• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک مذہبی اسکالر اور نیم سیاستداں کی رہائش گاہ اور ملحقہ تنظیمی ہیڈ کوارٹر کے سامنے حفاظتی رکاوٹیں(جن کی اجازت لی گئی تھی یا نہیں) ہٹانے کے لئے بے رحمانہ پولیس فائرنگ سے 14معصوم شہریوں کی شہادت اور 100 افراد کا زخمی ہونا، اپنے شہریوں کے خلاف آئین بنیادی انسانی حقوق کے کچلنے کی سب سے سفاکانہ حکومتی کارروائی تھی۔ یہ’’سانحہ ماڈل ٹائون‘‘ کے نام سے اب ن لیگ کے پنجاب میں مجموعی 35سالہ راج کی تاریخ کا سب سے سیاہ باب بن گیا ہے ، جو کرپشن، کنبہ پروری اور تھانہ کچہری کلچر کے سیاہ ابواب کے علاوہ ہے۔ اس نے شہباز حکومت کے تین ادوار میں بلاشبہ دوسری حکومتوں کی نسبتاً گڈ گورننس کی نفی کرکے اسے زمین سے لگادیا ہے۔ حکومتی جانب سے اس کا فالو اپ بھی تو ایسا ہے جو موجود پنجاب حکومت کے آمرانہ طرز حکومت جیسے مخصوص روایتی ہتھکنڈوں کی عکاسی کرتا ہے، جو برسوں سے متروک ہوچکے یوں کہ پولیس آپریشن کی انتہائی پرتشدد نوعیت جسے پورے پاکستان نے ٹی وی اسکرین پر گھنٹوں دیکھا، سے فعال وزیر اعلیٰ کی اگلی صبح تک بےخبری۔ ایف آئی آر کے اندراج میں غیر معمولی اور بلاجواز تاخیر، شدید سیاسی عوامی مطالبے پر مبینہ ذمہ دار وزیر قانون کا وقتی علامتی استعفیٰ، پھر اسی عہدے پر ان کی واپسی، ظالمانہ پولیس آپریشن کے مبینہ معاون بیوروکریٹس کو ترقیاں دے کر ان کی پرتعیش جلاوطنی۔ اتنے بڑے سانحے کا احتساب محض ایک تیار کئے گئے کارکن گلو بٹ تک محدود ہوا جسے سزا کے کچھ عرصے بعد ہی اسے رہائی بھی دے دی گئی۔سب سے بڑھ کر اپنے ہی مقرر کئے جج کی انکوائری رپورٹ کو ساڑھے تین سال دبانا جس کے بذریعہ عدلیہ پبلک ہونے پر مستعفی ہونے سے گریز جبکہ ملک گیر احتجاج کے دبائو سے وزیر اعلیٰ نے انکوائری جج مقرر کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ میں ذمہ دار ہوا تو مستعفی ہوجائوں گا۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کے ہمنوا اپوزیشن لیڈروں کے مطالبے میں جان تو ہے کہ اب جسٹس باقر نجفی رپورٹ پبلک ہونے اور اس میں سانحہ ماڈل ٹائون کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرانے پر انہیں مستعفی ہوجاناچاہئے یا پھر اگر قانون میں گنجائش موجود ہے تو رپورٹ کو عدلیہ میں چیلنج کرتے۔ اپنی ہی تشریح کرکے رپورٹ کو مکمل بےاثر تو نہیں کیا جاسکتا تھا۔
اسی پس منظر میں جناب طاہر القادری اور احتجاج میںان کے پرزور ہمنوا جناب شیخ رشید کی مسلسل تگ ودو سے بڑی اپوزیشن جماعتیں اپنے تمام تر اختلاف کے باوجود علامہ صاحب کی اعلانیہ ’’تحریک قصاص‘‘ میں ان کا ساتھ دینے پر راضی تو ہوئیں لیکن انسانی اور جمہوری جذبے کی بجائے مکمل سیاسی حساب کتاب لگا کر مخصوص روایتی سیاسی ذہینت کے ساتھ۔ لاہور میں ہونے والے 17 جنوری کے مشترکہ احتجاجی جلسے نے اس کا پول خوب کھولا،جس میں سب ہی جماعتوں کے کارکنوں اور لاہور اور گرد و نواح کے شہریوں نے کمال شعور کا مظاہرہ کیا کہ اگر اتنے بڑے انسانی سانحے پر بھی فقط سیاسی دکان ہی لگانی ہے تو لگا کر دیکھ لو یہ نہیں چلے گی۔ عمران خاں کی اپنی اپروچ یا مشورہ بھی غیر سیاسی تھا کہ وہ احتجاج میں زرداری صاحب کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے۔ برصغیر کی عملی سیاست میں حتیٰ کہ اسٹیٹس کو توڑنے کے لئے بھی ایک بڑا اور نتیجے کے اعتبار سے آزمودہ اصول ۔"