• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قوموں کی زندگی میں ستر سال کم نہیں ہوتے ۔ ایک پوری نسل پل بڑھ کر شعور کی طرف بڑھ چکی ہوتی ہے مگر ہم آج بھی ایک بپھرے ہوئے ہجوم کی مانند کیوں ہیں جسے نظم و ضبط، شائستگی اور تربیت سے سروکار ہی نہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کسی ایک سماجی و سیاسی رہنما نے قوم سازی پر توجہ دی نہ بھیڑ کو قطار بنانے کا سلیقہ سکھایا۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ طبقاتی نظامِ تعلیم ہے جس نے صرف مختلف طبقوں کو ہی جنم نہ دیا بلکہ ان کے اندر احساسِ محرومی پیدا کی جس سے جرائم کو شہہ ملی۔ اگر مدارس سرکاری اور انگلش میڈیم کی بجائے ایک نظام تعلیم لاگو کر دیتے تو آج ایسا تعفن زدہ معاشرتی نظام ہماری نیندیں حرام نہ کرتا جہاں ہمیں خود سے نگاہیں ملاتے ہوئے شرمندگی محسوس ہو تی ہے۔ مگر اپنے مفادات کے لئے حکمرانوں نے لوگوں کے ذہنوں میں صرف بھوک کاشت کی، ان کے احساس میں بے یقینی کے بیج بوئے۔ اخلاقی تربیت سے ان کے اندر موجزن خیر کے چشمے دریافت کرنے کی بجائے مادیت پرستی کے جال میں جکڑے حیوانی جذبوں کی تسکین کو زندگی کا مقصد بنایا۔ وہ جسم کے پیچھے بھاگتے رہے، روٹی کھُل جانے کے اعلان پر ایک قدم پر کھڑی مخلوق دوسروں کو روند کر آگے بڑھنے اور اپنی جھولی بھرنے کے لئے سفید کپڑوں کو داغ دار کرتی ہوئی، صرف گوشت کو معیار بنانے والی جنس کی غلام بنتی گئی۔ عقل، روح اور دل کی بات سننے کی بجائے اندھے بہرے جذبوں کے ہاتھ میں وجود کی لگام دے کر چلنے والوں کو برائی، اچھائی کی کیا تمیز، پھولوں کو تار تار کرنے کے درد سے کیا سروکار؟ مذہب کو اخلاقی اور روحانی ترقی نہیں سمجھا گیا ۔بے پروا اہلِ ثروت اسی میں خوش کہ وہ محفوظ ہیں ۔ صرف سیاست ہوتی رہی۔ بنیادی حقوق اور بنیادی مسائل کسی کو نظر ہی نہ آئے۔جہاں دو وقت کی روٹی اور تحفظ کے لئے اکثریت فکر کی سولی پرلٹک رہی ہو وہاں ہر وقت تیسری بار وزیراعظم کی مدت پوری نہ کرنے کا رونا رونے والوں نے کبھی زینب جیسی اذیت جھیلنے والوں کی شدت کا بھی اندازہ کیا ہے۔ ایک نسل خواب دیکھتے گزر گئی ،دوسری کے خواب کرچی کرچی ہوگئے۔ غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہم آزاد ہو کر بھی غلام رہے۔ آزادی کی چھائوں سے لطف اندوز ہونے کی بجائے ہماری عزت نفس نت نئے کشکولوں میں ڈھلتی رہی کیونکہ اپنے وسائل کو بروئے کار لانے اور حالات کا مقابلہ کرنے کے بجائے غیروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کا عمل جاری رہا۔ پھر یہ ہماری پہچان بن گئی۔ ہمارا کردار اقبال کے فلسفہ خودی کا مذاق اُڑانے لگا۔ قرضوں تلے دبے ملک میں صرف طبقاتی فرق پھلا پھولا۔ ایک طبقے کی حفاظت اور من مانیوں کے لئے پورے معاشرے کو قربان کر دیا گیا۔ اظہار اور مکالمے کے رستے بند کر دیئے گئے تو لوگ ذہنی الجھنوں کا شکار ہو کر اذیت پرست بننے لگے۔
