• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جسے ہم ساٹھ ستر اسی نوے سال طویل زندگی سمجھتے اور کہتے ہیں وہ صوفیاء کی زبان میں محض اذان اور نماز کے درمیان کا وقفہ ہے۔ عام لوگوں کے استعارے اور زبان روحانی شخصیات سے بالکل مختلف ہوتی ہیں کیونکہ ہم دنیا دار ظاہر بین ہوتے ہیں، ہماری نگاہ ظاہر کی خوبصورتیوں اور دنیا کے حسن میں گم ہو کر رہ جاتی ہے جبکہ صوفی کی نگاہ ظاہر کے پردوں کو چاک کر کے اصلی حقیقت تک پہنچ جاتی ہے۔ ہم جو مادی فاصلے گھنٹوں اور دنوں میں طے کرتے ہیں، صوفیاء کی نگاہ وہ فاصلے منٹوں اور اکثر اوقات سکینڈوں میں طے کر جاتی ہے۔ اسی لئے ہم کئی دہائیوں پر پھیلی زندگی کو طویل قرار دیتے ہیں جب کہ صوفی کی نگاہ میں یہ زندگی محض اذان اور نماز کے درمیانی وقفے پر محیط ہوتی ہے۔ مسلمان پیدا ہوتا ہے تو اس کے کان میں اذان دی جاتی ہے۔ اذان دراصل نماز کی تیاری اور اللہ کے گھر کی جانب دعوت دینے کا ذریعہ ہے۔ اذان اور نماز میں وقفہ کتنا ہوتا ہے؟ یہی بس کچھ منٹوں کا۔ یہ وقفہ ختم ہو جائے تو جماعت کھڑی ہو جاتی ہے۔ اذان کے ساتھ پیدا ہونے والا شخص وفات پاتا ہے تو اس کی نماز ادا کرنے کے بعد اسے دفن کردیا جاتا ہے جہاں اسے دنیاوی زندگی کے ہر لمحے کا حساب دینا پڑتا ہے، اذان سے لے کر نماز تک کیا کمایا اس کا جواب دینا پڑتا ہے۔ یہ ساٹھ ستر اسی نوے سال صوفی کی نظر میں چند منٹوں کا سفر ہوتا ہے جسے طےاور مکمل کر کے انسان ابدی زندگی میں قدم رکھتا ہے۔ خوف خدا اور جوابدہی کا احساس رکھنے والے اس مختصر سے وقفے میں سنبھل سنبھل کر چلتے اور ہر لمحہ اپنا احتساب کرتے ہیں جب کہ ظاہر بین اور مادی زندگی گزارنے والے اس سحر اور حسن ظن میں مبتلا رہتے ہیں کہ ابھی طویل زندگی کے بہت سے سال باقی ہیں۔ شاید اسی لئے صوفیاء دنیا اور دنیا کی زندگی کو فریب نظر کہتے ہیں کہ انسان دنیا کے فریب حسن میں کھو جاتا ہے اور اس سے عیش و عشرت کشید کرنا چاہتا ہے۔ اس کے برعکس صوفی دنیا کو امتحان گاہ سمجھتا ہے۔
مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دعا اور زندگی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ دعا دستک کی مانند ہے۔ دستک دیتے رہو۔ قبولیت کی کھڑکی کبھی نہ کبھی کھل ہی جائے گی۔مطلب یہ کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر تیقن، چٹان کی مانند مضبوط ایمان اور استقامت دراصل دستک کی مانند ہوتے ہیں۔ اگر دعا میں تیقن اور استقامت نہ ہو تو دعا کی تاثیر ختم ہو جاتی ہے۔ ذرا تاخیر ہو تو ہم مایوس ہو کر دعا کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر کھڑکی کا رخ بدل جاتا ہے اور ہم محروم رہ جاتے ہیں۔ میں نے آج سے کئی دہائیاں قبل ایک ولی اللہ کو یہ کہتے سنا کہ دعا کی کھڑکی آسمان میں گھومتی رہتی ہے۔ جب اس کا رخ آپ کی طرف ہو تو آپ کی دعا تیزی سے کھڑکی کے اندر جاتی اور قبولیت کا درجہ پاتی ہے۔ اگر انسان دل شکنی کا شکار ہو کر دعا کرنا چھوڑ دے تو کھڑکی کا رخ کسی اور طرف ہو جاتا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ دعا مانگتے رہو، دعا کرتے رہو، دستک دیتے رہو، کبھی نہ کبھی کھڑکی کھل جائے گی اور دعا قبولیت سے سرفرار ہو جائے گی۔ زندگی اور دعا کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے کیونکہ دعا انسان کی زندگی پر اثرانداز ہوتی ہے، کبھی زندگی اور کبھی دعا بدل جاتی ہے، کبھی دعا زندگی کو بدل دیتی ہے اورکبھی زندگی دعا کو بدل جاتی ہے۔ میں نے ایک صوفی کو کہتے سنا کہ دعا سے انسانی مقدر بھی بدل جاتا ہے۔ مقدر کیا ہے؟ مقدر لوح تقدیر پہ لکھی ہوئی محفوظ تحریر ہے لیکن اگر دعا کرنے والا قرب الٰہی سے منور ہو تو اللہ پاک اپنے پیارے کی دعا نہیں ٹالتے اور لوح مقدر پر لکھے ہوئے فیصلے تبدیل کردیتے ہیں۔ بے شک اللہ پاک ہرشے پہ قادر ہے۔ اسی معرفت کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے کہ ولی اللہ کو قبولیت کے لمحات کا علم ہوتا ہے۔ وہ لمحات جب رحمت خداوندی جوش میں ہوتی ہے اور رحمتیں برسات کی مانند برس رہی ہوتی ہیں ان لمحات کے دوران خلوص کی فریاد اور خضوع سے مانگی گئی دعا فوراً قبولیت کی منازل طے کر لیتی ہے۔ انسان بنیادی طورپر کمزور ہے اور اپنی اس کمزوری کو قوت میں بدلنے کے لئے تجربے اور مشاہدے کا طلب گار ہوتا ہے۔ یقین کیجئے میں نے جب اپنی آنکھوں سے ولی اللہ کی دعا سے مقدر بدلنے کے چند ایک مناظر دیکھے تو مجھے اس پہ یقین آیا ورنہ میری کمزوری میرے راستے کی بڑی رکاوٹ تھی۔ پھر وہ رکاوٹ ہٹ گئی، یقین تیقن میں بدل گیا الحمدللہ۔ اور میں دعا کا قائل ہوگیا۔ اب میں دعا اور زندگی کا آپس میں قریبی تعلق پاتا ہوں۔
انسان جستجو میں رہے، خواہش حد درجہ خلوص پر مبنی ہو اور اس میں یقین کی روشنی شامل ہو تو راز کھلتے رہتے ہیں اور نگاہ سے پردے اٹھتے رہتے ہیں۔ ویسے تو نظر بیچاری ستر پردوں میں قید ہے لیکن یہ پردے ہٹتے رہتے ہیں بشرطیکہ انسان روحانی راہ کا مسافر ہو۔ ولی کامل کی نگاہ سے سارے پردے اٹھ جاتے ہیں چنانچہ وہ زمین سے آسمان تک اور آغاز سے ابد تک دیکھتا ہے جبکہ اس راہ کے مسافروں کی نگاہ سے پردے ایک ایک کر کے ہٹتے ہیں اور اکثر اوقات پورے نہیں ہٹتے اور موت گھیر لیتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ دعا سے پردے بھی سرکتے اور اٹھتے ہیں اور جب میں عرض کرتا ہوں کہ دعا کا انسانی زندگی سے گہرا تعلق ہے تو یہاں زندگی سے مراد فانی اور غیر فانی، دنیاوی اور ابدی زندگی دونوں ہیں کیونکہ زندگی کا سفر موت یا قبر کے ملاپ سے ختم نہیں ہوتا بلکہ یہ جاری رہتا ہے۔ موت فقط اس جہان سے دوسرے جہان میں داخل ہونے کا پاسپورٹ یا ذریعہ ہوتی ہے۔ یقین کیجئے مرشد کامل ہو تو وہ اگلے جہان میں بھی جا کر دنیا میں موجود محبان کی نگرانی کرتا ہے اور بعض اوقات گو شمالی بھی کرتا ہے یعنی کان بھی کھینچتا ہے اور بس کیا کہوں سوائے اس کے کہ موت مرشد کامل سے رشتہ یا تعلق منقطع نہیں کرتی نہ کرسکتی ہے۔ لیکن ان باتوں یا وارداتوں کو سمجھنے کے لئے تجربہ درکار ہوتا ہے اور تجربہ ہر کسی کا نصیب نہیں۔
دعا زندگی پر کس طرح محیط ہوتی ہے اس گفتگو کا خاتمہ اس ایک واقعے پہ کرتا ہوں جو میرے یقین کا حصہ بن گیا ہے۔ یہ ایک شخص جو بظاہر امریکہ سے ڈگریوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے اور ممتاز ماہر قلب (CARDIOLOGIST) ہے اور قرآن مجید کے منظوم ترجمے کے علاوہ بہت سی کتابوں کا مصنف ہے میری نگاہ اور سمجھ کے مطابق ولی اللہ ہے۔ مدت گزری ان سے ملاقات ہوئی اور راز و نیاز ہوئے تو کہنے لگے کہ ایک شام میں اسپتال کے دفتر میں بیٹھا تھا۔ اچانک دروازہ کھلا اور میرا ایک دیرینہ دوست آکر سامنے کرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ کبھی پی آئی اے میں ملازم تھا اور اس کا انتقال ہوئے دس برس گزر چکے تھے۔ بیٹھتے ہی کہنے لگا تم نے میرے لئے دعا کرنی کیوں چھوڑ دی ہے؟ میں نے جواب دیا آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ میں پہلے آپ کیلئے دعا کرتا تھا۔ اب کچھ عرصے سے بھول گیا ہوں۔ لیکن تمہیں کیسے پتہ چلا کہ میں اب تمہارے لئے دعا نہیں کرتا۔ اس نے بتایا کہ جس کے لئے خلوص و محبت سے دعا کی جائے اسے اگلے جہان میں باقاعدہ اطلاع دی جاتی ہے جیسے منادی کی جاتی ہے۔ ان دونوں حضرات کے روحانی مقامات و درجات کیا ہوں گے میں نہیں جانتا لیکن مجھے یقین ہے کہ دعا موت کے بعد بھی ’’وصول‘‘ ہوتی ہے اور اگر اگلے جہان میں پہنچتی ہے تو اثر بھی دکھاتی ہوگی کیونکہ وہاں کچھ بھی رائیگاں نہیں جاتا۔

تازہ ترین