• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)
انکل ایک ہفتہ بعد آپ سے مخاطب ہوں، یہاں پہنچنے سے میری تھکاوٹ دور ہوچکی ہے بس دو طرح کی فکر ہے ایک یہ اللہ نہ کرے کسی دوسری زینب کے ساتھ یہ واقعہ پیش آئے، دوسری یہ کہ امی ابو اور گھر والوں کی یاد بہت ستاتی ہے، ڈیڑھ سال کے دوران قتل کی گئی گیارہ بچیوں کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوئی ہوں، بچیاں جب مجھے ملیں تو میرے گلے لگ کر ایسے چیخیں اور دھاڑیں مار مار کر ماتمی انداز میں آوازیں نکال کر روئیں کہ مجھے ایسا لگا جیسے پاکستان میں زلزلہ آگیا، وہ میرے دکھ اور درد کو سمجھ سکتیں تھی اور میں ان کی تکلیف کو، انہوں نے گلہ کیا ہم سمجھی تھی تمہارے انکل شہباز کی دن رات محنت کی بدولت کسی دوسری بچی کے ساتھ ایسا نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ ہمارا اور ہم آپ کا درد سمجھ سکتیں ہیں۔ کیونکہ ایہہ کی جانن دنیادار حکمران، انکل وہ ایسے ہی جس کی ماں جب فوت ہوتی ہے تو دوسری وہ جس کی ماں پہلے فوت ہوچکی ہوتی ہے وہ بھی آہوں اور سسکیوں کے ساتھ رونا شرو ع کر دیتی ہے انکل وہ اسلئے کہ پہلے والی دوسری کے درد کو آسانی کے ساتھ سمجھ سکتی ہے، انکل بابا بلھے شاہ! آپ کیلئے کہہ رہے تھے اگر میری 11بیٹیوں کو شمر کے نوچنے کے بعد بھی ’’خادم اعلیٰ‘‘ باقیوں کو تحفظ نہیں دے سکتے تو میری قبر پر ڈھول بجانے والوں اور قوالی گانے والوں کو ڈی جی اوقاف سے کہہ کر منع کروائیں اور سرکاری سطح پر قصور شہر کا نام بدل کے قصوروار رکھ دیں۔ انکل آپ کی دوسری بیگم بڑی سوشل اور خدا ترس ہیں وہ بھی میری امی سے ملنے نہیں گئیں اور نہ ہی آپ کے بھائی نواز شریف، بیٹے حمزہ و سلمان اور بھتیجی مریم میرے گھر گئے۔ انکل یقیناً جس طرح آپ اپنی بیٹیوں سے پیار کرتے ہیں اسی طرح میرے والدین بھی مجھ سے پیار کرتے تھے انکل آپ کی تو تین صاحبزادیاں ہیں، میرے والدین کی کوئی اور بیٹی بھی نہیں۔ انکل جس طرح آپ کو اپنے بھائی محمد عباس شریف یاد آتے ہیں اسی طرح مجھے اپنے اکلوتے بھائی محمد ابوذر بہت یاد آتے ہیں۔ انکل مجھے میرے دادا حاجی محمد اسماعیل اور نانا حاجی محمد حسین مرحوم بھی ملے ہیں، میرا حال دیکھ کر بہت پریشان ہوئے۔ انکل مجھے اپنی دادی صدیقہ، نانی حمیدہ، تینوں خالہ غلام فاطمہ، رخسانہ اور رانی، چچا مدثر احمد اور حافظ محمد عدنان کی جنازہ کے موقع پر آہیں اور سسکیاں آج بھی جب کانوں سے ٹکڑاتی ہیں تو اٹھ کر بیٹھ جاتی ہوں۔ انکل جس طرح آپ کو اپنی ’’امی‘‘ سے پیار ہے اور آپ جمعہ جاتی امرا میں نماز ادا کرنے کے بعد اپنی امی کے ہاتھوں اور قدموں کا بوسہ لیتے ہیں، مجھے بھی امی ’’نصرت امین‘‘ اسکول روانہ کرنے سے پہلے میری پیشانی پر بوسہ دیتی تھی۔ میرے قاتل درندے شمر کو عبرت کا نشان بناکر میری امی کی ہچکیوں اور سسکیوں کو سہارا دیں کیونکہ مجھے علم ہے اب میری امی کی آنکھوں میں میرے لئے رو رو کر آنسو آنے بند ہوگئے ہیں بس ہچکیاں باقی رہ گئی ہیں۔ جس طرح آپ جمعہ کے بعد الحاج حبیب اللہ بھٹی کی آواز سے آواز ملا کر جاتی امرا مسجد میں درود وسلام پڑھتے ہیں میں بھی جمعہ کی نماز کے فوراً بعد اپنے محلہ کی مسجد میں درود وسلام کی آواز سنتے ہی دوڑ لگا کر اپنے والد کیساتھ کھڑی ہو کر سلام پڑھتی تھی۔ انکل یہ معاشرہ انسانیت نما ضرور تھا لیکن اب اس کی پہچان حیوانیت نما بنتی جار رہی ہے آپ سروے کرا کے دیکھ لیں۔ میرے ساتھ درندگی، وحشت، بربریت اور انسانیت سوز واقعہ کے بعد بہت سے باشعور اور باضمیر لوگ اپنے انسان ہونے پر شرمندگی محسوس کر رہے ہیں۔ انکل پاکستان کی پولیس احتجاج کرنیوالوں پر سیدھی گولیاں کیوں چلاتی ہے؟ جس وقت میرے اوپر قیامت برپا کی گئی میرے دل کو چیرنے والی آوازیں اگر آپ سن لیتے تو ساری زندگی آپ کو نیند نہ آتی۔ آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ سڑکیں اینٹ، سریا، سیمنٹ اور بجری سے مضبوط ہوتی ہیں جبکہ معاشرہ اعلیٰ اخلاقی اقدار سے مضبوط ہوتا ہے۔ انکل مشکل کیس ہے، مشکل فیصلے کر گزریں، میری روح خوش ہوجائے گی اور شاید آپ بھی کامیاب ہو جائیں، قصور شہر کے1000بااثر سیاستدانوں، مالداروں، پولیس اور ان تمام کے چیلوں کو لائن میں کھڑا کر کے اپنی مخصوص انگلی لہراتے ہوئے ان کے ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کا حکم دیں، ان کے اور انکے ملازمین کے پانچ پانچ موبائل فونز کی کال ریکارڈ بھی چیک کریں۔ انکل میری امی ابو کی طرح خواہش ہے کہ ہمارا کیس فوجی عدالت میں چلایا جائے اور آرمی چیف میرے گھر آکر یقین دہانی کرائیں۔ انکل ’’اجتہاد‘‘ میں بہت سارے وکلاء کا میں نے ذکر کیا تھا لیکن اعتزاز احسن کے علاوہ کوئی میرے گھر والوں کے پاس نہیں گیا آخر کیوں؟ انکل دیکھ لیں میرے کیس میں آپ کا آئی جی پنجاب ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں پیش نہیں ہوا، بلکہ ایڈیشنل آئی جی ابوبکر خدابخش پیش ہوئے۔ انکل ایسا تعلیمی اور تربیتی اعلی اقدار پر مشتمل نصاب بنائیں کہ مائیں شمر لعین نہیں بلکہ میری جیسی مظلوم بیٹیوں اور بہنوں کیلئے محمد بن قاسم پیدا کریں۔ انکل این جی اوز کے ایجنڈ کو انکل ذوالفقار چیمہ نے خوب بے نقاب کیا ہے کہ میرے کیس کی آڑ میں پہلے مرحلے میں جفتی کی تعلیم عام کی جائے بعد میں فری جفتی ماحول اور اس کے بعد جواں لڑکیوں اور لڑکوں کو خاندانی اقدار سے بغاوت کا درس دیا جائے گا۔ اف توبہ انکل! ایسا نہ ہونے دینا اس حوالے سے انکل ذوالفقار چیمہ سے ضرور مشاورت کریں۔ انکل انگریز کا قانون ختم کریں اور پنجاب کے نصاب تعلیم میں سورہ نور کو ترجمہ وتشریح کے ساتھ شامل کروائیں۔ انکل سپریم کورٹ کی خواہش پر بچوں کے بارے مرکز میں نہیں تو صوبے میں ہی قانون سازی کرا دیں۔ انکل خیبرپختواہ کے ضلع مردان میں افسوس ناک واقعہ کی اطلاعات آرہی ہیں جسکی فرانزک رپورٹ کیلئے لاہور آنا پڑتا ہے۔ آپ خیبرپختواہ میں پنجاب کے بجٹ سے فرانزک لیبارٹری لگانے کا اعلان کر دیں۔ انکل پنجاب پولیس کی وردی تبدیل کرنیکی بجائے ان کا رویہ اور کرتوت ٹھیک کریں، انکل جالب کی شاعری آپ کو پسند ہے لیکن جالب جیسی زندگی تو میرے پاپا گزارتے ہیں۔ انکل میں مشکور ہوں دوبار میرے شہر گئے، بڑے کام کرتے ہیں اور زیادہ کام کرنے والے کو ہی جلدی غصہ آتا ہے ناراض نہ ہوں تو جسارتی عرض ہے۔ جب فجر کے وقت میرے ابو کو ملے تھے تو آپ نے کہا تھا کہ میں اپنا موبائل نمبر دے کر جاتا ہوں اور آپ کا موبائل نمبر لے لیتا ہوں تاکہ کسی وقت بھی آپ مجھ سے رابطہ کر سکیں لیکن انکل نہ نمبر لیا اور نہ دیا، ایسا کیوں۔ دس دن ہونے کو آئے میرے امی ابو سے کسی حکومتی نمائندہ نے رابطہ تک نہیں کیا، ذرا سوچئے؟ آپ جب دوسری بار قصور گئے تو میرے ابو آپ کا انتظار کرتے رہے۔ کوئی مالی تعاون کا اعلان ہی کردیں۔ انکل یہ ساری باتیں اسلئے کی ہیں کہ بعض دفعہ میں ایڑھیاں اٹھا کر چلنے لگتی تو ماما پاپا کہتے تھے بیٹی اس طرح بندہ بڑھا نہیں ہوتا لیکن اب میں بڑی ہوچکی ہوں۔ آخر میں یہی کہوں گی میرے قاتل اگر نہ پکڑے، نظام کی تطہیری نہ کی اور اپنی ذمہ داری نہ نبھائی تو مجھ معصوم ومظلوم کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ مگر گڈ گورننس پر ایسا سوالیہ نشان لگے گا کہ قیامت تک نہیں مٹے گا۔
جواب کی منتظر
زینب امین
بڑا قبرستان قصور.

تازہ ترین