• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق وزیراعظم نوازشریف نے احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر تمثیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 70ء کی دہائی میں لوگوں کو فلمیں دیکھنے کا بہت شوق تھا ایک ڈائریکٹر کی فلم بہت ہٹ ہوئی ۔میرے کسی دوست نے اس ڈائریکٹر سے پوچھا فلم کیسی چل رہی ہے ؟اس نے کہا پہلا ہفتہ تو زبردست چلی ہے ،دوسرا ہفتہ زبردستی چلانا پڑی ہے۔میں نے سوچا کیوں نہ آج یہی انداز مستعار لیتے ہوئے یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ آجکل کے ہدایت کار جو فلم چلانے کی کوشش کر رہے ہیں اس کا اسکرپٹ کیا ہے اوریہ کب تک چل پائے گی؟
چند روز قبل پاکستان فلم انڈسٹری کے سلطان،سلطان راہی مرحوم کی برسی تھی ۔نہ جانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ سلطان راہی اور اس سے جڑے دیگر فلمی کردار آج بھی زندہ ہیں۔چونکہ ہماری ایک نسل سلطان راہی کی فلمیں دیکھ کر جوان ہوئی ہے اس لئے معاشرے پر ’’گنڈاسا‘‘ کلچر کی بہت گہری چھاپ ہے ۔بالخصوص سیاست کاروں نے تو اس دور کے فلمی اداکاروں کو ایک نئی پہچان دی ہے ۔کبھی تو سیاسی منظر نامہ دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے جٹ سیریز کی پنجابی فلموں کا راج ہے ’’مولا جٹ ‘‘ اترتی ہے تو ’’شیر پنجاب دا‘‘ لگ جاتی ہے اس سے بوریت ہونے لگتی ہے تو ـ’’جنگل کا قانون ‘‘ چلا دی جاتی ہے،یہ پردہ اسکرین سے اترتی ہے تو ’’گنڈاسا‘‘ شروع ہو جاتی ہے اور گاہے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہدایت کاروںنے ری میک کے نام پران سب فلموں کی کھچڑی بنا دی ہے۔فلم کانام جو بھی ہو البتہ اس فلم کا سلطان راہی نوازشریف ہی ہے ۔ایک واضح فرق البتہ یہ ہے کہ مولا جٹ میں ایک ہی نوری نت ہوا کرتا تھا جس سے مولا جٹ کو زور آزمائی کا موقع ملتا مگر اس فلم کے مولا جٹ کی حیثیت سے نوازشریف کو بیک وقت کئی نوری نت للکار رہے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ ان سب کو ’’ڈپٹی ‘‘کی تائید و حمایت بھی حاصل ہے۔پنجابی فلموں کے مولا جٹ کو بھی اس وقت تک اشتعال نہیں آتا تھا جب تک سارے دشمن جمع ہو کر اس پر پل نہ پڑتے اور نوازشریف بھی ایک آدھ نوری نت کو گھاس نہیں ڈالتے اور اس وقت تک ٹس سے مس نہیں ہوتے جب تک سارے نوری نت ایک کنٹینر پر نہ آجائیں ۔جب بلوچستان میں عوامی مینڈیٹ کو بلڈوز کیا جا رہا تھا تو نوازشریف نے کمال شان بے نیازی دکھائی اور یوںخاموش رہے جیسے پنجابی فلموں میں سلطان راہی دشمنوں کو آگے بڑھتے دیکھ کر چپ چاپ کھڑے رہتے ۔جب ڈانگ اور سوٹے سے لیس سب دشمن گھیرا ڈال لیتے تب بھی سلطان راہی یوں بے اعتنائی کا مظاہرہ کرتے جیسے یہ لڑائی بچوں کا کھیل ہو۔اس دوران ڈانگ سوٹا چل جاتا ،سب مل کر سلطان راہی کی دھنائی کرنے لگتے ،سر پھٹول کے باوجود مولا جٹ ہاتھ نہ اٹھاتا اور چپ چاپ کھڑا رہتا ،یہاں تک کہ اس کی ماں للکار کر کہتی ’’مار اوئے مولے آ،اَج لاشاں وچھا دے‘‘یہ سنتے ہی مولاجٹ کے تن بدن میں بجلیاں کوندنے لگتی ہیں اور وہ گنڈاسا لیکر سب نوری نتوں کوایسی پٹخنیاں دیتا ہے کہ فلم بین بھی خود کو مولا جٹ سمجھنے لگ پڑتے ہیں ۔ہاں البتہ ہمارے مولا جٹ کی کہانی فلمی دنیا کے ہیرو سے کچھ مختلف ہے ۔فلمی دنیا کا مولا جٹ پہلے چاہے زیرو ہو مگر فلم کا دی اینڈ ہونے تک بطور ہیرو خود کو منوا چکا ہوتا ہے مگرہماری سیاسی دنیا کا ہیرو اپنے مدمقابل نوری نتوں کا سامنا کرتے کرتے کچھ یوں ناک آئوٹ ہوتا ہے کہ اس کے بہی خواہ محض یہی کہہ پاتے ہیں کہ ’’مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا‘‘