سو آج زینب کا دُکھ بڑا ہے مگر نیا نہیں۔ سالوں سے ایسے واقعات کا تسلسل شعور والوں کے لئے زندگی کو کربناک بناتا چلا جا رہا ہے۔ ہر روز ایسے وحشت ناک منظر پل بھر اسکرین کی خبر بنتے ہیں مگر بریکنگ نیوز صرف اقتدار کی کرسی سے جُڑی رہتی ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ہر روز تقریباً تیس (30) بچے بچیاں جسمانی تشدد کے مکروہ کرب کا سامنا کرتے ہیں مگر نصف سے بھی کم رپورٹ ہوتے ہیں مگر جو رپورٹ ہوتے ہیں انہیں انصاف کہاں ملتا ہے۔ کیا آج تک کسی وحشی کو سزا ہوئی؟پورے ملک میں تین سال سے لے کر سات سال کے معصوم پھولوں کو بربریت سے چیرپھاڑ دیا جاتا ہے اور پھر لاش کسی ڈھیر ،گٹر یا نالے سے برآمد ہوتی اور کبھی تو ملتی ہی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ معاشرتی اونچ نیچ کی دیواریں کم کرنے اور لوگوں کو بنیادی حقوق کی فراہمی کے ساتھ ساتھ قانون سازی ، نظام عدل، معیشت اور تعلیم سے متوازن معاشرہ قائم کرنے کی کسی کو نہ سوجھی۔ یہاں جمہوری اور آمرانہ ادوار کا موازنہ درکار نہیں اس لئے کہ ہر دور اپنے مزاج میں ایک طرح کی آمریت کاحامل رہا ہے۔ مختلف اداروں سے تعلق رکھنے والے لوگ اسی سرزمین کے باسی ہیں ۔ ہمارے اپنے ہیں۔ اس لئے یہ ہمارا مجموعی تاثر اور کردار ہے جسے کسی اور کے سر تھوپنا مناسب نہیں۔ شکر ہے زینب کے وحشیانہ قتل نے ہمارے اجتماعی سوئے ہوئے احساس کو جگایا ۔ اگر ہم اسی طرح ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے رہیں تو مجرموں کو سزا ملے گی ۔ لیکن آواز اُٹھانے اور اپنے ملک کو آگ لگانے میں فرق ضرور ہونا چاہئے۔ خادمِ پنجاب سے ایک سال قبل بھی درخواست کی تھی کہ لُٹ جانے کے بعدافسوس اور سر پر ہاتھ رکھنے کی بجائے پنجاب کی بیٹیوں کے سروں پر پہلے ہاتھ رکھئے۔ انھیں تحفظ کا احساس دلایئے۔مجرموں کو سخت سزا دے کراس وحشیانہ عمل کو روکئے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ صرف پنجاب کا مسئلہ ہے ؟ ڈیرہ اسماعیل خان میں لڑکی کو برہنہ کر کے گلیوں میں گھمانے پر ہم بولے نہ ہی خان صاحب نے ایک بیان میں مذمت ہی کی۔ کراچی میں کوڑھے کے ڈھیروں سے معصوم کلیوں کی اُدھڑی ہوئی لاشوں پر زرداری صاحب نے کیا واویلا کیا؟ معتبر افراد کے ہاتھوں ذبح کر کے لٹکائے جانے والے بچوں کے گناہگاروں کے بارے میں سراج الحق نے کون سی ریلی نکالی؟ ایک پل تین سے سات سال کے معصوم بچوں اور بچیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے وحشیانہ جنسی تشدد اور ان کے بہیمانہ قتل کے بارے میں سوچئے اور مل کے اس کا حل تجویز کیجئے۔ والدین بھی اپنے فرض کو پہچانیں ۔کیونکہ نصف سے زائد کیسوں کا تعلق گھروں کی چاردیواری اور قریبی رشتہ داروں سے بتایا جاتا ہے۔ قصور کا معاملہ سیاسی نہیں معاشرتی ہے۔ اس پر سیاست چمکانے والوں چیلوں جیسے ہیں۔ مصالحت کا شکار ہو کر ظالموں کو سزار نہ دینے والے بھی برابر کے ذمہ دار ۔ کہیں ایسا نہ ہو معصوم فرشتوں کی چیخیں اور آہیں ہمیں کسی عذاب میں مبتلا کر دیں۔
آیئے ہم سب اعترافِ جرم کریں ضمیر کے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے اندر جھانکیں ، اپنا احتساب کریں اور خود سے سوال کریں کہ آج ہم جو پتھر دوسروں پر پھینکنے کے لئے بے تاب ہیں کیا ہم پاک صاف ہیں۔کیا زینب کی چمکتی آنکھیں خوف سے پھٹنے والی تھیں؟ کیا اس کی زندگی سے بھری مسکراہٹ اس بے دردی سے قتل ہونے والی تھی؟ ہمارے اردگرد بہت سارے نفسیاتی مریض حملے کے لئے گھات لگائے بیٹھے ہیں ۔ریاست کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ معصوم بچوں کی نگہداشت کو اپنے فرض میں شامل کرے۔سخت سزا بہت ضروری ہے لیکن موجودہ حالات میں والدین کو بچوں کو اپنی اولین ترجیح بنانا ہو گا۔ ریاست بھی والدین کی طرح ہوتی ہے مگر اس کے پاس عام لوگوں کے لئے وقت نہیں۔

تازہ ترین