• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ نے دودھ والی ہر کمپنی سے 50ہزار روپے لیکر تمام کمپنیوں کے ڈبہ پیک دودھ کا معائنہ کروا کر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا جس کمپنی کا دودھ مضرصحت پایا گیا اس کا پورا اسٹاک بحق سرکار ضبط کر لیا جائے گا ۔ انہوں نے دودھ کے نام پر یوریا پائوڈر اور ٹی واٹنر کیمیکل ملا پانی فروخت کرنے والی کمپنیوں کو چار ہفتوں کی مہلت دی ہے کہ ٹیٹرا پیک کے ڈبوں پر واضح طور پراور مستقل بنیادوں پر لکھنا ہو گا کہ یہ ٹی واٹنر ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجاد علی شاہ پرمشتمل دو رکنی بنچ نے ڈبے کے ناقص دودھ سے متعلق کیس کی سماعت کی ۔ عدالت نے ایف آئی اے اور ڈرگ انسپکٹر کو حکم دیا کہ مارکیٹیوں میں چھاپے ماریں اور بھینسوں کو اضافی دودھ کیلئے لگائے جانیوالے ٹیکے ضبط کریں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کس طرح ملک میں غیرمعیاری اور ناقص دودھ فروخت ہو رہا ہے، پھر یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ دودھ پینے کے قابل نہیںہے اور جب دودھ پینے کے قابل نہیں تو حکومت کے متعلقہ محکمے اس کی مارکیٹنگ کرنے کی اجازت کیسے دے رہے ہیں ،ٹی واٹنر تیار کرنے والی کمپنیوں نے دودھ کے نام پر کروڑوں روپے ماہانہ کمائے۔مگر حکومت کے محکمے خاموش رہے ۔ آج بھی پاکستانی شہریوں کی اکثریت کو یہ علم نہیں کہ دودھ اور ٹی وائٹنرمیں فرق کیا ہے۔ٹی وائٹنر دودھ میں ڈلیاں بن جاتی ہیں اور لوگ ان کو استعمال کرتے ہیں پاکستانی عوام کی کثیر تعداد غربت کا شکار ہے اور ان کیلئے دودھ ایک غذا کا درجہ رکھتا ہےلیکن بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ دودھ میں وہ تمام غذائیت موجود نہیں جو انسانی جسم کیلئے ضروری ہے کتنی دلچسپ اور تلخ حقیقت ہے کہ آج سے کئی برس پہلے یہ کہا گیا کہ گوالوں کو شہر سے دور لے جائیں کیونکہ بھینسوں کی وجہ سے شہر میں بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں بھینسیں شہر سے باہر چلی گئیں۔یہ علیحدہ بات ہے کہ اب ہر شہر بھینسوں کے پاس پہنچ گیاہے اور بیماریاں کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گئیں اب تو کئی پیچیدہ اور خطرناک امراض نے جنم لیا ہے،دودھ فروخت کرنے والے دکاندار وں نے دودھ میں سنگھاڑے کا آٹا ڈال دیا۔کیمیکل ڈال دیتے ہیں تاکہ دودھ گاڑھا ہو جائے۔ذرا سوچیں کہ ڈبوں کا دودھ کیسا ہے جو کئی کئی ماہ دکانوں پر دھوپ میں پڑا رہتا ہے اور خراب نہیں ہوتا ہے۔ ڈبے کا دودھ فروخت کرنیوالی کمپنیوں نے بڑے دعوے کئے ہیں۔ کسی کمپنی نے کہا اس میں وٹامنزہیں کسی کمپنی نے کہا یہ مکمل خوراک ہےمگر حکومت کے کسی ادارے نے ان کو چیک نہیں کروایا اور دوسری طرف آئے دن فوڈ اتھارٹی والے ہر روز ناقص ہزاروں ٹن دودھ ضائع کر ر ہےہیں ۔ پھر یہ بھی کتنی عجیب بات ہے کہ بھینسوں سے زیادہ دودھ حاصل کرنے کیلئے مضر صحت ہارمونز کے انجکشن لگائے جا رہے ہیں یہ انجکشن کیسے دوسرے ملکوں سے درآمد کئے جا رہے ہیں یہاں پر وہ ڈرگ انسپکٹرز اور متعلقہ محکمے کہاں ہیں جن کو خوش کرکے یہ ٹیکے درآمد کئے جا رہے ہیں۔ ان میں سے ایک کمپنی کا ایک انجکشن ایسا ہے جس پر پوری دنیا میں پابندی لگ چکی ہے مگر پاکستان میں استعمال ہورہا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مضرصحت دودھ کیا حکومت اور عدالت اس کی فروخت پر پابندی لگا سکے گی یا پھر لوگ اسی طرح یہ دودھ پی کر بیمار ہوتے رہیں گے حکومت کا فرض ہے کہ وہ پورے ملک سے فوری طور پر ٹیکوں کا اسٹاک اٹھائے اور کسی سے رعایت نہ برتی جائے۔
