• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نظریے اور سوچ کو کبھی بھی طاقت سے شکست نہیں دی جاسکتی۔ جب بھی طاقت کے ذریعے کسی بھی سوچ کو کچلا جاتا ہے، شکست ہمیشہ طاقت کی ہی ہوتی ہے۔ وقتی طور پر طاقت غالب آجاتی ہے مگر دائمی فتح نظریے ہی کی ہوتی ہے۔کسی بھی مخصوص فکر اور سوچ کا مقابلہ مخصوص نظریہ ہی کرسکتا ہے۔ سوچ کو ہمیشہ دلیل سے شکست ہوتی ہے۔ یہ پراسس سست مگر مسلسل ہوتا ہے۔ تاریخ کا مروجہ اصول ہے کہ مسلسل جبر سے دلوں میں ڈر نہیں رہتا۔ غیر فطری طریقے سے کسی بھی معاملے کو حل کرنا سنگین مسائل کو جنم دیتا ہے۔ اکثر سویلین بالادستی کے نظریے میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کا دفاع کرتا ہوں۔مگر اس کا ہرگز مطلب نہیں ہے کہ مسلم لیگ ن کا حامی یا حکومت کا مقدمہ لڑتا ہوں۔ اس خاکسار نے مسلم لیگ ن کی پالیسیوں پر اس وقت تنقید کی جب کوئی بات بھی نہیں کرتا تھا۔ مگر جب نظریے اور مخصوص سوچ کا معاملہ آیا تو غیر مشروط طور پر سویلین بالادستی اور جمہوریت کی مضبوطی کی بات کی۔ اکثر لکھتا ہوں کہ اگر گزشتہ چار سالوں کے دوران نوازشریف اور ان کی حکومت کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا تو آج نوازشریف پاکستان کے غیر مقبول ترین سیاسی رہنما ہوتے اور آئندہ عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کو پی پی پی سے زیادہ مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ چار سے زائد مرتبہ نواز حکومت کو ختم کر نیکی کوشش کی گئی مگر ناکامی ہوئی۔ بالآخر پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کا آمنے سامنے کردیا گیا اور پارلیمنٹ کے قائد ایوان سپریم کورٹ کے ایک فیصلے سے نااہل ہوگئے۔ مگر اس دوران یہ تاثر شدت اختیار کرگیا کہ نوازشریف کو سویلین بالادستی کی سزا دی جارہی ہے۔ عمران خان کو وزارت عظمی کا لالچ دے کر اپنے پیچھے لگائے رکھا اور آج عمران خان کا تاثر مخصوص قوتوں کے آلہ کار کے طور عام ہے۔2013کے مقابلے میں آج عوامی رائے کا کوئی بھی سروے اٹھا کر دیکھ لیں، تحریک انصاف کی مقبولیت عوام میں کم ہوئی ہے۔ عمران خان اور انکے ساتھی سمجھتے ہونگے کہ اداروں کیساتھ انکے تعلقات بہتر ہوئے ہیں مگر اس عرصے میں عمران اداروں کے ضرور قریب ہوئے ہیں مگر عوام سے بہت دور بھی ہوئے ہیں۔ اصل طاقت عوام ہوتے ہیں۔ پورے ملک کی بااثر قوتوں کی کوشش کے باوجود بھی میر ظفر اللہ خان جمالی صرف ایک ووٹ سے وزیراعظم بنے تھے۔
یہ وہ وقت تھا جب شاہراہ دستور پر طلوع ہونے والا ہر سورج سابق آمر پرویز مشرف کو سلام کرتا تھا۔ مشرف کھمبے کی بھی حمایت کرتے تو وہ وزیراعظم بن جاتا۔ مرحوم احتشام ضمیر نے ایسے افراد کو سینیٹر بنوایا،جو کبھی یونین کونسل کے ناظم نہیں بنے تھے۔ شوکت عزیز جیسے غیر مقبول آدمی کو وزیراعظم بنایا گیا۔ مگر ایسے حالات میں بھی طاقت کو شکست کھاتے دیکھا ہے۔ عمران خان کو شاید قریبی دوستوں نے یہ یقین دلایا ہے کہ عوامی مقبولیت سے زیادہ اداروں میں مقبول ہونا اہم ہے۔ حالانکہ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ اداروں کا ایک اہم کردار ہوتا ہے مگر اصل فیصلہ عوام کرتے ہیں۔ آج کوئی بھی لبرل پاکستانی تحریک انصاف کیساتھ نہیں کھڑا۔ عاصمہ جہانگیر جیسی بائیں بازو کی حامی بھی نوازشریف کا دفاع کرتی نظر آتی ہیں۔ عمران خان کی مقبولیت کا گراف کم ہوا ہے اور اس کا احساس عمران خان کو عام انتخابات کے نتائج کے بعد ہوگا۔ کچھ دوستوں نے عمران خان کو ضائع کیا ہے۔آج حالات بہت کٹھن ہیں۔مگر جس دور میں جینا مشکل ہو، اس دور میں جینا لازم ہے۔
