• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے اپنے گزشتہ کالموں میں حکومت کو تجویز دی تھی کہ وہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے اثاثوں کو دستاویزی شکل دینے کیلئے ایک خصوصی اسکیم کا اعلان کرے۔ حال ہی میں وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل کی تقرری کے بعد میں نے اپنے خط اور اخباری بیانات میں ان کی توجہ اس اہم مسئلے پر دلائی تھی اور مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے اپنے حالیہ دورہ کراچی میں اس بات کا اعلان کیا ہے کہ وہ جلد ہی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے غیر ظاہر شدہ اثاثوں کو دستاویزی شکل دینے کیلئے خصوصی اسکیم کا اعلان کریں گے۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس نے اس سلسلے میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان، جہانگیر ترین، اسد عمر اور مسلم لیگ (ن) کے سعد رفیق کے فیڈریشن کے حالیہ دوروں میں اپنا نقطہ نظر بیان کیا تھا جس میں انہیں بتایا تھا کہ ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال، بھتہ کلچر اور اغوا برائے تاوان جیسے عوامل کے باعث پاکستانیوں نے اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرکے مختلف کاروبار میں لگایا۔ آف شور کمپنیوں کی تحقیقات اور منی لانڈرنگ کے نئے سخت قوانین کے باعث اب ان اثاثوں کو بیرون ملک رکھنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ ستمبر 2016ء میں حکومت پاکستان نے عالمی اداروں اور 104 ممالک کے ساتھ ایک معاہدہ OECD کیا تھا جس کے تحت بینکوں میں غیر ظاہر شدہ رقوم رکھنے اور ٹیکس چوری کرنے کو روکنے کیلئے OECD ممالک آپس میں بینک اکائونٹس اور بینکنگ معلومات کا تبادلہ کرنے کے پابند ہیں۔ دبئی میں اس معاہدے پر عملدرآمد شروع کردیا گیا ہے اور ستمبر 2018سے ان تمام اکائونٹس ہولڈرز جو متحدہ عرب امارات میں رہائشی نہیں ہیں، کی OECDمعاہدے کے تحت معلومات فراہم کی جائیں گی۔ لندن کے بینکوں نے پہلے ہی برطانیہ میں غیر رہائشی باشندوں کے بینک اکائونٹس بند کرنے شروع کردیئے ہیں۔ اس معاہدے کے بعد ملک سے کرپشن کے ذریعے غیر ظاہر شدہ رقم کا ممبر ممالک میں بینکوں میں رکھنا مشکل ہوجائے گا جبکہ پاکستان میں بھی اس معاہدے کے تحت ایف بی آر نے یکم جنوری 2018 سے پاکستانیوں کے بیرون ملک اکائونٹس کی معلومات حاصل کرنا شروع کردیں۔
آل پاکستان بلڈرز ایسوسی ایشن (ABAD) کے عہدیداران سے کراچی میں مفتاح اسماعیل نے حالیہ ملاقات میں بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ OECD معاہدہ جس کا پاکستان بھی دستخط کنندہ ہے، پر عملدرآمد سے پہلے حکومت غیر ملکی پاکستانیوں کے غیر ظاہر شدہ اثاثوں کو معمولی جرمانہ کے ذریعے دستاویزی شکل دے ۔ مفتاح اسماعیل میرے قریبی دوست اور ایک کامیاب بزنس مین ہیں اور بزنس مینوں کے مسائل اور مالی پیچیدگیاں اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ OECD پر عملدرآمد کے پیش نظر بھارت نے بھی گزشتہ دنوں بیرونی اثاثوں اور انکم کیلئے ایک ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا تھا جس کے تحت بھارت میں بیرون ملک رکھے گئے اثاثوں کو قانونی بنایا جاسکتا تھا۔ بھارت میں بڑے نوٹوں کی منسوخی اور غیر قانونی دولت پر کریک ڈائون کی وجہ سے بے شمار بھارتیوں نے نئی ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھایا اور اب تک تقریباً 10 ارب ڈالر ظاہر کرکے اپنی رقوم قانونی بناچکے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک بیرون ملک اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیموں سے فائدہ اٹھاچکے ہیں جس میں سرفہرست انڈونیشیا ہے جہاں اس اسکیم کے نتیجے میں حکومت کو 100 ارب ڈالر حاصل ہوئے۔ اس کے علاوہ بھارت، جنوبی افریقہ، روس اور کچھ یورپی ممالک میں بھی یہ اسکیمیں نہایت کامیاب رہیں۔ دنیا میں سخت بینکنگ قوانین اور ممالک کے درمیان معلومات کے تبادلے کے معاہدوں کے بعد پاکستانی سرمایہ کاروں کیلئے بیرون ملک اپنا سرمایہ رکھنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر حکومت بیرونی اثاثے ڈکلیئر کرنے یا وطن واپس لانے کیلئے کسی خصوصی اسکیم کا اعلان کرتی ہے تو معاشی ماہرین کے مطابق حکومت کو تقریباً 10 ارب ڈالر زرمبادلہ اور خطیر رقم ٹیکس کی صورت میں حاصل ہوسکتی ہے جس کے بعد ہمیں آئی ایم ایف سے قرضے لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ یاد رہے کہ رواں مالی سال حکومت کو تقریباً 8 سے 9 ارب ڈالر بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے جس کیلئے وہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں بانڈز کا اجرا کررہی ہے لیکن ملکی خزانے پر منافع اور سود کی ادائیگی کا ناقابل برداشت بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔ پاکستان کے انکم ٹیکس قوانین کے تحت کوئی بھی بیرون ملک مقیم غیر رہائشی (Non Residence)پاکستانی اپنے اثاثوں کو بیرون ملک ظاہر کئے بغیر رکھ سکتا ہے بشرطیکہ اس کی سرمایہ کاری اور آمدنی پاکستان سے نہ ہو۔ اسی طرح موجودہ فارن ایکسچینج قوانین کے تحت پاکستان میں قانونی طور پر حاصل کی گئی انکم کو اسٹیٹ بینک کی منظوری کے بغیر غیر ملکی کرنسی میں بیرون ملک منتقل کیا جاسکتا ہے جس سے وہ بیرون ملک اپنے قانونی اثاثے بناسکتے ہیں۔ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیکشن III(4) کے تحت بیرون ملک سے بینکنگ چینل کے ذریعے پاکستان بھیجی جانے والی رقوم بغیر ذرائع آمدنی پوچھے قانونی تسلیم کی جاتی ہیں اور اس طرح ہنڈی یا حوالے کے ذریعے دو سے تین فیصد خرچے پر بیرون ملک سے رقوم اپنے اکائونٹ میں منتقل کرکے اسے قانونی بنایا جاسکتا ہے لہٰذا بہتر ہے کہ حکومت بیرون ملک اثاثوں اور رقوم کو ظاہر کرنے یا واپس لانے کیلئے خصوصی اسکیم کا جلد از جلد اعلان کرے جس کے تحت قانونی طور پر ان اثاثوں کو دستاویزی کیا جاسکے۔ پاکستانی ٹیکس قوانین میں ٹیکس چوری قابل سزا جرم نہیں ہے۔ ملکی قوانین کے مطابق اگر کسی ٹیکس دہندہ نے اپنے ملکی یا غیر ملکی اثاثے 5 سال تک انکم ٹیکس گوشوارے میں ظاہر نہیں کئے تو ایف بی آر 6 سال پرانے ان اثاثوں جو فروخت یا گفٹ کردیئے گئے ہیں، کے بارے میں پوچھ گچھ نہیں کرسکتالیکن سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اسٹیٹ بینک میں بینکنگ پالیسی کے تحت مشکوک ٹرانزیکشنز کیلئے ایک ڈپارٹمنٹ تشکیل دیا ہے جو ملک میں بینکنگ چینل سے آنے والی ترسیلات اور بیرون ملک بھیجی جانے والی قانونی ترسیلات کی بھی انکوائری کرتا ہے۔ اسی طرح ایف بی آر نے I&I (انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن) ایک ادارہ قائم کیا ہے جو اسٹیٹ بینک کے مشکوک ٹرانزیکشنز کی فراہم کردہ انفارمیشن پر متعلقہ بینکوں سے معلومات حاصل کرتا ہے جس سے بینکوں اور اکائونٹ ہولڈرز کے اعتماد میں کمی آتی ہے اور ان کے مستقبل کے بزنس تعلقات متاثر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بزنس کمیونٹی میں نہایت بے چینی پائی جاتی ہے۔ فیڈریشن نے بزنس مینوں کی تشویش وزیراعظم کو پہنچائی ہیں اور درخواست کی ہے کہ بینکنگ چینل سے ملک میں آنے والی ترسیلات اور بینک اکائونٹس سے بیرون ملک بھیجی جانے والی قانونی ترسیلات جس کی انکم ٹیکس آرڈیننس 2001کے سیکشن III(4) اجازت دیتا ہے، کی I&I ڈپارٹمنٹ کی انکوائریوں کو فوراً روکا جائے۔ پاکستان میں مقیم افراد اور تاجروں کیلئے اب تک کئی ایمنسٹی اسکیموں کا اعلان ہوچکا ہے لیکن بیرون ملک اثاثوں کو ظاہر کرنے اور انہیں دستاویزی شکل دینے کیلئے حکومت کی یہ پہلی اسکیم ہوگی۔
ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال، بھتہ کلچر اور اغواء برائے تاوان جیسے عوامل جن کے باعث پاکستانی اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے پر مجبور ہوئے تھے، کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کا نئی اسکیم کا اعلان یقیناً خوش آئند عمل ہوگا۔ میں وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل کا مشکور ہوں کہ انہوں نے ہماری اور فیڈریشن کی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے غیر ظاہر شدہ اثاثوں کو دستاویزی شکل دینے کیلئے خصوصی اسکیم کے اعلان کا وعدہ کیا ہے جس سے حکومت کو نہ صرف زرمبادلہ بلکہ ٹیکسوں کی مد میں خطیر رقم حاصل ہوگی جو ہمارے بیرونی ذخائر کو مستحکم رکھنے میں مدد دے گی۔ مجھے خوشی ہے کہ ایف بی آر نے انڈونیشی اسکیم کے طرز پر بیرونی اثاثوں کو ظاہر کرنے کی اسکیم (FADS) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو بھجوادی ہے جس میں انہوں نے 3 سے 5 فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر ان اثاثوں کو ظاہر کرنے کی تجویز دی ہے۔میری اطلاعات کے مطابق حکومت آئی ایم ایف سے نئے قرضے کیلئے لیٹر آف سپورٹ حاصل کرنے کے بعد آرڈیننس کے ذریعے اسکیم کو نافذ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو بیرون ملک پاکستانی سرمایہ کاروں کو قومی ٹیکس نیٹ میں لانے میں ایک اہم کردار ادا کرے گی۔

تازہ ترین