنے ثبوت ہیں کہ وہ فخر سے عوامی عدالت آئیں اور سرخرو ہو کر نکلیں ،یہ فیصلہ بھی آپکا۔۔
چلو ان مصائب اور پورے ملک کی بات بھی نہیں کرتے ، صرف ایک شہر کو لے لیتے ہیں ، وہ قصور جو کبھی بلّھے شاہ کا شہر ، وہ قصور جو کبھی اللہ وسائی المعروف نورجہاں کی وجہ سے جانا گیا ، وہ قصور جو تخت ِ لاہور سے ایک گھنٹے سے بھی کم فاصلے پر اور وہ قصور جو سالہا سال سے لیگیوں کا گڑھ ،وہی قصور آج زینب کے دکھ میں ڈوب چکا ،ویسے تو اصلی تے وڈی عوامی عدالت لگے تو شریف برادران کیلئے سانحہ ماڈل ٹاؤن ہی کافی ، لیکن بات ہورہی زینب کی ، کیا یہ سچ نہیں کہ ا گر 3 سو بچوں کے جنسی اسکینڈل سے اچھی طرح نمٹ لیا جاتا ،اگر مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے اسی جوش وجذبے سے قانون سازی کر لی جاتی جس ولولے سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نااہلیت کو اہلیت میں بدلنے پر قانون ساز اکٹھے ہوئے اور اگر قصور کا جنسی اسکینڈل دنیا کیلئے باعث ِ عبرت بن جاتا تو پھریقیناََ 2016-17میں بدفعلی کے 1045واقعات نہ ہوتے، روزانہ 11بچوں سے بدفعلی نہ ہوتی، 2سالوں میں 19بچوں کو زیادتی کے بعد قتل نہ کر دیاجاتااور چیونٹی کی رفتار سے رینگتے بدفعلی کے 788کیسز منطقی انجام تک پہنچ چکے ہوتے ، اگر یہ سب ہو جاتا تو عین ممکن ساڑھے 4سالہ ایمان فاطمہ بچ جاتی ،11سالہ فوزیہ زندہ ہوتی ،7سالہ نورفاطمہ ہمارے درمیان ہوتی ، ساڑھے 5سالہ عائشہ آصف کو کچھ نہ ہوتا ،9سالہ لائبہ اسکول جارہی ہوتی ،7سالہ ثنا عمر اپنے آنگن میں کھیل رہی ہوتی اور 5سالہ کائنات کی عزت محفوظ ہوتی اور جیساکہ آئی جی پنجاب کہہ چکے کہ ’’زینب سمیت 8بچیوں کا مجرم ایک ہی‘‘ تو اگر یہ ایک مجرم ہی پکڑا جاتا تو کم ازکم زینب ہی بچ جاتی لیکن نہ ایسا ہوناتھا ،نہ ایسا ہوا اور نہ آئندہ ہوگا کیونکہ وقت ثابت کر چکا کہ حکومتوں اور حکمرانوں کی سب بیان بازیاں اور آنیاں جانیاں وقتی ڈرامے ، ہمیشہ یہی ہوا کہ چند روز فوٹو سیشنز ،کچھ دن مگرمچھ کے آنسو اور پھر اگلے سانحے تک مکمل خاموشی ۔یقین جانیے یہی سب دیکھ اور بھگت کر یہ کہنے پر مجبور کہ جو یہ بتارہے کہ ’’اصلی تے وڈی عدالت عوامی‘‘ اور جو یہ رٹا رہے کہ عوامی عدالت نااہلی کو ردی کی ٹوکری میں پھینک چکی ، ان سب سے یہی گزارش کہ حضور باقی سب چھوڑیں، اگر صرف زینب کی عوامی عدالت ہی لگ جائے تو بات نااہلی سے بھی آگے نکل جائے ۔

تازہ ترین