• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اونچی دکان کا حال آپ نے اکثر سنا ہوگا، آج اونچے مکان کی بات ہو رہی ہے۔ ہم نے اپنی طرف کے شہروں کی جتنی بھی قدیم تصویریں دیکھی ہیں، سب میں جہاں تک نگاہ جاتی تھی، ایک منزلہ عمارتیں نظر آتی تھیں۔گزرے ہوئے دنوں کا یہی چلن تھا۔ چھت پر بس اتنا تھا کہ گرمیوں میں لوگ وہاں چارپائیاں ڈال کر سو رہتے تھے یاپتنگ اڑانے اور عید کا چاند دیکھنے اوپر چڑھا کرتے تھے۔اس پر وہ لطیفہ یاد آتا ہے کہ بیٹا دیر سے چھت پر چڑھا ہوا تھا، نیچے سے ماں نے آواز دی کہ بیٹے وہاں چڑھے کیا کر رہے ہو۔ بیٹے نے جواب دیا کہ امّی چاند دیکھ رہا ہوں۔ ماں نے کہاکہ بس اب نیچے آجاؤ او رچاند سے کہو وہ بھی اپنے گھر چلی جائے۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب گھر سے گھر ملے ہوئے ہوتے تھے۔ عورتیں چھتوں چھتوں چل کر پورا محلّہ گھوم آتی تھیں۔ بلکہ دلّی کی جامع مسجد کی گلیوں میں تو سنا ہے کہ گھروں کی درمیانی دیوار میں کھڑکیاں کھلی ہوتی تھیں اور خواتین کو باہر گلیوں میں نکلنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، وہ ان ہی کھڑکیوں کے راستے سارا پاس پڑوس گھوم آتی تھیں۔ بس یہ ضرور ہے کہ آبادی بڑھنے کا سلسلہ ایک روز بھی نہیں تھما۔وہ بڑھی تو مکان بھی بڑھے۔ بہبود آبادی والے یہ حدیث بڑے شوق سے سنا تے ہیں کہ رسول اکرم ؐ شہر مدینہ کے نواح سے گزر رہے تھے کہ ایک مقام پر رک گئے اور فرمایا کہ جب مدینے کی آبادی پھیل کر اس جگہ تک آجائے تو پھر یہاں سے ہٹ کر کوئی دوسرا نیا شہر آباد کرنا۔پرانی آبادیوں کا یہی حسن تھا۔ مکانوں کے اس قرب میں قباحتیں ضرور ہو ں گی، مثلاً پڑوسیوں کے لڑائی جھگڑے لیکن یہ بھی تھا کہ بیٹیاں آس پاس ہی بیاہی جاتی تھیں۔ میں نے کانپور میں اپنی ماں کا گھر دیکھا ہے۔ سارے کنبے ایک ہی آنگن کے گرد بنے ہوئے کمروں میں آباد تھے۔ شادی ہونے پر لڑکی ایک کمرے سے نکل کر دوسرے میں چلی جاتی تھی۔ وہ تو کہتے ہیں کہ جب سے ریل گاڑی چلی ہے، لوگ اپنی بیٹیوں کو دور دور بیاہنے لگے ہیں۔ مختصر یہ کہ جب تک مکان ایک منزلہ تھے، سماجی زندگی ایک اور ہی ڈھنگ سے گزرتی تھی۔ شہر پھیلتے ضرور تھے لیکن آگے پیچھے یا دائیں بائیں۔(افقی جیسی بھاری بھرکم اصطلاح نہیں استعمال کروں گا) ۔پھر یہ ہوا کہ آبادی کی وسعت بڑھی تو فاصلے بڑھنے لگے۔ اس پر یہ شعر یاد آتا ہے جو مشتاق احمد یوسفی صاحب کو بہت پسند تھا:
اس قدر بڑھنے لگے ہیں گھر سے گھر کے فاصلے
دوستوں سے شام کے پیدل سفر چھینے گئے
جب میں نے ہوش سنبھالا، اور یہ پہلی عالمی جنگ اور سنہ چالیس سے پہلے کی بات ہے، شہر میں دو منزلہ عمارتیں بننے لگی تھیں۔آبادی بڑھنے لگی تھی۔ شہر پھیلنے لگے تھے۔ پھر کراچی آکر ہم نے بندر روڈ پر بولٹن مارکیٹ کے قریب اس وقت کی مشہور عمارت ’ لکشمی بلڈنگ‘ دیکھی۔ جب بھی دیکھتے تھے نہیں معلوم کیوں اس کی منزلیں گنتے تھے، ہر بار پانچ ہی ہوتی تھیں۔ اس کی چوٹی پر لکشمی دیوی کا بڑا مجسمہ کھڑا تھا۔ اسے گرا کر کسی نے اس کا دھرم درست کردیا۔ پاکستان بننے کے سولہ سال بعد کراچی میں پہلی اونچی عمارت بنی جو اپنی گولائی کی وجہ سے آج بھی پہچانی جاتی ہے۔ اس میں پچیس منزلیں تھیں۔ پھر تو یہ سلسلہ ایسا چلا کہ اب معاملہ ساٹھ سے زیادہ منزلوں تک جا پہنچا ہے۔ عرب ملکوں میں تو اتنی اونچی عمارتیں بننے لگی ہیں کہ ماہ رمضان کے دوران ان کی نچلی منزلوںمیں روزہ پہلے کھل جاتا ہے، اُس وقت اوپر کی منزلوں میں ڈھلتے سورج کی دھوپ جھانک رہی ہوتی ہے۔
