• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شیخ رشید، عمران خان، قادری ٹرائیکا نے لاہور جلسے میں چھوٹے منہ سے آئینی ادارہ پارلیمان کو بڑی گالی دے ڈالی۔ آئینی اداروں کا باپ پارلیمان پر ’’لعنت‘‘ بھیجنا، وطن ِ عزیز کے سنجیدہ مہذب، آئین پرست طبقے کو ورطہ حیرت اور کرب میں مبتلا کر گیا۔ وہم و گمان میں نہ تھا، نامرادی اور مایوسی گراوٹ کے اس درجہ پر لے آئے گی۔ چند دن پہلے عمران خان کی ٹویٹ’’(FASTEN YOUR SEAT BELTS) شام کو پریس کانفرنس میں دھماکہ خیز انکشافات کروں گا، بغیر سیٹ بیلٹ جھٹکے ناقابل برداشت ہونگے‘‘۔ سارا دن کھلبلی رہی۔ قومی تجسس دیدنی تھا۔ مبادا، ٹرمپ پاکستان پر حملہ کرنے کو؟ بھارت اسرائیلی گٹھ جوڑ آڑے ہاتھوں لینے کو؟ ’’گاڈفادر‘‘ نواز شریف نے بالآخر قتل کرہی ڈالا یا نوازشریف کسی واردات میں رنگے ہاتھوں پکڑے گئے؟ مملکت پر کوئی پہاڑ ٹوٹنے کو؟ وغیرہ وغیرہ، انواع و اقسام کی چہ میگوئیاں راج کرتی رہیں۔ اپنی حد تک چنداں پریشانی نہ تجسس، معلوم تھا جلسہ ناکام، تدبیریں خاکستر، پریس کانفرنس کا مقصد کارکنوں کے لہو گرم رکھنے کا بندوبست کرناہے۔ پریس کانفرنس میں نئے الزامات غیر موثر اس لئے بھی کہ کئی دفعہ ساکھ کو بٹہ لگوا چکے۔ 12اگست2014، میں الیکشن دھاندلی پر 10ہزار صفحات پر مشتمل ثبوت پیش کئے، ردی کی ٹوکری میں جگہ نہ پائی۔ جلسے کی تقاریر میں ’’پارلیمان پر لعنت‘‘، مایوسی کا برملا اظہار اور باقاعدہ اعلامیہ کہ ’’آپریشن نواز شریف پلس‘‘ نواز شریف ’’مائنس‘‘ کرنے میں ناکام رہا۔ ضمنی الیکشن، نواز شریف کے جلسے جلوس، عوام کی ٹھاٹھیں مارتی سپورٹ نے بھی یہی کچھ نقش کیا۔ منصوبہ سازجان چکے تھے کہ پنجاب حکومت گرائے بغیر ن لیگ کی توڑ پھوڑ ممکن نہیں۔ رات اور سڑک کا جلسہ، کسی طور دن دہاڑے میدان کے جلسے کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ عمران خان جو دن جلسہ کے رسیا، کئی سالوں سے رات اور سڑک کے جلسوں پر اکتفا کر چکے۔اگر 10ہزار نفوس، رات اور سڑک کا جلسہ، ایک ہزار پھڑپھڑاتے جھنڈے رہتے، لاکھوں کا گمان رہنا تھا۔ یاد رہے، رائے ونڈ لاہور لاک ڈائون پر رات اور سڑک کے جلسے میں 12ہزار نفوس کو13 لاکھ بتلانا، اترانا بنتا تھا۔ مال روڈ پر10ہزار نے ات مچانا تھی، اگرچہ نادیدہ قوتوں کا مطالبہ50ہزار کا تھا۔
1977 کی تحریک کے ہر اول دستہ میں 17، 18، 19اپریل کو پہلی اور آخری دفعہ دن دہاڑے مال روڈ لبالب بھری دیکھی، تخمینہ 50ہزار تھا۔ بندہ بندہ جڑا، درمیان میں فاصلوں پر رکھی کرسیوں کا وجود نہ تصور۔ برادرم مجیب الرحمٰن شامی نے بروقت توجہ دلائی،’’شامل تمام لوگ مقامی، اپنے طور پیدل یا بذریعہ لوکل پبلک ٹرانسپورٹ شریک ہوئے‘‘۔ سچی بات، سادہ زمانہ غربت کا، پاکستان کے کونے کھدروں سے بندے لانا، رواج نہ وسائل۔ یقیناً، 10ہزار بندے زرداری، شیخ رشید، عمران، قادری کی عزت محفوظ رکھنے کے لئے کافی سامان دے جاتے۔ لاہور کی بمشکل 5/4ہزار حاضری نے ساری تدبیریں خاک ملائیں۔ انتشار، افراتفری، انارکی، عدم استحکام کا جاری ایجنڈا، بلوچستان حکومت کی جھنڈے گاڑ تبدیلی سے تیار شدہ کیک، آخری مرحلہ تھا۔ لاہور میں لا اینڈ آرڈر کی اکھاڑ پچھاڑ، کیک کی آئسنگ رہنی تھی۔ ’’بابے رحمتے‘‘ کے لئے بھی گنجائش بنتی۔ ملک کے ہر کونے کھدرے، چھوٹے بڑے علاقے کا ’’بابا رحمتا‘‘ ویسے بھی ابتر ملکی صورتحال پر پریشان اور چڑچڑا ہو چکا ہے، یقین کامل کہ معاملات نہ سدھارے تو آنے والی نسلوں نے معاف نہیں کرنا۔ چوہدری پرویز الٰہی نے جلسے سے ایک دن پہلے پریس کانفرنس میں تدبیر کو مزید توانائی دی۔ یاد دلایا لاہور جب جاگتا، اٹھتا، نکلتا ہے، حکومتیں خس وخاشاک رہتی ہیں۔ چوہدری صاحب کے ذہن پر قومی اتحاد کی1977والی تحریک تھی۔10اپریل کو پولیس کے ہاتھوں ضائع ہونے والی 9جانوں نے تحریک کو جلا بخشی۔ 20اپریل کو مارشل لا نافذ کرنا پڑا، مقصد حوصلہ پست کرنا، حوصلے بلند ہو گئے کہ اللہ کی تدبیر غالب رہتی ہے۔ قرآنی حوالہ، بوجوہ پچھلے کالم سے منہا رہا، حاضر۔ سو رۃ آل عمران(54)’’ایک مکر تم(زمین پر) کرتے ہو، اور (مقابلے میں)ایک تدبیر(مکر) اللہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے وَاللہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْن‘‘۔
اللہ حق ہے، لاہور میں بھی اللہ کی تدبیر نے زمینی خدائوں کی تدبیروں کو الٹا دیا۔ 2014 میں بھی امپائر کا دونوں پارٹیوں سے مطالبہ یہی کچھ، ایک لاکھ نفوس اسلام آباد دھرنے میں یقینی بنائو۔ ناکافی پر ناکامی نے منہ چڑایا، سبق نہیں سیکھا۔ صدق دل سے سمجھتا ہوں، لاہور کے جلسہ میں’’حسب مطالبہ‘‘ 50ہزار نفری، تین پارٹیوں کے لئے ممکن بنانا قطعاً مشکل نہ تھا۔حکومت پنجاب کو بے بس اور بے دست وپا رکھتا۔جیو ٹی وی پر12گھنٹے کی مشقت کے بعد، رات11بجے منیب فاروق کا ٹاک شو آخری، رانا ثناء اللہ سے مڈ بھیڑ رہی۔ منیب کی توجہ دلائی کہ رانا صاحب کی باچھیں ناپو، کم از کم ایک انچ بڑی ہو چکیں۔ رات گئے ن لیگ کے قائدین کارکنان کی خوشی واطمینان دیدنی تھا۔ جلسہ متاثرین میں مایوسی وغصہ بڑھا گیا۔ دماغ ابلا، دہن بگڑا، ہوش و حواس معطل، پارلیمان پر لعنت بھیج ڈالی۔ تین ادارے مقدس، پارلیمان کا درجہ تینوں میں اوپر، باقی دو اداروں کا باپ ہے۔ پارلیمان کے اندر ناپسندیدہ افراد بارے گالم گلوچ ممکن کہ آئین سے تجاوز نہیں، سیاست جمہوریت کی کمی بیشی پر بھی تنقید جائز۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں یا انصاف کی کوالٹی کو آڑے ہاتھوں لینا، گنجائش موجود۔ افواج پاکستان کے چند جرنیلوں کے ناپسندیدہ طرز عمل، حکمت عملی، چال چلن پراعتراض ہو سکتا ہے۔ جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق، جنرل مشرف اور دیگر درجنوں ساتھی جرنیلوں پر تنقید کے ڈونگرے روانی سے برسانے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ مستحکم ہو چکا ہے۔ پارلیمان یا سپریم کورٹ یا افواج پاکستان پر بحیثیت ادارہ لعنت بھیجنا، غداری سمجھی جائے گی۔ ایسوں کی زبانیں گدی سے باہر نکال کھینچنی ہوں گی۔ پارلیمان پر لعنت بھیجنے والےجملہ تین قائدین احساس جرم سے بھرپور متاثر، آج وضاحتیں اور دفاع دینے پر مجبور، ہر آنے والے دن نے مزید بخیے ادھیڑنے ہیں۔ ’’لعنت‘‘ لفظ کو عمران خان معمولی سمجھ بیٹھے، اس سے سخت لفظ استعمال کرنا تھا۔ اگلے دن کی پریس کانفرنس، عذر از گناہ، بدتر ہی رہنا تھا۔ آ ج اپنی پیشگوئیوں کے نتائج دیکھ رہا ہوں، پیشگی اطلاع دی، الیکشن دھاندلی پر دھرنا اور پانامہ کیس اگر منطقی انجام کو پہنچے تو عمرانی سیاست اسلام آباد قبرستان تک محدود ہوجائے گی، اتنی ترمیم، دوسری بار مقام لاہور ٹھہرا۔ بار بار لکھا، اللہ کا شکر، عمران نے ان سُنا رکھا، انتخابی دھاندلی یا امابعد پانامہ کیس بے نتیجہ رہتے،2018الیکشن تک لٹکتے، نواز شریف آج وزیر اعظم ہوتے، میڈیا پر وزیراعظم نواز شریف کے کردار و اطوار کی دھجیاں اڑائو پروگرام جاری رہتا،اس سے بڑھ کرکوئی اور انتخابی نعرہ نہیں چاہئے تھا۔ دونوں موقعوں پر میڈیا نے عوام الناس کو منوا لیا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی، بعد ازاں پانامہ کیس ملکی لوٹ مار کی کہانی راسخ رکھی۔ الیکشن دھاندلی پر کمیشن رپورٹ اور پانامہ کیس میں اقامہ پہ نواز شریف کو نااہل رکھنا، عمران خان کی سیاست کو الٹا گیا۔ مان لیں کہ جنرل الیکشن میں نواز شریف کو تحلیل ہونے سے کوئی نہ بچا پاتا۔آج نا اہل نواز شریف مقبولیت کے جھنڈے گاڑچکے، نواز شریف کی سیاست میں جان پڑ چکی۔عمران خان کی سیاست سے جان نکل چکی۔
نوازشریف سیاست کا محور، اپوزیشن اور حکومت پر قابض۔ طمطراق سے بحیثیت اپوزیشن لیڈر دن دیہاڑے جلسے بھی، بیک وقت حکومتی فیصلے بھی۔ شاہ اور لواحقین، متعلقین ومصاحبین دور اندیشی اور سیاسی سوچ سے محروم،خاک چھاننے پر مجبور۔ افسوس ایک ہی، سچے کھرے نوجوان، جوان، پڑھی لکھی مڈل کلاس اخلاص اور تن من دھن سے ساتھ عمران خان کے ساتھ جڑی، سب کو دھوکہ دیا۔ کمال فراخ دلی سے بار بار سودا کر ڈالا، باوجود کہ وزیراعظم کبھی نہیں بننا تھا، بیچنے میں بخل نہ کیا، چہ ارزاں فروختند۔ ’’پارلیمان پر لعنت‘‘ ناکامی کا برملا اعتراف باقاعدہ اعلامیہ سمجھا جائے۔ جلسے سے اگلے دن کی دھماکہ خیز پریس کانفرنس کھسیانی بلی کھمبا نوچے سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔ تحریک انصاف کا کھرا سچا کارکن سپورٹرآج بہت مایوس اور رنجیدہ ہے۔عمران خان!لاہور جلسے میں آپ نے بہت کچھ کھو دیا۔ |
آگہی ’’دام شنیدن‘‘ جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے ’’عالمِ تقریر‘‘ کا
قادری، عمران، شیخ رشید نے جتنے تقریری جال بچھائے،کئی سحر انگیز پریس کانفریس کرڈالیں۔عام آدمی کو داد، دام میں نہیں آیا۔ مطلب براری، ذاتی مفاد اور فرضی مقصدجب سامنے ہو، عام آدمی کو جال میں پھنسانا ناممکن۔ قادری، زرداری، شیخ رشید کا کچھ نہیں گیا کہ پلے کچھ تھا نہیں۔ عمران خان کا نقصان بہت بڑا،مقبول ترین پارٹی، جنونی جوشیلے ورکرز سپورٹرز ایسے سلوک کے قطعاًمستحق نہیں تھے۔کیسی سیٹ بیلٹ ؟کیوں باندھیں؟ کہنے کو اب ہے کیا؟حتمی نتیجہ آئوٹ، نواز شریف کا فائدہ مستحکم، زرداری کو بھی مضبوط کر گئے۔ شکریہ عمران خان، منجانب نواز شریف۔
شذرات:
1۔ شہباز شریف اور ساری پنجاب انتظامیہ اور پولیس کو معصوم زینب بے حرمتی، قتل کیس کے مجرم کو پکڑ لیا۔ بہت خوب دل خوش کر دیا۔شہباز شریف صاحب آپ کے کیمروں کے بغیر پکڑنا ممکن نہ تھا۔ عدالتوں کی ذمہ داری کہ قرار واقعی انجام تک پہنچائے۔
2۔ کل میجر جنرل غفور کے حوالے سے کہی باتیں، طبیعت مکدر کر گئیں۔ جیو نیوز کے مطابق آج وزیر اعظم نے کمال مہارت سے نوٹس لیا جو لینا بنتا تھا۔’’نواز شریف آئندہ سیاسی انتخابی مہم کو لیڈ کریں گے۔ایک سیکنڈ پہلے بھی حکومت نہیں چھوڑیں گے۔ نیشنل سیکورٹی کمیٹی میں طے ہو چکا کہ انتخابات جولائی میں ہوں گے۔ انتخابات کی گارنٹی دینا فوج کا کام نہیں۔پاکستان میں عدلیہ اور میڈیا آزاد نہیں، جج کی تعیناتی سے پہلے اس کے کردار اور کاموں کا بھی پتا ہونا چاہئے‘‘۔شکریہ وزیر اعظم آپ نے حکومت کے وجود کا احساس دلایا۔

تازہ ترین