• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اصل موضوع پر بات کرنے سے پہلے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرف سے نگران وزیراعظم کیلئے سامنے آنے والے ناموں سے متعلق ذرا بات ہو جائے۔ جنگ میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق دوسرے ناموں کے علاوہ عاصمہ جہانگیر کو بھی (ن) لیگ نے نگران وزیراعظم کے عہدے کیلئے لسٹ میں شامل کیا ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو (ن) لیگ سے گزارش ہے کہ پاکستان اور پاکستان کے لوگوں پر رحم اور علامہ اقبال کے خوابوں کے بالکل برعکس نظر آتا ہے۔ 1949ء میں پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے قرارداد مقاصد کو پاس کیا اور اِس قرارداد کو ہر آئین میں شامل کیا گیا ۔ ذولفقار علی بھٹو مرحوم کے دور میں پاس کیے گئے 1973ء کے متفقہ آئین میں قرارداد مقاصد کے علاوہ ایسی شقیں باقاعدہ دستور میں شامل کی گئیں جو پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کیلئے مکمل پلیٹ فارم فراہم کرتی ہیں۔ مگر عملاً ہر گزرتے دن کے ساتھ ریاست اور اُسکے بنیادی نظریئے کے درمیان فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے اور آج ہماری یہ حالت ہے کہ فحاشی و عریانیت کے حق میں دلائل دیئے جا رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ فحاشی و عریانیت کا تعلق محض ذہنیت سے ہے۔ پیمرا کی طرف سے اِس موضوع پر بلائے گئے اجلاس کے اندر اور ٹی وی ٹاک شوز میں اسلام قرآن اور احادیث کا حوالہ سنتے ہی ایک طبقہ کبھی ضیاء الحق مرحوم اور کبھی جماعت اسلامی کو کوسنے لگتاہے۔۔۔!! بعض چہرے تو اسلام کا نام سنتے ہی اس انداز میں بن جاتے ہیں کہ نہ جانے کسی نے کیا کہہ دیا ہو۔ بھئی ضیاء الحق اور جماعت اسلامی کو جتنا کوسنا ہے کوسیں مگر اسلام سے اس قدر چڑ کیوں؟ ہماری تو خوش قسمتی یہ ہے کہ اسلام کے نام پر ہمارا ملک بنا اور اسلام ہی ہمارے آئین کی بنیاد ہے۔ اگر ایسا نہ بھی ہوتا تو ایک مسلمان کیلئے تو اسلام ہی پہلی ترجیح ہے مگر یہاں تو میکالے کے پیروکار اسلام کا نام لینے والوں کا مذاق اُڑانے سے بھی باز نہیں آتے۔ جو جی میں آئے کر لیں ہمارے لئے تو ہمارا دین اسلام اور اس کا ایک ایک حکم بشمول جہاد باعث فخر ہے۔ اِسلام سے شرمانے والے دین کو سمجھے ہی نہیں۔ بات کی جائے بے حیائی اور عریانیت کی تو جواب ملتا ہے کہ ریموٹ استعمال کریں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ پھر اقلیتوں اور عورتوں کے حقوق کا کیا بنے گا کرپشن اور معاشرے میں دوسری خرابیوں کی بات کیوں نہیں کی جاتی؟ جناب کس نے کہا کہ دوسری خرابیوں کو دور نہ کیا جائے مگر یہ کیا بات ہے کہ فحاشی و عریانیت کو اسلئے نہ چھیڑیں کہ دوسرے بھی تو مسئلے ہیں۔ کچھ تو فحاشی کو روکنے کی بات کو عورتوں کے حقوق کے خلاف مہم سمجھتے ہیں۔ عورت کو بے لباس کرنا اور اُس کے جسم کو کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کرنا تو اس کی توہین ہے۔ اقلیتوں اور عورتوں کے بہانے فحاشی کا دفاع کرنے والے اگر سمجھیں تو حقیقت یہ ہے کہ انبیائے کرام اور دین اسلام نے ہی تو ہمیں انسانیت سکھائی۔ اسلام نے ہی عورتوں کو حقوق دیئے اور اقلیتوں کے تحفظ کی بات اس زور سے کی کہ حضرت محمد نے تنبیہ فرمائی کہ ایک اسلامی معاشرہ میں جو کسی ذمی (اقلیتی رُکن) سے زیادتی کریگا اُس کا بدلہ محمد قیامت والے دن خود لیں گے۔ اگر پاکستان میں کسی طبقہ کے ساتھ زیادتی ہوئی تو اس میں اسلام کا کیا قصور؟ اپنی ناکامیوں کا بوجھ ہم اسلام پر کیوں ڈال دیتے ہیں۔اسلام سے دور بھاگنے اور اس سے شرمانے سے کام نہیں چلے گا اسلام کو پڑھ لکھ کر سمجھنا اور شریعت کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو ڈھالنا ہی ہمارے مسائل کا واحد حل ہے۔ جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ کوٹھوں کے ناچ گانے کے کلچر کو مادر پدر آزاد میڈیا کے ذریعے ہر گھر میں پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے تو جواب ملتا ہے کہ ناچ گانا تو مغلوں، نوابوں اور ہماری ”اسلامی“ تاریخ کا حصہ ہے۔ بھئی یہ کون سا اسلام ہے؟ اس اسلام کا پیارے نبی کے اسلام سے کیا تعلق؟؟؟ بحثوں پر بحثیں کی جا رہی ہیں کہ کیا قائداعظم سیکولر تھے یا اسلام پسند؟ کوئی پوچھے فرض کریں وہ سیکولر ہی تھے اور اُن کیلئے بھی دین ذاتی حیثیت کا معاملہ تھا تو کیا اِس سے اسلام کے اصول بدل جائیں گے؟؟ کیا اس سے کسی مسلمان کیلئے اسلام کی اٹل حقیقت تبدیل ہو جائیگی؟ ہرگز نہیں!! کون کیا تھا اور کیا کرتا ہے اس سے ہمیں کیا سروکار۔ ایک مسلمان کو تو تابعداری بلکہ مکمل تابعداری کرنی ہے اللہ اور اللہ کے رسول کی۔
