• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2008ء کے اوائل میں پیپلز پارٹی نے حکومت سنبھالی۔ محترمہ شیری رحمان کو وزارتِ اطلاعات سونپی گئی۔ میں اُس وقت وزارتِ ٹیکسٹائل کا سیکرٹری تھا۔ شیری رحمان نے بلا بھیجا۔ پہلی ملاقات تھی۔ اُنہوں نے میری گزشتہ سرکاری ذمہ داریوں کے بارے میں سوال کئے۔ احساس ہوا کہ وہ سیکرٹری اطلاعات کی خالی پوسٹ کے لئے میرا انٹرویو لے رہی ہیں۔ شیری رحمان پڑھی لکھی، روشن خیال خاتون ہیں۔ دوستانہ ماحول میں بات چیت نے میرے ذہن کو آسودہ کر دیا۔ جب اُنہوں نے پوچھا کہ میڈیا میں حکومت کے نقطہ نظر کو اُجاگر کرنے کے لئے کیا حکمت ِعملی ہونی چاہئے۔ میں نے جواب میں اُنہیں بے تکلفی سے ایک واقعہ سنایا۔ جب عارف نکئی پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے تو اُنہوں نے سیکرٹری اطلاعات کے لئے مرحوم ظہورالحق شیخ کا انتخاب کیا۔ شیخ صاحب اپنی بے باک راست گوئی کی وجہ سے مشہور تھے۔ عارف نکئی نے پنجابی میں ہدایت دیتے ہوئے کہا ’’شیخ صاب! ہُن ساڈی حکومت دیاں چنگیاں خبراں لواناں‘‘ ظہور الحق شیخ نے بے ساختہ جواب دیا۔ ’’سر! چنگے کم کراں گے تے چنگیاں خبراں وی لگ جان گیاں‘‘ ہماری گفتگو مزید آدھ گھنٹہ جاری رہی۔ وقت ِرخصت شیری رحمان نے کہا ’’میں آپ کا نام منظوری کے لئے بھجوا رہی ہوں‘‘ مگر شیری رحمان کی تجویز کو منظوری نہ ملی اور میں وزارتِ اطلاعات کی آزمائش سے بچ گیا۔
یہ بائیس سال پہلے کی بات ہے۔ اُن دنوں خبر اچھی ہو یا بُری، ذریعہ صحافی اور تجزیہ کار ہی تھے۔ اشتہاری کمپنیوں کی توجہ نجی شعبے کی مصنوعات مشتہر کرنے پر تھی۔ اِس مد میں سرکار کے اخراجات بہت کم تھے۔ اب وقت بدل گیا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا بھی اپنی اہمیت منوا چکا ہے۔ آج کل اخبار کھولیں یا ٹیلی وژن چینل دیکھیں، ایئر کنڈیشنر، فریج، بسکٹ، کولڈ ڈرنکس حتیٰ کہ رنگ گورا کرنے والی کریموں سے بھی زیادہ سرکاری اشتہارات نظر آئیں گے۔
تشہیر کے ذریعے سیاسی بُت تراشنے کا عمل بہت پرانا ہے۔ اِس کی ایک جھلک ماضی کی عالیشان عمارتوں میں نظر آتی ہے۔ اہرامِ مصر کی شان و شوکت کے پیچھے بھی یہی جذبہ کارفرما ہے۔ خودنمائی ایک لحاظ سے نفسیاتی بیماری ہے۔ اِس کے منفی رجحان کے باعث نئے حکمران، گزشتہ حکومت کے زیرِ تکمیل منصوبے ادھورے چھوڑ دیتے ہیں۔
قارئین نے وہ کہانی تو سُنی ہو گی کہ ایک بوڑھا شخص پھلدار پودا لگا رہا تھا۔ دیکھنے والے نے کہا ’’بڑے میاں! یہ آپ کی زندگی میں تو پھل نہیں دے گا۔ اِس محنت کا کیا فائدہ؟‘‘ بوڑھے نے جواب دیا ’’جو پھل میں آج کھا رہا ہوں، اُن کے پیڑ کسی اور نے کاشت کئے تھے‘‘ آج کل حکمرانوں کے دل میں اتنی وسعت نہیں کہ وہ اِس سوچ کو اپنائیں۔
منفی سوچ کا شکار سیاستدان ہی نہیں بلکہ فوجی حکومت بھی ہو جاتی ہے۔ جب مشرف نے حکومت سنبھالی تو حکم ملا کہ محکمہ تعلیم کے زیرِ تکمیل منصوبوں کو فراموش کر دیا جائے کیونکہ شہباز شریف کے نام سے منسوب ہو چکے تھے۔ میں سیکرٹری تعلیم تھا۔ وضاحت کی کہ یہ ٹیم ورک کا نتیجہ تھے۔ وزیر اعلیٰ نے صرف سفارشات منظور کی تھیں مگر حکم اٹل تھا، سو قائم رہا۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ 1993ء سے 1997ء تک لاہور اسلام آباد موٹر وے کے لئے مالی وسائل کی فراہمی روک دی گئی تھی کیونکہ اِس منصوبے کے ساتھ نواز شریف کا نام چسپاں ہوچکا تھا۔ شہباز شریف دوسری دفعہ وزیرِاعلیٰ بنے تو اُن پر بھی الزام لگا کہ پرویز الٰہی کے شروع کئے ہوئے زیرِ تکمیل منصوبوں کے لئے مالی وسائل کی فراہمی روک دی گئی ہے۔ مثلاً ملتان میں امراضِ قلب کا اسپتال، جو پرویز الٰہی کے نام سے منسوب تھا۔ مگر شہباز شریف نے ریسکیو 1122 کا مفید منصوبہ ختم نہیں کیا۔ وفاقی حکومت کے معاملے میں بھی خوشگوار حیرت ہوئی جب نواز شریف نے غریبوں کی امداد کے لئے پیپلز پارٹی کا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جاری رکھا۔
