• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی قوم نے اپنی اجتماعی زندگی کیلئے کچھ اصول متعین کرکے جو نظام اپنے لئے تعمیر کیا اسی کی بدولت آج امریکہ دنیا کیلئے عالمی طاقت اور مضبوط جمہوری معاشرہ اور اپنے امریکی شہری کیلئے تحفظ اور انصاف کی ضمانت بنا ہوا ہے۔ کئی ممالک اور اقوام امریکی فیشن، فوڈ اور فلم امریکہ کے سیاسی اور معاشی نظام کو اپناکر مادی اور سائنسی ترقی کا زینہ طے کرنا چاہتے ہیں حالانکہ اجتماعی ترقی کیلئے مثبت انسانی سوچ، مساویانہ اصول و ضوابط، صحت مند اور تعمیری معاشرتی رویوں کا وجود ضروری ہے تاکہ حاصل ہونے والی خوشحالی سے معاشرے کا ہر فرد اپنی صلاحیت کے مطابق استفادہ کرسکے۔ بہرحال ہم پاکستانی بھی امریکی فیشن، فوڈ، فن اور امریکی اسٹائل کو اپنانے کے باوجود بہت سے اجتماعی صحت مند امریکی رویوں سے راہ فرار ہی اختیار کرنے میں بھلا سمجھتے ہیں۔ مثلاً امریکی سینیٹ سے بجٹ کی منظوری پر حزب اقتدار یعنی ری پبلکن اور حزب اختلاف یعنی ڈیمو کریٹ سینیٹرز کے درمیان محاذ آرائی کے باعث امریکی حکومت کا نظام ’’شٹ ڈائون‘‘ کا شکار ہوگیا ہے اور امریکی سرکاری ملازمین عارضی طور پر بغیر تنخواہ گھروں میں بیٹھ گئے۔ حکومتی نظام معطل ہوگیا لیکن کسی بھی رکن سینیٹ یا صدر ٹرمپ نے اپنی پارلیمنٹ کیلئے وہ شرمناک الفاظ نہیں کہے جو ہمارے رکن پارلیمنٹ شیخ رشید اور عمران خان نے اعلانیہ طور پر کہے۔ جن اقوام نے پارلیمنٹ کے قیام اور برتری کیلئے قربانیاں دی ہوں اس کا کوئی رکن پارلیمنٹ ایسی گالی پارلیمنٹ کو دے؟ امیگرنٹس کے ممالک امریکہ اور کینیڈا/ ہر رنگ و نسل کے انسان کو امیگریشن دینے اور شہریت ملنے پر اُسے ووٹ کا حق، سیاست اور کسی بھی عہدے کیلئے الیکشن لڑنے کا حق بھی دیتے ہیں لیکن اپنے قومی معاملات میں کسی غیرملکی کو مداخلت یا سیاست کا حق قطعاً نہیں دیتے لیکن پاکستان کا المیہ ملاحظہ ہو کہ امریکہ و کینیڈا سمیت غیرممالک میں مقیم پاکستانی پاسپورٹ ہولڈرز یا دہری شہریت رکھنے والے لاکھوں پاکستانیوں کو پاکستان میں ووٹ تک کا حق حاصل نہیں لیکن کینیڈین سٹیزن شپ کا امتحان پاس کرکے ملکہ برطانیہ کی وفاداری کا حلف اٹھاکر کینیڈین شہری بننے والے علامہ طاہرالقادری کو پاکستان میں ایک سیاسی پارٹی کی قیادت کرنے اور ملک میں ایجی ٹیشن، دھرنے کی سیاست، پاکستانی شہروں کی سڑکیں بند کرنے، پاکستان کی سرکاری سیکورٹی کی حفاظت میں سفر و قیام اور خطابات کی وہ سہولتیں حاصل ہیں جو انہیں کینیڈا میں حاصل ہو ہی نہیں سکتیں کیا یہ اُن کئی لاکھ دہری شہریت والے پاکستانیوں کے ساتھ ناانصافی نہیں جو ہر سال پاکستان کو اربوں ڈالرز کا زرمبادلہ بھی بھیجتے ہیں ۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اگر کینیڈا میں اپنے مرکز اور رہائش کے حلقوں سے کینیڈین پارلیمنٹ کا الیکشن لڑنے کی جرأت فرمالیں تو ان کا شوق سیاست بھی پورا ہوجائے گا اور کینیڈا کے مسلمانوں کا بھلا بھی ہوگا۔ گو کہ سی ساگا کے اس کینیڈین حلقے سے عرب نژاد مسلمان رکن پارلیمنٹ منتخب ہوتا رہا ہے لیکن علامہ قادری صاحب کیلئے اسی یا کسی بھی کینیڈین حلقے سے جیتنے کا فی الحال کوئی امکان نہیں۔ آزمائش شرط ہے۔ کیا علامہ صاحب کو کینیڈا میں یہ سرکاری پروٹوکول اور ’’پروٹیکشن‘‘ حاصل ہے جو پاکستان میں انہیں حاصل ہے؟پاکستانی سیاسی لیڈر امریکی بل کلنٹن، بارک اوباما یا کینیڈین جسٹس ٹروڈو کی سیاست اور کامیاب مہمات کی نقل کرنے کی توفیق تو حاصل نہ کرسکے لیکن پہلے سے ہی فیوڈل روایتوں کی شکار پاکستانی سیاست کو بدتہذیبی اشتعال خود تضادی کے منفی رجحانات سے بھی متعارف کروادیا۔
امریکی اپنے سیاسی نظام میں ’’مرمت‘‘ اور مفاہمت کے راستے اپنانے کے عادی ہیں جہاں نظام میں کوئی رکاوٹ یا شکستگی نظر آتی ہے وہ کسی نئی سیاسی روایت یا قانون سازی کے ذریعے مرمت کرکے نظام کو چلاتے رہتے ہیں۔ تازہ مثال یہ ہے کہ امریکی سینیٹ اور صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کے درمیان سیاسی محاذ آرائی اور ایجنڈے پر اختلافات نے نہ صرف اس سال کے بجٹ کی منظوری کو روک لیا بلکہ وفاقی حکومت کو’’شٹ ڈائون‘‘ بھی کردیا جس کا مطلب سرکاری ملازمین کی برخاستگی، تنخواہوں اور اخراجات کی عدم ادائیگی ہوتا ہے۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان سیاسی محاذ آرائی اور الزامات کی شدت کے باوجود دونوں طرف سے قومی مفادات کے باعث مفاہمت اور حل تلاش کرنے کیلئے مذاکرات جاری رکھے گئےاب تازہ اطلاع ہے کہ 8فروری تک حکومتی نظام چلانے کیلئے مالی اور قانونی منظوری پر سینیٹ کی حزب اختلاف اور حزب اقتدار میں مفاہمت ہوگئی کہ اس دوران بعض امیگریشن امور پر حزب اختلاف یعنی ڈیموکریٹس کے نقطہ نظر پر بھی غور ہوگا۔ گویا ملکی نظام چلانے کیلئے مفاہمت، اپنے اپنے سیاسی ایجنڈے پر اصرار اور کسی کی شکست یا فتح کے متکبرانہ اعلانات کے بغیر ہی رکاوٹ کو دور کرکے نظام کو سنبھالا دیدیا۔ ہمارے پاکستانی سیاستدان تو نوزائیدہ جمہوریت کو مزید مضبوط کرنے اور نظام کو سنوارنے اور نکھارنے کی بجائے الزامی سیاست اور ایجی ٹیشن کی سیاست کو اُن آخری حدوں تک لے جانے کیلئے شوخ بیانیاں اور اشتعال انگیزیاں کرتے ہیں کہ جمہوری نظام کی زندگی ہی خطرے میں پڑجائے۔ نیویارک کا بروکلین برج ایک سو سال سے زائد پرانا مگر دیکھ بھال کے باعث اتنا مضبوط کہ 24گھنٹے سب وے ٹرینیں اور لاتعداد گاڑیاں اور ٹرک اس دو منزلہ پل پر سے گزرتے رہتے ہیں۔ یا پھر ایک اور پل کے ڈھانچہ میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہونے سے قبل ہی متبادل نیا پل تعمیر کرکے عوام کیلئے کھول دیا کہ کاروبار ٹریفک چلتا رہے۔ ہم تو اس امریکی مزاج کے برعکس اسرائیل کی فلسطین میں ظالمانہ پالیسی کے خلاف مذمت اور فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ہی قومی اثاثوں، بسوں اور سڑکوں کو جلاکر غیروں کی مذمت کرتے ہیں۔ ہمیں مسلم دنیا کے ہر ملک کے مسائل و مشکلات کی فکر تو رہتی ہے مگر خود ہمارے پاکستان کے گرد اس کے مخالفین جو گھیرا تنگ کررہے ہیں ہمارے قائدین سیاست و اقتدار کو اس کی کوئی فکر نہیں۔ انتخابی جلسوں کی موجودہ لہر میں آپ لیڈروں سے ذاتیات کی گھن گرج تو آپ خوب سن رہے ہیں افغانستان کی صورتحال، سرحدوں پر خطرات، بھارتی عزائم اور تیاریاں، پاک۔ امریکا تعلقات کی موجودہ کشیدگی نوعیت، آئندہ خارجہ پالیسی کی نوعیت میں کسی بھی موضوع پر ان محترم لیڈروں کا کوئی موقف سننے کو ملا ہے؟ حالانکہ اگلے انتخابات میں انہی میں سے نئی قیادت حکومت اور حزب اختلاف کا منصب سنبھالے گی۔ کیا ہمارے قائدین کو اس بات سے کوئی دلچسپی ہے کہ کتنی غیرملکی قوتیں اور ان کے گماشتے خود ان کی اپنی پارٹیوں میں شامل ہوکر کس گھات میں بیٹھے کس لمحے کے انتظار میں ہیں؟
اس وقت پاکستان اور اس کے اردگرد کا خطہ تیزی سے دنیا کے حساس ترین خطے میں تبدیل ہورہا ہے روس اورچین کے درمیان بڑھتی مفاہمت، چین کی معیشت اور فوجی صلاحیتوں کی ترقی اور فار ایسٹ کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا میں پاکستان کے ذریعے رسائی کیلئے سی پیک کی تعمیر اور اسٹرٹیجک وجوہات نے امریکہ۔ بھارت اتحاد کو بھی اسی خطے میں جنم دیا ہے دنیا کی تین عالمی طاقتیں امریکہ۔ روس اور چین اسی جنوبی ایشیا کے اردگرد متحارب انداز میں ایک دوسرے کے سامنے اپنے اپنے مفادات کیلئے موجود ہیں۔ بھارت اور پاکستان بھی اپنے ایٹمی اور فوجی اثاثوں کے ساتھ اسی خطے میں ازلی حریف بنے کھڑے ہیں۔ خفیہ ایجنسیاں اس خطے میں کتنی، کس ملک اور کس مقصد کیلئے کتنا اور کیا کام کررہی ہیں؟ ایران، یمن، سعودی عرب، لبنان بھی زد میں ہیں۔ اردگرد کے خطرات کی بارودی بُو کے ماحول اور غیرملکی خفیہ ایجنسیوں کی بڑھتی یلغار کے سائے میں پاکستانی قائدین صرف ذاتیات کی سیاست، دھرنے اور اشتعال انگیز انتخابی و الزامی سیاست کے کھیل میں مصروف ہیں۔ انہیں ان مذکورہ خطرات بارے سوچنے، سمجھنے، سامنا کرنے اور حل تلاش کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ اگر یہ تمام صورتحال انہیں محض فرضی یا نظریہ سازش کا حصہ نظر آتی ہے تو جرأت کرکے اپنے انتخابی جلسوں میں ہی یہ اعلان کردیں کہ پاکستان کو ایسے خطرات کا قطعاً کوئی سامنا نہیں ہے نہ ہی ہمیں اس بارے سوچنے کی ضرورت ہے لہٰذا میرے سیاسی مخالف سے نفرت کریں اور مجھے ووٹ دیکر کامیاب بنائیں۔

تازہ ترین