لاہور میں سوائن فلو بڑھتا جا رہا ہے مختلف رپورٹوں کے مطابق اس وقت شہر میں 60کے قریب افراد کو سوائن فلو ہوچکا ہے اور تقریباً 25افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو اسپتالوں میں آئے اور جو نہ آسکے اور مرگئے،وہ علیحدہ ہیں۔ ہمارے ہاں یہ بدقسمتی ہے کہ کوئی بھی بیماری جب پنجے گاڑھ دیتی ہے تو شور مچایا جاتا ہے حالانکہ پچھلے سال بھی سوائن فلو پر شور مچا تھا لیکن کسی نے بھی ٹھوس اقدامات نہیں کئے اس سال پھر سوائن فلو آگیا ہے اور اخبارات میں اشتہارات بھی کچھ ایسے عجیب و غریب آرہے ہیں کہ موسمی زکام کو سوائن فلو نہ سمجھا جائے جبکہ دوسری طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ انفلوئنزا کو معمولی نہ لیا جائے۔پھر فلو کی کئی اقسام ہوتی ہیں اور ہر سال اس کی ویکسین تبدیل ہوتی ہے اور یہ ویکسین صرف ایک سال کے لئے ہوتی ہے۔
اب باہر کے ممالک سے سوائن فلوکے لئے ویکسین منگوائی جا رہی ہے کسی ٹیچنگ اسپتال میں سوائن فلوکی مناسب ویکسین نہیں۔ حکومت اخبارات میں سوائن فلو کے لئے متعدد بار اشتہارات دے کر سمجھ رہی ہوتی ہے کہ لوگ سوائن فلو سے محفوظ ہوگئے ہیں ارے اللہ کے بندو سوائن فلو کے بارے میں لوگوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے اس کے لئے اسکولوں کالجوں میں اس مقصد کے لئے خصوصی پیریڈ ہونے چاہئیں یہ موسمی بیماری ہے یا خطرناک بیماری ہے اس بارے میں لوگوں کو شعور اور آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔ سوائن فلو لاہور کے علاوہ ملتان میں بھی پھیل رہا ہے۔ پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن نے 18جنوری تک 112سرکاری اور نجی ہسپتالوں کے آپریشن تھیٹر چیک کئے جن میں سے 26اسپتالوں کے 109 آپریشن تھیٹرز ناقص صفائی کی بنا پر بند کردیئے ہیںاور 94کو نوٹس جاری کردیئے گئے۔ ۔سرکاری اور نجی اسپتالوں کے آپریشن تھیٹرز اس قابل نہیں کہ یہاں پر آپریشن ہو سکیں۔ سب سے زیادہ آپریشن تھیٹرز سرکاری اسپتال میو کے بند کئے گئے ہیں۔ شالیمار کے 11اور اتفاق کے 10آپریشن تھیٹرز بند کئے گئے ہیں ابھی چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے یہ دنیا کا واحد ملک ہے۔جہاں پر مریض علاج کرانے / سرجری کرانے سرکاری اور نجی اسپتالوں میں جاتے ہیں اور وہاں سے مزید بیمار ہو کر یا مر کر باہر آتے ہیں۔ ہمارے مشاہدے میں کئی ایسے کیسز ہیں کہ لوگ معمولی آپریشن کرانے گئے اور انفیکشن کے ہاتھوں موت کے منہ میں چلے گئے۔
پنجاب ہیلتھ کیئرکمیشن پنجاب فوڈ اتھارٹی اور کئی دیگر محکمے مریضوں کو صحت اور صفائی کی سہولتیں دینے میں مصروف ہیں لیکن دوسری طرف انفیکشن کی وجہ سے لوگ مر رہے ہیں۔ ایک پنجاب ہیلتھ کیئرکمیشن آخر کیا کیا کام کرے، ایک طرف عطائیت کے خلاف جہادکر رہا ہے، دوسری طرف منشیات کی بھی علاج گاہوں کے خلاف کام کر رہا ہے پھر اسپتالوں کے آپریشن تھیٹرز چیک کر رہا ہے۔ اگر لاہور جیسے بڑے شہر کے اسپتالوں کا یہ حال ہے تو سوچیں کہ چھوٹے شہروں میں سرکاری اور نجی اسپتالوں کے آپریشن تھیٹرز میں صفائی کا کیاعالم ہو گا۔ وہاں پر انفیکشن کس قدر زیادہ ہوگا ، لوگ سرجری کرانے سے نہیں بلکہ کامیاب سرجری کے بعد انفیکشن سے مر رہے ہیں۔ بات پھر وہی آتی ہے کہ حکومت اگر محکمہ پر محکمہ اور پرائیویٹ کمپنی پر پرائیویٹ کمپنی بنانے کی بجائے صحت کے مسائل پر ٹھوس بنیادوں پر کام کرے تو اس کے نتائج مثبت آئیں گے۔
سوائن فلو، انفیکشن، برڈ فلو، ڈینگی، ہیپاٹائٹس، گردوں، جگر، دل اور شوگر کے امراض بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں اب تک ٹھوس بنیادوں پر کام نہیں ہوا۔پنجاب ہیلتھ کیئرکمیشن کے سی او ڈاکٹر محمد اجمل خان اور ان کی ٹیم نے جس طرح سرکاری اور نجی اسپتالوں کے آپریشن تھیٹرز چیک کئے ہیں ان کا یہ اقدام لائق تحسین ہے۔ یاد رہے کہ دنیامیں پورے سو برس قبل فلو آیا تھا جس سے لاکھوں انسانوں کی اموات واقع ہوئی تھیں اور سب سے زیادہ اموات اسپین میں ہوئی تھیں اور اسے Spanish فلو بھی کہا جاتاہے۔

تازہ ترین