عوام کے دل پر نقشِ دوام کندہ کرنے کی جستجو، ہمیں منصوبوں پر تختی لگانے کی دوڑ میں نظر آتی ہے۔ مشرف دور میں ذاتی تشہیر کا شوق بے قابو ہوتے دیکھا۔ منصوبے کے لئے پہلے گرائونڈ بریکنگ کی تقریب ہوتی۔ کام شروع ہونے پر سنگِ بنیاد رکھنے کا اہتمام کیا جاتا۔ تکمیل پر فیتہ کٹتا اور افتتاحی جشن بپا ہوتا۔ شوکت عزیز وزیرِ اعظم تھے اور میں سیکرٹری ٹیکسٹائل۔ حکم ملا کہ گارمنٹس سٹی فیصل آباد کی گرائونڈ بریکنگ تقریب کا اہتمام کیا جائے۔ مجھے اعتراض تھا کہ منصوبے کی تعمیر تو کئی مہینوں سے جاری ہے جب کہ گرائونڈ بریکنگ خالی زمین پر کی جاتی ہے۔ پھر ایک اور حیرت انگیز حکم ملا کہ یہ تقریب سیکورٹی وجوہات کی بنا پر گورنر ہائوس لاہور میں منعقد کی جائے ۔ حکمِ حاکم تھا، سو عمل درآمد ہوا۔ زمین فیصل آباد میں اور تقریب گورنر ہائوس لاہور کے ہال میں۔ اِس سے بڑا لطیفہ کیا ہوسکتا ہے۔
دیامیر بھاشا ڈیم کا قصہ بھی کم دلچسپ نہیں۔ منصوبہ آج تک شروع نہیں ہوا اور شاید آئندہ کچھ برسوں تک نہ ہو سکے مگر اُس کی گرائونڈ بریکنگ دو دفعہ ہو چکی ہے۔ پہلی دفعہ مشرف کے ہاتھوں جب وہ صدرِ پاکستان تھے اور دوسری دفعہ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں۔ تختی لگانے کی تقریب میں بہت سے اخراجات شامل ہوتے ہیں۔ شہروں سے دُور صوفے، ایئر کنڈیشنڈ شامیانے اور مہمانوں کے لئے کھانے کا اعلیٰ انتظام۔ پھر صحافیوں اور خاص مہمانوں کے لئے بذریعہ ہیلی کاپٹر سفر کا اہتمام۔ اخراجات ٹیکس گزاروں کی جیب سے ادا ہوتے ہیں۔ اِن تقریبات کا مقصد عوام کو منصوبے کے بارے میں باخبر کرنے سے زیادہ سیاسی مخالفوں پر تنقید اور اپنے قد کاٹھ میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔
کارکردگی کی بنیاد پر سیاسی قیادت کا بُت تراشا جائے تو کوئی اعتراض نہیں مگر شوقِ آذری کی حدود و قیود متعین ہونی چاہئیں۔ ٹیکس کی رقم سے ٹیلی وژن پر اشتہار چلیں اور قیادت کی قصیدہ گوئی کی جائے تو عوام کے دل میں منفی جذبات اُبھرتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ رُجحان بڑھتا جا رہا ہے جو بادی النظر میں ایک معاشی جرم دکھائی دیتا ہے۔
پرویز مشرف کی حکومت کے دوران اسٹاف کالج کے کورس میں قوانین اور آئین میں ترامیم کے لئے تجاویز مانگی گئیں۔ راقم نے جسارت کی کہ ترقیاتی منصوبوں سے متعلق تقریبات کا اہتمام عوام کے ٹیکس کی رقم سے نہیں ہونا چاہئے۔ اپنی تختی لگانے والا حکمران یا اُس کی سیاسی پارٹی، تقریب کے تمام اخراجات اپنی جیب سے ادا کرے۔ کارکردگی کی اپنی زبان ہوتی ہے۔ اُس کی آواز سب کو سنائی دیتی ہے۔ فارسی کا محاورہ ہے ’’عطر آں است کہ خود بیبوت، نہ کہ عطار بگوید‘‘ جیسے عطر کی خوشبو تعریف کی محتاج نہیں ہوتی، اِسی طرح میرِ کارواں کو احساس ہونا چاہئے کہ اچھی کارکردگی بھی خوشبو کی طرح ہے۔ وہ خود بخود چاروں طرف پھیل جاتی ہے۔ اُسے عوام کے پیسے سے مشتہر کرنے کی ضرورت نہیں۔

تازہ ترین