• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منو بھائی، صحیح معنوں میں سب کے بھائی، اللہ کو پیارے ہوگئے۔ سب اچھے انسان باری باری اللہ کو پیارے ہورہے ہیں، چند روز قبل میرے سگے بھائی آزاد بھائی بھی اللہ کو پیارے ہوئے، اللہ سب کی مغفرت کرے، منوبھائی اگر صحافت ، ادب اور سماجی شعبوں میں سب کے بھائی تھے اور ہمارے آزاد بھائی بھی خاندان میں سب کے بھائی، بھائی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں چند سیکنڈ کی تکلیف کے بغیر ایسی موت دی کہ جس پر رشک آتا ہے صحیح معنوں میں ان کی وفاتPeace full death تھی۔ جہاں تک منوبھائی (جو اصل میں منیر احمد تھے) ان سے میری یاد اللہ 1977کے دنوں کی تھی۔ ہمارے اردو کے استاد گرامی پروفیسر بی اے فخری کے ساتھ پہلی بار ان سے امروز کے دفتر میں ملا اور پھر تاحیات ملتا ہی رہا۔ اتنے سالوں میں منوبھائی، منوبھائی ہی رہے اور ہر بار پنجابی میں پوچھتے کہ تم ٹھیک ہونا، بس یہی سادگی اور محبت سے بھرا دوستوں کا حلقہ وہ چھوڑ کے چلے گئے۔ مجھے یاد ہے کہ پاکستان ٹائمز کے دنوں میں محمد ادریس اور ایڈیٹر امروز ظہیر بابر صاحب کے دور میں مجھے کس کس طرح لکھنے اور مستقل مزاجی کا درس دیا کرتے تھے، اگر کبھی امروز میں مضامین لکھنے کے عوض معاوضہ ملنے میں تاخیر ہوجاتی تو وہ خود چل کر یہ مسئلہ حل کراتے۔ اسی طرح ہمارے نوائے وقت کے دنوں کے ساتھی علی سلمان جعفری کے والد محترم جعفری صاحب بھی مہربانی فرمایا کرتے تھے اور واپڈا والے سید ناصر رضوی طلباء ایڈیشن میں مضامین چھپنے کے حوالے سے بڑی مدد کیا کرتے تھے۔ منوبھائی ہر لحاظ سے اچھے انسان اور بندہ شناس تھے۔ انہوں نے معاشرے میں سماجی ایشوز پر لکھنے کا نیا انداز اپنایا ، جیسے ہمارے ریاض بٹالوی صاحب نے سنڈے ایڈیشن شوق کے حوالے سے اپنایا تھا۔ کیا بڑے لوگ تھے، جس گھر میں رہنے کیلئے آئے وہیں کے ہورہے۔ اسی جگہ سے وہ اللہ کو پیارے ہوئے اور جنازہ بھی وہیں سے اٹھا۔ منو بھائی کے حوالے سے ایک حیران کن بات یہ ہے کہ وہ نظریاتی طور پر بائیں بازو کے حامی سمجھے جاتے تھے، حالانکہ وہ دائیں اور بائیں بازو کی تفریق کئے بغیر سب کیلئے یکساں سوچتے تھے اور سب کی اخلاقی اور سماجی مدد کیا کرتے تھے۔ سندس فائونڈیشن اس کی ایک مثال ہے۔ اسی طرح کم لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ منوبھائی اور میاں شہباز شریف دونوں میں ایک مماثلت بھی تھی ۔ وہ یہ کہ دونوں کی زبان میں لکنت تھی، میاں شہباز شریف جب 1980ءکے ابتدائی سالوں میں بات کرتے تھے تو ان کی زبان میں لکنت واضح محسوس ہوتی تھی، خاص کر لاہور چیمبر آف کامرس کی صدارت سے بھی پہلے وقت کے ساتھ اور اقتدار کی طاقت ملتے ملتے میاں شہباز شریف کی زبان کی لکنت تو ٹھیک ہوگئی، بلکہ غائب بھی ہوگئی۔ اس حوالے سے چند ماہ قبل منوبھائی سے وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب نے لاہور میں ایک عشائیہ میں پوچھا کہ کیا بات ہے منوبھائی، آپ کی زبان کی لکنت کم تو ہوگئی ہے مگر ختم نہیں ہوئی، مگر میاں شہباز شریف کی لکنت تو غائب ہی ہوگئی ۔ کہنے لگے یار اقتدار کے نشے میں جوانی اور طاقت آہی جاتی ہے۔ باقی کافی چیزیں غائب ہوجاتی ہیں جس میں انسانیت اور پتہ نہیں کیا کچھ آتا ہے۔ مجھ میں تو ایسی کوئی تبدیلی نہیں آئی، اس لئے میرے معاملات ایسے ہی چل رہے ہیں۔اس طرح منو بھائی اکثر کہا کرتے تھے کہ تم بائیں ہاتھ سے لکھنےو الے دائیں بازو کے صحافی ہو، بس کام بڑی محنت سے کرتے رہنا۔ اب منوبھائی ہم میں نہیں رہے بس ان کی باتیں یاد رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ انکی مغفرت فرمائے، ہم آہستہ آہستہ اپنے بڑوں سے محروم ہوتے جارہے ہیں جس کے بعد صحافت اور ادب میں اچھا لکھنے، اچھا سوچنے اور معاشرے کی بھلائی کیلئے کام کرنے کا جذبہ بھی سیاسی اور ذاتی مقاصد کی بھینٹ چڑھتا جارہا ہے۔

تازہ ترین