دو روز قبل ایم کیو ایم لندن سے تعلق رکھنے والے فلسفے کے پروفیسر کی ناگہانی موت کی خبر سنی۔ سوشل میڈیا پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔مگر پروفیسر ظفر عارف کی موت کی تکلیف ہوئی ہے۔ بانی متحدہ کے نظریات کا شدید مخالف او ر ناقد ہوں۔ ایم کیو ایم نے کراچی میں جو کچھ کیا، اس کا دفاع کرنا بہت مشکل ہے۔بانی متحدہ کی اگست 2016کی تقریر ناقابل برداشت تھی۔ مگر پروفیسر ڈاکٹر ظفر عارف ایک سوچ اور فکر کی وجہ سے ایم کیو ایم سے منسلک ہوئے، ایسے وقت میں جب کوئی بھی شخص کراچی میں متحدہ کے قائد کا نام لینے والا نہیں تھا۔ مجھ سمیت کروڑوں پاکستانیوں کا پروفیسر ڈاکٹر ظفر عارف کے اقدام سے اختلاف ہے۔ ظفر عارف مرحوم نے اگر کوئی بھی غیر قانونی عمل کیا تھا تو ان پر مقدمہ درج کرکے ٹرائل ہونا چاہئے تھا۔ اگر صرف سوچ کا اختلاف تھا تو سوچ کو دلیل اور نظریے سے شکست دینا چاہئے تھی۔ کیونکہ میری اطلاعات کے مطابق ظفر عارف بائیں بازو کے ایک باغی پروفیسر تھے۔جس وقت لوگ ایم کیو ایم کے نام سے کانپتے تھے اور ایم کیو ایم ہر آمر اور جمہوری حکومت کا حصہ ہوتی تھی۔ اس وقت پروفیسر صاحب نے ایم کیو ایم کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔جس وقت بینظیر بھٹو کو تمام انکلز (Uncles)چھوڑ کر جاچکے تھے اور کوئی ضیا آمر کے خلاف بات کرنے کی جرات نہیں کرتا تھا تو پروفیسر صاحب نے بے نظیر کا ساتھ دیا تھا، اور جب بے نظیر بھٹو شہید کی اسٹیبلشمنٹ سے صلح ہوگئی اور وہ ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں تو پروفیسر صاحب نے بے نظیر بھٹو سے علیحدگی اختیار کرلی۔ آج کراچی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کا فون آگیا۔ ظفر عارف صاحب کے قتل پر بات ہوئی تو کہنے لگے کہ واقعی ڈاکٹر صاحب بہت سر پھرے اور اپنے من کی کرنے والے شخص تھے۔ کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر کی حیثیت سے انہوں نے جنرل(ر) ضیاالحق کے مارشل کی شدید مخالفت کی تھی۔کراچی کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے سندھ کے تعلیمی اداروں میں سرکلر بھیجا کہ کوئی بھی استاد مارشل لا کی مذمت نہ کرے۔تو انہوں نے ایک زور دار جواب لکھا کہ ایک جرنیل کو کوئی حق نہیں کہ وہ کالج اور یونیورسٹی کے پروفیسروں کو ڈکٹیٹ کرے کہ انہیں کیا پڑھانا چاہئےاور کیا نہیں؟ یہ پروفیسر ظفر عار ف کی زندگی کے دو پہلو تھے۔ایم کیو ایم لندن کے حوالے سے میرا پروفیسر ڈاکٹر ظفر عارف کے سیاسی نظریات سے شدید اختلاف ہے مگر ان کا بہیمانہ قتل انتہائی قابل مذمت فعل ہے۔ خدارا ہمیں اپنے فیصلوں پر غور کرنا چاہئے اور تمام پاکستانیوں کو اس عزم کا اعادہ کرنا چاہئے کہ نظریے اور سوچ کو دلیل سے شکست دیں نہ کہ گولی سے۔ آج کراچی کے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ڈاکٹر ظفر عارف کے قاتلوں کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچائیں تاکہ اس معاملے پر جو شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں وہ ختم ہوجائیں۔ باقی پروفیسر صاحب کے لئے شعر عرض ہے
میں ورغلایا ہوا لڑ رہاہوں اپنے خلاف
میں اپنے شوق شہادت میں مارا جاؤں گا.

تازہ ترین