• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج سیاست نہیں بلکہ چند اعلیٰ کتب، نوادرات پر تبصرہ کرونگا۔ اس گندی سیاست نے ملک کی فضا مکدّر کردی ہے سوائے بد کلامی کے اور کچھ نہیں سنائی دیتا ہے۔ آیئے چند نوادرات پر تبصرہ کرتے ہیں۔
(1) سب سے پہلے ہمارے بھوپالی دوست و اعلیٰ شاعر جناب مرحوم محسن بھوپالی کی ضغیم کلیات ہےجو 1359 صفحات پر مشتمل ہے۔ میں محسن بھائی کو بھوپال سے جانتا ہوں۔ بچپن میں ہی اپنی شاعری کا لوہا منوا لیا تھا۔ بھوپال میں ویسے بھی شعر و شاعری کا بہت ذوق تھا اور باقاعدگی سے مشاعرے ہوا کرتے تھے جن میں ہندوستان کے تمام جیّد شعرا شرکت کرتے تھے۔ خود علامہ اقبال ؒ کافی عرصہ تک بھوپال میں نواب صاحب کے مہمان رہے تھے۔ بھوپال کے شاعروں میں معین احسن جذبی، اصغر شعری بھوپالی، منظر بھوپالی اور مُحسن بھوپالی بہت مشہور ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد محسن بھائی کراچی آگئے، انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی اور سرکاری ملازمت سے ہی ریٹائر ہوئے۔ آپ ہردلعزیز شاعر تھے اور اپنے اعلیٰ کلام کی وجہ سے بہت مشہور اور محفلوں کی جان تھے۔ آپ کی یہ اعلیٰ کلیات کراچی سے بہت خوبصورت پیرایہ میں شائع کی گئی ہے اور ملک کے اچھے کتب خانوں میں دستیاب ہے۔ آپ کی لاتعداد غزلیں بہت ہردلعزیز ہیں مگر دو قطعات نے محفل لوٹ لی ہے۔
تلقین اعتماد وہ فرما رہے ہیں آج
راہ طلب میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
نیرنگی سیاست دوران تو دیکھئے
منزل اُنھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
یہ ہمارے سیاست دانوں پر کتنا صادق آتا ہے۔ کچھ کام نہیں کیا، کچھ جدوجہد نہیں کی اور ارب پتی بن کر بیٹھ گئے اور جن لوگوں نے قربانیاں دیں وہ بے چارے فاقہ کشی و مفلسی کا شکار ہیں۔
دوسرا قطعہ تو جواب نہیں رکھتا اس نے تو ہمارے معاشرےپر بھرپور وار کیا ہے۔ پڑھیے اور سر دُھنئے۔
جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثۂ وقت کو کیا نام دیا جائے
میخانے کی توہین ہے، رندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
اور یہ غزل پڑھیے ۔ کیا پیارا کلام ہے۔
چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری
لوگوں کو کیا سمجھانے دوں ، ان کی اپنی مجبوری
مدّت گزری ایک وعدے پرآج بھی قائم ہیں محسنؔ
ہم نے ساری عمر نباہی اپنی پہلی مجبوری
ایک اور پیارا قطعہ پیش کرتا ہوں۔
تم میری راہ دیکھتے تھے کبھی
اب مجھے دیکھنے نہیں آتے
اچھے وقتوں میں اتنا یاد رکھو
دن بُرے بول کر نہیں آتے
یہ ایک نہایت ہی اعلیٰ مجموعہ کلام ہے اور یقیناً اہل زبان کی لائبریری کی زینت بننے کے قابل ہے۔
(2) دوسری اعلیٰ کتاب بلکہ آپ بیتی ہمارے مشہور ماہر امراض قلب جنرل مسعود الرحمن کیانی کی ہے کتاب کا نام ہے ’کیانی کہانی‘ اور یہ کتاب راولپنڈی سےشائع کی گئی ہے اور یہ محمد علی ہارٹس انٹرنیشنل اسپتال راولپنڈی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
جنرل مسعود الرحمن کیانی کی سوانح حیات ایک قابل مطالعہ جرأت مندانہ کہانی ہے۔ بچپن، تعلیم، پھر فوج میں شمولیت اور جنرل کے عہدہ تک ترقی اور فوج اور ملک کے اعلیٰ امراض قلب (AFC) کی سربراہی اور اس دوران سینکڑوں لوگوں کی جان بچانا وغیرہ۔ یہ ایک جرات مند، ماہر ڈاکٹر اور محب وطن کی کہانی ہے جو ہر شخص کے لئے قابل مطالعہ ہے۔ میرا جنرل صاحب سے پرانا رابطہ ہے اور ہمارے مشترکہ دوست ڈاکٹر عبدالقیوم اعوان کی وجہ سے ان کے مشغلوں سے آگاہی ہوتی رہتی ہے۔ جنرل کیانی اب بھی بے حد مصروف زندگی گزارتے ہیں اور خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ہو کر دل کے مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔ اللہ پاک ان کو اور اہل و عیال کو تندرست و خوش و خرم رکھے، عمر دراز کرے اور ہر ذہنی، قلبی پریشانیوں سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
