• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معاشرے میں خرابی کی جڑ منشیات یا شراب نہیں ۔ اگر ہم تمام خرابیوں سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں تو لوگوں کے منہ سونگھنے کے بجائے ان میں پائی جا رہی حماقت ،جہالت ،لالچ اور ہوس اقتدار کا ٹیسٹ لینا چاہئے ۔ امریکی مزاح نگار پی جے او رورک ۔نئے پاکستان کی لغت میں ایک نئے لفظ کا اضافہ کیا ہوا ،لفافہ صحافیوں اور پٹواریوں نے آسمان ہی سر پر اٹھا لیا ۔میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر ’’لعنت‘‘ جیسا نرم لفظ استعمال کرنے کے بجائے کپتان نے وہی کچھ کہہ دیا ہوتا جو ان کے دماغ پر سوار تھا ،مثلاً جوش خطابت میں ان کے منہ سے سادہ لعنت کے بجائے ’’لخ دی لعنت‘‘ نکل جاتا تو کیا ہوتا ؟شکر کریں ابھی تک علامہ خادم رضوی والی ثقیل اور گاڑھی لغت کپتان نے متعارف نہیں کروائی ۔ ویسے ہم پاکستانی بھی بہت چھوٹے دل کے اور انتہائی تنگ نظر واقع ہوئے ہیں ،اب دیکھیں ناں پھٹیچر ،ریلو کٹے اور لعنت جیسی باتوں پر بُرا منا نے لگتے ہیں وگرنہ امریکیوں کا حوصلہ دیکھیں ڈونلڈ ٹرمپ جیسے واہیات شخص کی بد زبانیوں کوایک عرصہ سے برداشت کئے ہوئے ہیں۔تبدیلی لانے کے لئے اس طرح کی چھوٹی موٹی ذلتیں اور اہانتیں تو برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ویسے اس نئی نویلی لعنت پر کپتان کو مطعون کرنے والوں کا بھی جواب نہیں۔سچ تو یہ ہے کہ کپتان نیزبانی کلامی نے اب پارلیمنٹ پر زبانی لعنت بھیجی ہے وگرنہ عملاً تو وہ بہت پہلے سے اس پارلیمنٹ پرزجر و توبیخ کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں کیا انہوں نے قومی اسمبلی کی کارروائی سے خود کو غیرحاضر رکھ کر پارلیمنٹ پر پھٹکار نہیں بھیجی ؟کیا انہوں نے لائولشکر کے ساتھ پارلیمنٹ پر باقاعدہ چڑھائی اور حملہ کرکے اپنے عزائم آشکار نہیں کئے ؟ اور صدق دل سے جواب دیجئے جب وزیر اعظم کے انتخاب کےلئے انہوں نے شیخ رشید کو اپنا امیدوار نامزد کیا تو کیا تب انہوں نے پارلیمنٹ پر لعنت نہیں بھیجی ؟
میسر نہ آنے والی ہر شے پر لعنت بھیجنا کپتان کی پُرانی روش ہے ۔یوں تو انہوں نے ذاتی زندگی میں بیشمار افراد پر لعنت بھیجی مگر بات سیاسی زندگی تک ہی محدود رہے تو اچھا ہے ۔جاوید ہاشمی ان کی دسترس میں نہ رہے تو ’’باغی‘‘ سے ’’داغی ‘‘ ہو گئے ۔پی ٹی آئی کی مرکزی نائب صدر ناز بلوچ جو تحریک انصاف کا ڈٹ کر دفاع کیا کرتی تھیں جب وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئیں تو فواد چوہدری نے اسے پہچاننے سے انکار کر دیا ،سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ وہ پارٹی کی عام سی ورکر تھیں مگر کپتان کا ردعمل سب سے الگ اور سب سے جدا تھا۔ابرار الحق نے جب کپتان کے کان میں سرگوشی کی کہ ناز بلوچ نے پارٹی چھوڑ دی تو انہوں نے حسب روایت لعنت بھیجتے ہوئے کہا ’’اچھا ہوا وہ چھوڑ کر چلی گئی ،وہ کسی کام کی نہیں ‘‘یادش بخیر ، جب وہ لاہور کا قلعہ فتح نہ کر پائے اور یکے بعد دیگرے ہونے والے انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تو انہوںنے لاہوریوں کو ’’رنگ باز‘‘ اور ’’گدھے کھانے والے‘‘ جیسے القابات سے نواز کر لعنت بھیج دی۔وہ اپنے دوستوں ،رشتہ داروں اور یہاں تک کہ محسنوں پر بھی لعنت بھیجنے میں تامل نہیں کرتے۔اس ضمن میں بیشمار مثالیں دی جا سکتی ہیں۔