• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذرا سا شعور سنبھالا تو آمریت اور جمہوریت کے درمیان بلی چوہے کے کھیل میں بلی بلکہ بلے کے اکثرجیت جانے کے نظارے کے باوجود کانوں میں ایک ہی آواز سنائی دی پارلیمنٹ بالا دست ہے ، پارلیمان پاکستان کے کروڑوں عوام کا نمائندہ ادارہ ہے، یہ محض ایک عمارت نہیں بلکہ جمہوریت کی علامت ہے، یہ دستور پاکستان کے تحفظ کا ضامن ادارہ ہے،یہ عوام کو ان کی حکومت ان کے ذریعے قائم ہونے کا احساس دلانے کی عظیم نشانی ہے، پارلیمنٹ اتنی مقدس ہے کہ اسے تمام اداروں کی ماں کا رتبہ حاصل ہے۔ لیکن یہ کیا اسی پارلیمان کا رکن اس کی بالا دستی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دے، پاکستان کے بیس کروڑ عوام کی نمائندگی پر دو حرف بھیج دے ، اس پر لکھی عبارت کا بھی لحاظ نہ کرے، بلواسطہ طور پر آئین پاکستان کی نفی کر دے، کروڑوں عوام کی تذلیل کر دے، اسی ماں کا بیٹا اتنا ناخلف ہو جائے کہ اسے گالی دے کر اس کے تقدس کی دھجیاں بکھیر دے ،حد یہ کہ اس نافرمانی پر اس کے ماتھے پر ندامت کے قطرے نمودار ہونے کی بجائے مزید گستاخی کیلئے زبان شعلے اگلتی رہے۔ باب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمانا ہے کہ زبان وہ درندہ ہے جسے کھلا چھوڑ دیا جائے تو پھاڑ کھائے ،مزید کہا کہ آدمی کی قابلیت اس کی زبان کے نیچے پوشیدہ ہوتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کی زبان سے مخالفین کے توہین آمیز استعمال کرنا اب معمول بن چکا لیکن اب وہ اس پارلیمنٹ کو بھی گالیاں دینے پہ اتر آئے ہیں جس کے ایوان کا قائد بننے کی انہیں اتنی جلدی ہے کہ وہ ہر جائز اور ناجائز طریقہ اختیار کرنے کیلئے تیار ہیں۔ سیانے سچ کہتے ہیں کہ بندہ اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے اور خان صاحب گزشتہ کافی عرصے سے اس بندے کی صحبت کے زیر اثر ہیں جس کو پارلیمنٹ کی ملامت کرنی ہی ہے کیوںکہ کسی بھی جمہوری طریقے سے اب بطور رکن اس پارلیمنٹ میں اس کی واپسی تقریباً ناممکن ہے ،لیکن تحریک انصاف کے چیئرمین کو پارلیمنٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہزار بار سوچنا چاہئے تھا کیوںکہ ان کے دیرینہ خواب کی تعبیر کا راستہ صرف عوام کے نمائندہ اسی ادارے سے ہو کر گزرتا ہے۔تحریک انصاف کے ارکان ہی اپنے چیئرمین کو یاد دلا دیتے کہ آپ جس کی پیروی کرنے چل پڑے ہیں جو طویل ترین دھرنے کے دوران رات کو کنٹینر پرکھڑا ہوتا جبکہ دن کو ایوان میں جناب اسپیکر پکارتا نظرآتا تھا۔ جس نے تب آپ کے ساتھ استعفی دینے سے انکار کر دیا تھا اور یہ کہہ کر نکل گیا تھا کہ اگر میں نے استعفی دیا تو اسپیکر نے فوری قبول کرلینا ہے۔ یہی نہیں اس تاریخی احتجاج کے دوران موصوف انتخابی اصلاحات کمیٹی کی تمام نشستوں میں بھی باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے تھے۔ اس معاملے کو تو تین سال سے بھی زائد عرصہ بیت چکا اس لئے شاید تحریک انصاف کے ارکان بھی یہ سب بھول گئے ہوں لیکن مال روڈ پر قومی اسمبلی کی نشست سے استعفی دینے کا اعلان کرنے والی اس شخصیت نے استعفی نہ بھجوانے کی وجہ پہلے بیماری کو قرار دیا اور پھر دبئی روانگی کو عذر بنا لیا اور اب یکم فروری تک اگر مگر سے کام لیا جا رہا ہے تاکہ نشست خالی ہونے کی صورت میں اس پر ضمنی الیکشن نہ ہو سکے۔ اس سے ہٹ کر عمران خان نے جس کینیڈین شہری کی رہنمائی میں کھڑے ہو کر پارلیمان کو گالی دی ان کا نہ تو اس جمہوریت پر یقین ہے اور نہ وہ اس نظام کو مانتے ہیں ، انہیں تو مہمان اداکار کے طورپر بلایا جاتا ہے جو اپنے حصے کا تماشا کرنے کے بعدیہ جا وہ جا۔ رہے زرداری صاحب تو وہ احتجاجی جلسے کے دوران چیئرمین تحریک انصاف کی شکل تک دیکھنے کے روادار نہیں تھے اس لئے اسٹیج پر فاصلہ رکھنے کے ساتھ ان کی جماعت نے پارلیمنٹ کو دی گئی گالی سے بھی خود کو کوسوں دور کر لیا ہے بلکہ ان کے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے قومی اسمبلی کے فلور پر پارلیمنٹ پرلعنت بھیجنے والے کے منہ میں خاک کا بیان دے کر سب سے سخت تنقید کر ڈالی ہے۔ پارلیمنٹ کے وقار کو مجروح کرنے کی جائے وقوعہ پر موجود دیگر تانگہ پارٹیوں کی بات کی جائے تو وہ بھان متی کا کنبہ ہی ہے ،جدھر کہا جائے گا وہ ادھر چل پڑیں گی اس لئے اس توہین کا حساب صرف عمران خان کو چکانا پڑے گا۔ اپنی نمائندگی کرنے والے ادارے کے بارے میں اس بد زبانی کا بدلہ -عوام ہی لیں گے۔ 2014 کے دھرنے میں بھی وزارت عظمی کے امیدوار عمران خان نے پارلیمنٹ کو جعلی اور اس کے اندر بیٹھے عوام کے منتخب نمائندوں کو کیا کچھ نہیں کہا تھا لیکن پھر استعفی دینے والے سر جھکا کر اسی پارلیمنٹ میں داخل ہوئے تو انہیں ’کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔جیسے تاریخ کا حصہ بن جانے والے جملے اپنے کانوں میں سیسے کی طرح اتارنے پڑے تھے۔ تب بھی اسی عوام کے ٹیکسوں سے ان مہینوں کی تنخواہ بھی وصول کرنے میں ذرا تامل نہیں کیا گیا تھا جن کے نمائندہ ادارے پہ ہلہ بولا گیا تھا۔ اپنی خفت مٹانے کیلئے تب تحریک انصاف کے قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی نے پارلیمنٹ کو اپنا سیاسی قبلہ قرار دیا تھا لیکن اب وہ اس لعنت کی ملامت کیسے کریں گے جو ان کے لیڈر نے ان پربھی بھیجی ہے یا اس بار وہ اپنے کپتان کی ہاں میں ہاں ملانے سے بھی نہیں ہچکچائیں گے؟ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ جس پارلیمنٹ پر انہوں نےلعنت بھیجی اسی پارلیمنٹ سے وہ اب تک تنخواہ کی مد میں لاکھوں روپے وصول کر چکے ہیں جبکہ ٹریول واؤچرز کی مد میں جو خطیررقم وصول کی وہ اس کے علاوہ ہے۔ پارلیمنٹ کو چوروں ڈاکوؤں کی آماجگاہ کہنے والے نے خود اس سے کمائے گئے رزق کو حلال کرنا بھی گوارا نہیں کیا کیوںکہ انہوں نے قومی اسمبلی کے مجموعی طور پہ منعقدہ 443 اجلاسوں میں سے صرف 20 میں شرکت کی لیکن تنخواہ آج تک باقاعدگی بلکہ پابندی سے پوری وصول کررہے ہیں۔ پارلیمان کے بارے میں زہر افشانی کرنے والے تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی بھی اب تک مجوعی طور پہ 20 کروڑ روپے کی خطیر رقم تنخواہوں کی مد میں وصول کر چکے ہیں جبکہ فضائی سفر کیلئے ٹکٹوں اور واؤچرز کی مد میں 12 کروڑ روپے الگ ہیں۔ اس میں دھرنے اور غیر حاضریوں کی تنخواہیں اور مراعات بھی شامل ہیں۔ قومی اسمبلی نے پارلیمنٹ کی توہین کرنے پر فی الحال صرف ایک مذمتی قرارداد منظور کرنے پر اکتفا کیا ہے لیکن عوام اور جمہوریت کی توہین کے اس انتہائی اہم معاملے پہ صرف قرارداد کی منظوری کافی نہیں ہے۔ عوام کے منتخب نمائندوں کیلئے مقام فکر ہے کہ جس ادارے کی حرمت اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ اس کے کسی ایوان میں کی گئی کسی کاروائی اور کسی رکن کی طرف سے کی گئی کسی بات کو ملک کی کسی عدالت میں نہ چیلنج کیا جا سکتا ہے اور نہ اس کے خلاف کوئی کارروائی ہو سکتی ہے اس کو راہ چلتا کوئی بھی سر پھرا جب چاہے برا بھلا کہہ دے وہ سوائے تلملانے اور صبر کرنے کے کچھ نہیں کر سکتے۔ قانون سازوں کیلئے یہ بھی لمحہ فکریہ ہے کہ جس پارلیمنٹ نے دیگر ریاستی اداروں کے تقدس اور وقار کی حفاظت کیلئے آئین میں خصوصی شقیں شامل کر رکھی ہیں وہ اپنے دفاع اور حرمت کے تحفظ کو یقینی بنانے میں ناکام ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے پارلیمنٹ کو حقیقی معنوں میں بالا دست اور اسکے تقدس کو یقینی بنانے کیلئے مؤثر کردار ادا کریں۔ اس مقصد کیلئے اعلی عدلیہ اور مسلح افواج جیسے ریاستی اداروں کی طرز پر توہین پارلیمنٹ کے مرتکب فرد کو سزا دینے کیلئے قانون سازی کریں ورنہ عوام تو اس توہین کا حساب آئندہ انتخابات میں چکتا کر ہی دیں گے۔

تازہ ترین