(3) تیسری دلچسپ اور روح کو گرمانے والی کتاب ’’پرچم تلے ۔ شہید کی داستان حیات‘‘ ہے۔ اس کو ثمینہ تبسّم نے تحریر کیا ہے۔ یہ دراصل ایک بہن کا اپنے شہید بھائی کو خراج تحسین ہے۔ تبسّم ایک استاد ہیں، شاعرہ ہیں، محقق اور موّرخ ہیں۔ وہ کافی عرصہ اسلام آباد کے ماڈل کالجوں میں پڑھاتی رہی ہیں۔ آجکل کینیڈا کے شہر برامٹن میں رہائش پزیر ہیں اور پڑھاتی ہیں۔ اسلام آباد میں اسلامیات پڑھائی، PMO واہ میں اردو اور اب کینیڈا والوں کو انگریزی پڑھا رہی ہیں۔ پرچم تلے ان کی چوتھی کتاب ہے اس سے پہلے انکی جدید شاعری کے تین مجموعہ، مٹّی کی عورت، نیا چاند اور عینی شاہد شائع ہوچکے ہیں۔ آنے والی کتابوں میں ’’اُم المومنین اور صحابیہ خواتین‘‘ ، منظوم اور ’’تو کون ہے ثمینہ‘‘ ان کی سوانح حیات ہے۔ تبسّم نے پرچم تلے میں وطن پر قربان ہونے والے جوانوں کی شجاعت کی داستان کو روحانیت کی آمیزش سے دلچسپ تاریخ بنا دیا ہے۔ تبسّم کا تعلق جہلم سے ہے مگر یہ واہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ یہ کتاب لاہور سے شائع ہوئی ہے۔ میری نیک دعائیں ثمینہ تبسّم کے لئےہیں۔
(4) چوتھی کتاب تحریک پاکستان کا گمنام سپاہی حاجی سید سجاد حسین بخاری شاہ پوری کی ہے۔ اس کو اشرف فتح پوری نے مرتب کیا ہے اور تحقیق و تالیف ڈاکٹر سید ساجد حسین کی ہے۔ کتاب کے بارے میںچند جیّد مصنفین کے تاثرات آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔
’’حاجی سید سجاد حسین ہمیشہ سے مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور ترقی کیلئے کوشاں رہے۔ انکی سیاسی خدمات کا آغاز تحریک خلافت سے شروع ہوتا ہے۔ تحریک خلافت میں اُنہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ خطیر رقم خلافت فنڈ میں دی اور کلکتہ سے روزنامہ اخبار ’’انقلاب زمانہ‘‘ شائع کیا تاکہ مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ اور اُن سے بے انصافی کو اجاگر کیا جاسکے۔ یوں وہ دامے، درمے، قدمے، سخنے تحریک خلافت میں شامل رہے۔ وہ صحیح معنوں میں ’’محسنِ قوم‘‘ تھے۔ مولانا محمد علی جوہر‘‘ ’’حاجی سید سجاد حسین کے دل میں ہندوستان کے مسلمانوں کا بے حد درد تھا اور وہ اُن کے مسائل کے حل کیلئے ہر وقت کوشاں رہتے تھے۔ اُن کو مولانا محمد علی جوہر نے ’’محسن قوم‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ ہندو لیڈروں کی اسلام بیخ کُنی اور کانگریس کی ہندو قومیت اور مذہبیت کو پروان چڑھانے کی سازش کو حتیٰ المقدور بے نقاب کیا، مہاتما گاندھی کی تحریک کھدر پوشی اور گائو کشی کے مسئلہ پر انہوں نے کھل کر گاندھی کی مخالفت کی۔ مولانا عبدالحامد بدایونی نے ’’فخر قوم‘‘ اور مولانا حسن الدین خاموش نے انہیں ’’فیاض العصر‘‘ اور ’’دریا دل‘‘ کے قومی خطابات عطا کئے۔ مولانا سید ابولحسن علی ندوی‘‘ ’’حاجی سجاد حسین کا شمارفتح پور کی نامور شخصیات میں ہوتا تھا۔ اُردو، فارسی کے ساتھ انگریزی میں مہارت تھی۔ لکھنے، پڑھنے اور بولنے میں رواں تھے۔ نہایت وجیہ و شکیل اور بلند قامت و باریش بزرگ تھے۔ عزیزوں اور دوستوں میں یکساں مقبول تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو دولت دی تھی اور اس دولت کا بہت سا حصّہ وہ خوشدلی کے ساتھ رفاہی کاموں میں خرچ کرتے تھے۔ تحریکِ پاکستان میں وہ فتح پور کی دوسری نامور شخصیات کی طر ح مسلم لیگ ہی سے وابستہ رہے اور لیگ کے جلسوں کے اہتمام پر بے دریغ پیسہ صرف کیا۔
افسوس یہ ہوتا ہے کہ حاجی سجاد حسین صاحب کو قوم نے ان کی خدمات کا وہ صلہ نہ دیا جس کے وہ مستحق تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان آگئے اور بڑی ہمت سے زندگی بسر کی غربت میں بھی کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ بلکہ جو بھی اثاثہ تھا اسے بھی فروخت کرکے عزیزوں اور دوستوں کی مدد کرتے رہے۔ ڈاکٹر فرمان فتحپوری، ستارۂ امتیاز‘‘ ’’حاجی سید سجاد حسین نے ذاتی محنت سے بہت اُونچا مقام حاصل کر لیا تھا۔ یہاں تک کہ ان کے نجی مراسم مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسے اعاظمِ رجال سے تھے۔ پاکستان آکر اُنہیں نہایت نامساعد حالات کا سامنا رہا۔ بہرحال کسی نہ کسی طرح عزّت و وقار کے ساتھ دن گزار لئے۔ ڈاکٹر اسرار احمد، ماہنامہ میثاق۔ لاہور، فروری 1980 ‘‘۔

تازہ ترین