بحث چل نکلی کہ فحاشی و عریانیت کی تعریف کون کرے؟ کہا گیا کہ قرآن اور سنّت کی روشنی میں پارلیمنٹ اور اسلامی نظریاتی کونسل کو مل کر فحاشی کی حدود کا تعین اور تعریف کرنی چاہئے۔ مگر اعتراض کرنیوالوں کو یہ بھی قبول نہیں۔ معلوم نہیں کہ پیمرا کی اصل نیت کیا ہے اور وہ کرنا کیا چاہتی ہے مگر اپنی مرضی کے کچھ لوگوں کو ایک کمرہ میں مل بٹھا کر اِس اہم مسئلہ کی حدودو قیود کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ دستور پاکستان کے مطابق پارلیمنٹ اور اسلامی نظریاتی کونسل دو ایسے آئینی ادارے ہیں جو یہ کام بخوبی سرانجام دے سکتے ہیں ۔ ورنہ یہاں تو ایسے ایسے فلاسفر دانش ور اور پروفیشنلز موجود ہیں جنہیں فحاشی و عریانیت نام کی کوئی شے ٹی وی چینلز پر نظر ہی نہیں آتی…!! ایک صاحب کا تو فرمانا تھا کہ نیم برہنہ عورت کہاں سے فحش ہو گئی؟؟ ایک اور صاحب نے تو پاکستان کے قیام پر ہی سوال اُٹھا دیے۔ اُن کا فرمانا تھا کہ ہمارا اسلامی نہیں بلکہ پاک ہند کا کلچر ہے جس کو ہمیں پاکستان میں فروغ دینا چاہئے۔ اب ایسی باتوں کا کوئی کیا جواب دے؟؟؟
جو لوگ قرآن اور حدیث کے مطابق فحاشی و عریانیت کے مسئلہ کا حل چاہتے ہیں اُن کو پاکستان کا آئین بھی سپورٹ کرتا ہے۔ اگر کسی کو کوئی شک ہو تو ذرا آئین میں دی گئی قرارداد پاکستان کی شق31 کو پڑھ لے، تمام حقیقتیں کھل جائینگی۔ 1973ء کے آئین میں درج قرارداد پاکستان کہتی ہے :
”چونکہ اللہ تبارک تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلاشرکت غیرے حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو اختیارو اقتدار اسکی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنیکا حق ہو گا یہ ایک مقدس امانت ہے۔ چونکہ پاکستان کے جمہور کی منشاء ہے کہ ایک ایسا نظام قائم کیا جائے جس میں مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی؛ جس میں جمہوریت آزادی مساوات رواداری اور عدل عمرانی کے اصولوں پر جس طرح اسلام نے تشریح کی ہے، پوری طرح عمل کیا جائیگا؛ جس میں مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی حلقہ ہائے عمل میں اس قابل بنایا جائیگا کہ وہ اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق جس طرح قرآن پاک اور سنّت میں ان کا تعین کیا گیا ہے، ترتیب دے سکیں؛ جس میں قرار واقعی انتظام کیا جائے گا کہ اقلیتیں آزادی سے اپنے مذاہب پر عقیدہ رکھ سکیں اور ان پر عمل کر سکیں اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دے سکیں…!!
دستور پاکستان اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دیتا ہے اور آرٹیکل31 میں حکومت عوام اور ہر ادارے کی کچھ یوں ذمہ داری لگاتا ہے:
”(۱)31پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کیلئے اور انہیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنّت کے مطاق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔ (۲) پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت مندرجہ ذیل کیلئے کوشش کریگی۔ (۳) قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینا عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کیلئے سہولت بہم پہنچانا اور قرآن پاک کی صحیح اور من و عن طباعت اور اشاعت کا اہتمام کرنا…“
اگر ہم نے آئین پر عمل کیا ہوتا تو آج پاکستان ایک بہترین اسلامی فلاحی ریاست بن چکا ہوتا جہاں اسلام پر فخر کرنے والے مسلمانوں کا راج ہوتا، جہاں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا، جہاں عورتوں کو ان کے حقوق دیے جاتے، جہاں کاروکاری، قرآن سے شادی، زندہ عورتوں کو درگور کرنے جیسی غیر اسلامی روایات کا کوئی تصور نہ ہوتا، جہاں مذہب، عقیدے، نسل، فرقہ اور علاقائیت کی بنیاد پر قتل و غارت نہ ہوتی، جہاں حکمران طبقہ ایماندار اور اسلام پسند ہوتا، جہاں ریاست اپنے شہریوں کی سہولتوں کی ضامن ہوتی اور۔۔۔۔ بہت کچھ۔ چلیں پہلے نہیں ہوا تو اب ہم سب مل کر ایک اسلامی فلاحی ریاست کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے کام کریں۔ ایک ایسی اسلامی فلاحی ریاست جو کسی ڈکٹیٹر یا کسی مخصوص سیاسی و مذہبی جماعت کے اصولوں کے مطابق نہیں بلکہ اسلامی شریعت کی مرہون منّت ہو۔
تازہ ترین