وہ تو خیر بڑے بڑے کاروباری اداروں کی عمارتوں کی بات تھی۔ اب میں کراچی کے کتنے ہی علاقوں کی ان عمارتوں کی بات کرنا چاہتا ہوںجنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ شہر میں عمارتوں کا جنگل اگ رہا ہے۔ عمارتیں ہیں کہ اونچی سے اونچی ہوئی جاتی ہیں۔ آگے پیچھے، ایک سے اونچی ایک، سر اٹھائے کھڑی ہیں۔ چند ایک کی نہ صورت نہ شکل، لگتا ہے جوتے کے ڈبّے میں کھڑکیاں کاٹ دی گئی ہیں۔ یہ کہنے کو عمارتیں لیکن اصل میں فلیٹوں کے چھتّے ہیں جن کو باہر سے دیکھو تو لگتا ہے کہ اوپر تلے فلیٹ پر فلیٹ چن دئیے گئے ہیں ۔ چلئے ان کو ترقی کی علامت مان لیتے ہیں لیکن۔ شہر کراچی کا حال دیکھئے، نہ پانی نصیب ہے، نہ گیس اور نہ بجلی۔ڈیفنس کہلائے جانے والے نہایت فیشن ایبل علاقوںمیں پانی نہیں ملتا، پانی سے بھرے ٹینکر خریدنے پڑتے ہیں۔ نکاسی آب کانظام خدا جانے کیسے چل رہا ہے۔ ہر روز کئی کئی ٹن کچرا ٹھکانے لگانے کا نظام کہیں ہوگا، میں نے تو نہیں دیکھا۔ایسے حالات میں یہ جو فلک میں شگاف ڈالنے والی عمارتیں سر اٹھا رہی ہیں ان کے اندر رہنے والوں کی زندگی کیونکر گزرے گی، قیاس کرنا مشکل ہے۔ ان عمارتوں کی بنیاد رکھتے ہی پہلے ایک ماڈل یا نمائشی فلیٹ بنادیا جاتا ہے جو مستقبل کے گاہکوں کو دکھایا جاتا ہے۔ وہ فلیٹ ایسا دل کش منظر پیش کرتا ہے کہ اسے دیکھ کر روم، پیرس، لندن اور نیویارک کے فلیٹوں کا گمان ہوتا ہے۔ گاہک انہیں دیکھ کر چشم تصوّر میں اپنے آنے والے دنوں کی کیسی دل فریب تصویریں بناتے ہوں گے۔ چند برس بعد جب ہم نے ان ہی فلیٹوں کی اسی عمارت کودیکھا تو اس کی بالکنی میں یہاں سے وہاں تک بندھی ہوئی الگنی دیکھی اوراس پر لٹکے ہوئے بچّوں کے پوتڑے اور میاں صاحب کی لنگی اور بیگم صاحبہ کے بہت ہی ذاتی ملبوسات دیکھے اور عمارت کی دیواروں میں رستا ہوا پانی دیکھا اور وہ شروع شروع کے رنگ و رو غن کو دیکھا جو کراچی کی دھوپ میں پھیکا پڑتے پڑتے بدہیئت ہوگیا ہے۔ یہ تو ہوئی عمارت کی بات۔ اب ان چالیس پچاس کنبوں کی زندگی کا حال پوچھیں تو لندن کی مثال دینی پڑے گی۔ برطانیہ میں بے گھر لوگوں کو گھر فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس کے لئے حکومت نے اوپر تلے سینکڑوں عمارتیں بنائی ہیں جو estateکہلاتی ہیں۔ ایک وقت ایسا آیا جب حکام نے محسوس کیا کہ عمارتیں کم اور بے گھر لوگ زیادہ ہوتے جارہے ہیں۔ انہوں نے سوچا کہ جہاں جگہ ملے فلیٹوں والی اونچی عمارتیں اٹھا کر اس مجمع کے سر پر چھت فراہم کردی جائے۔ چنانچہ ادھر اُدھر ہر طرف فلیٹوں کے جنگل کھڑے کر دئیے گئے۔ زیا دہ وقت نہیں گزرا تھا کہ پتہ چلا کہ یہ تو قیامت سر پر آگئی۔ان فلیٹوں میں ایسے ایسے گمبھیر سماجی مسائل نے سر اٹھایا اور فلیٹوں کی ان چھتوں میں جرائم نے ایسی جڑ پکڑی اور پڑوسیوں کے لڑائی جھگڑوں اور شراب نوشی، جوا اور گھریلو مار پیٹ کے واقعات نے ایسی شدت اختیار کی کہ(اور اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں) کہ یہ عمارتیں خالی کراکے اور بارود کے دھماکے کرکے خاک میں ملادی گئیں۔یہ ایک ایسے معاشرے کا ذکر ہے جسے دنیا مہذب سمجھتی ہے۔اس کی تفصیل میں جانے سے بہتر ہے کہ آتش دان کے آگے بیٹھ کر گرم کافی پی جائے اور پرانے گانے سنے جائیں۔

تازہ ترین