کپتان کے پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے سے یاد آیا تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری کی بیٹی ایمان مزاری نے بھی سوشل میڈیا کے ذریعے ایک ادارے پر لعنت بھیجنے کی غلطی کی تھی اگرچہ وہ فیض آباد دھرنے کے تناظر میں ایک اضطراری ردعمل تھا لیکن شیریں مزاری نے نہ صرف ان خیالات سے لاتعلقی کا اظہار کیا بلکہ لعنت جیسے الفاظ استعمال کرنے کی مذمت بھی کی اور بعد ازاں ایمان مزاری نے اپنے الفاظ پر معذرت کرلی ۔مجھے توقع تھی کہ شاید تحریک انصاف کے بعض ارکان پارلیمنٹ اپنی پارٹی چیئر مین کے تضحیک آمیز الفاظ کو ان کی ذاتی رائے قرار دیتے ہوئے یہ سوچ کر لاتعلقی کا اظہار کریں کہ جس پارلیمنٹ پر لعنت بھیجی جا رہی ہے وہ خود بھی اس کا حصہ ہیں اور اسی پارلیمان کو مقدس مقام سمجھا جاتا ہے۔لیکن پی ٹی آئی کے ایم این اے مُراد سعید نے تو ایک قدم آگے بڑھ کرپارلیمنٹ پر ایک نہیں 100مرتبہ لعنت بھیج دی۔تکلف برطرف، پارلیمنٹ پر لعنت بھیجے جانے کے وقت تحریک انصاف تو کیا اسٹیج پر براجمان اعتزاز احسن اور قمر زمان کائرہ جیسے پارلیمنٹیرینز نے بھی صدائے احتجاج بلند نہیں کی۔ طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ کسی بھی ادارے پر حرف ِملامت بھیجنے کی صورت میں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے کی کوئی سزا مقرر نہیں۔ہمارے معاشرے میں لعن طعن کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔بچوں کو باالعموم ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔قرآن پڑھنا شروع کیا تو قاری صاحب نے بتایا اللہ نے جھوٹوں ،کافروں ،منافقوں اور بنی اسرائیل پر لعنت بھیجی ہے ،احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے مصنوعی بال لگوانے والوں ،شرابیوں اور چوروں پر لعنت بھیجی ہے۔ میں بھی نماز قضا ہونے کی صورت میں خود کو مطعون کرنے کے بجائے شیطان مردود پر بیشمارلعنتیں بھیجا کرتا تھا اردو کے قادرالاکلام شعرا کے ہاں تغافل اور تجاہل کی صورت میں محبوب پرلعنت بھیجنے کی کئی مثالیں موجود ہیں ۔علامہ اقبال نے یہ کہہ کر آب ودانہ پر لعنت بھیج دی :
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
اسی طرح محسن نقوی کی یہ غزل تو سراپا لعنت ہے اور کبھی یوں لگتا ہے جیسے لکھی ہی کپتان کے لئےگئی ہے :
میں دل پہ جبر کروں گا ،تجھے بھلا دوں گا
مروں گا خود بھی تجھے کڑی سزا دونگا
یہ تیرگی مرے گھر کا ہی کیوں مقدر ہو
میں تیرے شہر کے سارے دیئے بجھا دوں گا
ہوا کا ہاتھ بٹائوں گا ہر تباہی میں
ہرے شجر سے پرندے میں خود اڑا دوں گا
وفا کروں گا کسی سوگوار چہرے سے
پرانی قبر پہ کتبہ نیا سجا دوں گا
بہت دنوں سے مرا دل اداس ہے محسن
اس آئینے کو کوئی عکس اب نیا دوں گا
اخلاقیات کا درس دینے والے بھی گاہے گاہے بیشمار اقسام کی لعنتوں کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں، بتایا جاتا ہے کہ لاتعداد معاشرتی برائیاں لعنت کی شکل اختیار کر چکی ہیں مثال کے طور پرعدم برداشت اور انتہا پسندی بہت بڑی لعنت ہے، جہیز ایک لعنت ہے ،سود ایک اور لعنت ہے ،جہالت اور لاعلمی بھی لعنت ہے،غلامی لعنت ہے ،گداگری لعنت ہے ،رشوت ستانی لعنت ہے اوران سب سے بڑھ کر نشہ لعنت ہے خواہ وہ چرس کا ہو ،ہیروئن کا ،شراب کا ،افیم کا یا پھر کوکین کا ۔انسان نشے کی حالت میں کچھ بھی کہہ جاتا ہے لیکن میرے خیال میں اقتدار کا نشہ کوکین سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہے اور ان تمام سماجی برائیوں کے مقابلے میں ہوسِ اقتدار سب سے بڑی لعنت ہے جو انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی،ضعیف الاعتقادی کی طرف مائل کرتی ہے ،ہر حد سے گزر جانے پر قائل کرتی ہے اور ذلت و رسوائی کے پاتال تک پہنچا دیتی ہے۔

تازہ ترین