Focus demands sacrifice" ہے، یعنی جس طرح مقررہ ہدف کا حصول، فوکس(انہماک) کا طلبگار ہوتا ہے اسی طرح فوکس کے لئے ایثار مطلوب ہے۔ عملی سیاست کے کھیل میں اقتدار کا حصول کوئی واحد نہیں بلکہ حتمی ہدف ہوتا ہے۔ اس کے حصول تک وقتاً فوقتاً ایسے کتنے ہی اہداف بنتے ہیں جن کے حصول مشترکہ جدوجہد حتیٰ کہ مخالف سیاسی جماعتوں سے مل کر ہی ممکن ہوتا ہے۔ ایسے میں ان جماعتوں سے’’دور رہنے‘‘ کا اصولی فیصلہ قربان کرنا ہی پڑتا ہے، جو آئین و قانون کی بالادستی اور جمہوری عمل کو آگے بڑھاتا ہے۔ اس لئے تحریک انصاف یا عمران خان کا اس انبار سے گریز ایک غیر سیاسی فیصلہ تھا جبکہ اسٹیٹس کو کے کتنے رنگ ابھی اس تازہ پارلیمانی جماعت میں موجود ہیں۔ جب سانحہ ماڈل ٹائون کے حوالے سے علامہ صاحب اور شہدا ءکے لواحقین سے یکجہتی اور ہدف کے حصول میں ان کے ساتھ دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا تو پھر پورے خلوص دل سے ساتھ دینا چاہئے تھا۔
اپنی سیاست کو اوپر رکھتے ہوئے اور علامہ صاحب کی معاونت سے زیادہ اپنے سیاسی مقصد کی نیت سے جو ساتھ دیا گیا، وہ نیم دلانہ تھا، حالانکہ جواز 100فیصد بنتا تھا اور بنیادی فیصلہ پی پی اور تحریک انصاف کا فیصلہ 100ہی فیصد درست، لیکن حاصل نکلا پارلیمان پر لعنت ملامت، گویا یہ احتجاجی تحریک کا آغاز نہیں پارلیمان پر تبرے کی محفل تھی۔ کیا خود پارلیمان پر لعنت ملامت کرنے والوں نے کوئی عوامی نمائندگی کا حق ادا کیا، پارلیمان جس میں حکومت سے زیادہ اپوزیشن کی سرگرمی مطلوب ہوتی ہے، جس طرح ن لیگی اور اتحادی اراکین اسمبلی نے پوری باری میں لاپرواہی اور اپنے اصل فریضہ قانون سازی کے حوالے سے بیزاری کا مظاہرہ کیا، تحریک انصاف جس سے پارلیمنٹ میں مثالی اپوزیشن بننے کی توقع تھی، نے ان کے پارلیمانی کردار سے آگاہ باشعور ووٹرز کو شدید مایوس کیا۔ پاکستان پارلیمان میں اختلافات دور کرنے اور اکثریت کو حکومتی موقع دینے سے انکار پر ہی دو لخت ہوا۔ باقیماندہ پاکستان میں ادھوری اسمبلی جو بعد میں اصل ایوان بن گیا، میں بھٹو حکومت کے مقابل ننھی سی اپوزیشن نے جو شاندار متحدہ کردار ادا کیا، وہ ایک مثال ہے تحریک انصاف ایک بڑی اپوزیشن تھی اس نے پارلیمان میں ن لیگ اور پی پی کی غیر اعلانیہ گٹھ جوڑ کا وہ فائدہ نہیں اٹھایا جس پر آج وہ عوام کی نظر میں اقتدار کی واحد حق دار قرار پاتی۔ ایسے کہ پارلیمان عوام دوست بل پر بل لاتی رہتی اور دلائل و سوالات کے دبائو سے ان کے مسترد ہونے پر حکومت اور اکثریت کو عوام دشمن ثابت کرتی رہتی ۔ پارلیمان صرف عمارت نہیں ایک موقع ہے، جو عوام کی تائید سے ملتا ہے۔ حق و سچ کو آگے بڑھانے کا، یہ وہی ذہنیت ہے کہ اکثریت ملے گی تو پارلیمان میں جائیں گے وگرنہ نہیں، جس پر پاکستان ٹوٹا، بھٹو صاحب کی سول آمریت ننھی لیکن متضاد الخیال جماعتوں کے اتفاق و اتحاد پر سول آمریت کی موت بن گئی جس میں انتخابی دھاندلیوں کا حربہ اسلئے ناکام ہوگیا کہ ولی خان اور مولانا مودودی ایک بڑی کاز کے لئے ایک پلیٹ فارم پر آگئے۔ پارلیمان ریاستی ڈھانچے کا جزو ترکیبی ہے۔ اکثریتی جماعت خلاف جمہوریت و آئین چلے تو اپوزیشن نے ہی پارلیمان کے کردار کو جمہوری بنانا ہوتا ہے۔ یہ کیا بات ہے کہ اس میں اکثریت غیر جمہوری مزاج کی ہے تو ہم بھی اس کا بائیکاٹ کرتے ہیں اس سے استعفیٰ دیتے ہیں۔ یہ جیسے بھی ہوں پارلیمان پارلیمان ہی ہے۔

تازہ ترین