اب تک جتنی بھی لڑائیاں ہوئیں ،اس میں اخلاقی فتح بھلے کسی کے حصے میںہی آئی ہو لیکن وقتی کامیابی کسی ’’ڈپٹی ‘‘ یا نوری نت کو ہی نصیب ہوئی ہے۔سیاسی مولا جٹ اپنی حکمت عملی سے بسا اوقات حریفوں کو چاروں شانے چِت بھی کر دیتا ہے مگر فتوحات کے اس تسلسل کو فلم کے آخر تک برقرار نہیں رکھ پاتا ۔کبھی تو یوں بھی ہوتا ہے کہ مولا جٹ کا کردار مقبول ہو رہا ہو تو ہدایت کار فلم کا دی اینڈ کرکے کوئی نئی فلم چلا دیتے ہیں تاکہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔جیسا کہ 1997ء کی مشہور زمانہ فلم ’’شیرِپنجاب‘‘ میں جب مولا جٹ نے ایک ایک کرکے سب نوری نت پچھاڑ ڈالے اور اسے ہرانے کاکوئی امکان باقی نہ رہا تو ہدایت کاروں نے فلم مکمل ہونے سے پہلے ہی ختم شد لکھ ڈالا اور جھٹ سے نئے کردار متعارف کرواکے ایک اور فلم چلا دی ۔
موجودہ فلم جو میرے خیال میں تمام پنجابی فلموں کا ری میک ہے اس میں تماشائی یہ دیکھ کر حیران اور پریشان ہیں کہ مولا جٹ نہ تو ناک آئوٹ ہونے کے باوجود غصے میں آ رہا ہے اور نہ ہی شکست تسلیم کرنے پر آمادہ ہے ۔فلم بین منتظر ہیں کہ کب ہدایت کاروں کی ایما پر نوری نت اپنی مکمل فتح کا اعلان کریں یا پھر مولا جٹ حسب مزاج بپھر جائے اور سب مخالفین کے چھکے چھڑادے۔لیکن مولا جٹ تو بس ایک ہی جملہ کہے جا رہا ہے ’’مار اوئے ڈپٹی‘‘اُدھر نوری نت مسلسل اسے بھڑکانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور للکار کر کہہ رہے ہیں ’’چلا گنڈاسا چلا‘‘ مگر مولا جٹ یہ کہہ کر ٹال مٹول کر رہا ہے کہ ’’ڈیڑھ من دی لاش تے اے گنڈاسا کنااِک تیز چلے گا اوئے‘‘ابھی اس سیاسی فلم کے مولا جٹ نوازشریف نے حلف اٹھایا ہی تھا اور سب کو معلوم تھا کہ یہ اس کی تیسری انٹری ہے مگر پھر بھی سب نوری نت یکجا ہو کریہ کہتے ہوئے حملہ آور ہوگئے ’’نواں آیا ایں سوہنڑے آ‘‘مولا جٹ کے اغماض برتنے پر یہ نوری نت آخری حد تک آپہنچے مگر مولا جٹ نے گنڈاسا چلانے کے بجائے ان مخالفین کو تھکا تھکا کر اور بھگا بھگا کر ہرانے کا فیصلہ کیا۔
اب تو لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ سیاسی فلم کے مولا جٹ نوازشریف کھڑاک کریں گے یا نہیں؟پرویز مشرف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ نہ چل سکا ،پرویز مشرف کو دودھ میں سے بال کی طرح نکال کر ملک سے باہر بھیج دیا گیا ،نوازشریف نے کہا میں وقت آنے پر قوم کو حقائق سے آگاہ کروں گا۔کچھ لوگوں نے دھرنا ون میں ڈنکے کی چوٹ پر بغاوت کی اور انتشار پھیلانے والوں کا ساتھ دیا تو نوازشریف نے کہا میں کبھی اس سازش سے پردہ اٹھائوں گا۔دھرنا ٹو ہوا تو نوازشریف نے چپ کا روزہ نہ توڑا۔جے آئی ٹی کس کے ایماپر کیسے بنی ،پانامہ کا معاملہ اقامہ تک کیسے پہنچا ،وزیر اعظم کی نااہلی کے پس پردہ محرکات کیا تھے ،ڈان لیکس کے نام پر چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنے والے کیا چاہتے تھے ،رَد کرنے والی ٹویٹ کیوں اور کیسے ہوئی ؟ان سب سوالات کے حوالے سے چہ میگوئیاں ہوتی رہیں ،مجھ ایسے صحافی اپنی محدود معلومات کی بنیاد پر قوم کو آگاہ کرتے رہے مگر نوازشریف سے جب بھی اس بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا میں وقت آنے پر ان تمام حقائق سے پردہ اٹھائوں گا۔یہاں تک کہ بلوچستان میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور ان کو نکال باہر کرنے والے تینوں نوری نت ان کی راجدھانی کے مرکز لاہور میں ایک ہی کنٹینر پر جمع ہو گئے مگر میاں نوازشریف صاحب اب بھی محض یہ کہنے پر اکتفا کر رہے ہیں کہ بلوچستان میں ہونے والی سازش کو وقت آنے پر بے نقاب کروں گا ۔وہ وقت کب آئے گا؟اور سیاسی میدان کے مولا جٹ کا کھڑاک کب ہو گا ،ہو گا بھی یا نہیں،اس بات کا جواب تو وہ خود ہی دے سکتے ہیں۔

تازہ ترین