• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں سیاسی بحران کی گہرائی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں چین کے سفیر نے پہلے جاتی امرا میں سابقہ وزیر اعظم میاں نواز شریف سے ملاقات کی اور اس کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار سے بھی ملے۔ چند برس پہلے اس طرح کی ملاقاتیں پاکستان میں امریکی سفیر کیا کرتے تھے۔ اب جب امریکہ کی پاکستان میں دلچسپی حقانی نیٹ ورک اور دوسرے چند دہشت گروہوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اور چین کی سرمایہ کاری کئی اربوں ڈالر تک پہنچ چکی ہے تو ظاہر ہے اب پاکستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں تشویش بھی چین کو ہی ہو گی۔ پاک چین تعلقات میں یہ سب کچھ نیا ہے کیونکہ ماضی میں چین پاکستان کے اندرونی معاملات سے لا تعلق رہا کرتا تھا لیکن تب چینیوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔ پاکستان میں 60ارب ڈالر سے زیادہ رقم جھونک کر اب چین لا تعلق نہیں رہ سکتا۔ اور پھر اتنا سرمایہ لگانے کے بعد کونسا ملک لا تعلق رہ سکتا ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہر متعلقہ پارٹی کیلئے باعث تشویش ہے۔
پاکستان میں پچھلے چند ہفتوں میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کو ہی لے لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ملک میں سیاسی افراتفری کا عالم ہے اور ریاست کا نظام مذاق کی حد تک بےراہ روی کا شکار ہے۔ راتوں رات جس طرح بلوچستان سے ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی اور پھر صرف 544 ووٹ لے کر اسمبلی میں آنے والے ممبر صوبائی اسمبلی عبدالقدوس بزنجو کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا اس سے پتہ چلتا ہے کہ محلاتی سازشوں کاایسا کھیل کھیلا جا رہا ہے جس کی مثال صرف پاکستان کے آغاز کے دنوں میں ملتی ہے۔ اس سارے واقعہ سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جو بھی یہ کھیل کھیل رہا ہے اس کیلئے بلوچستان اور پاکستان کا طویل المیعاد مفاد اولین حیثیت نہیں رکھتا: وقتی اور عارضی مقاصد حاصل کرنے کیلئے سب کچھ کیا گیا ہے۔ یعنی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو ختم کرنا مقصد ہے اور اس کیلئے ہر مضحکہ خیز عمل جائز ہے۔ چین کی سب سے زیادہ سرمایہ کاری بلوچستان میں ہے اور اس کیلئے صوبے میں کھیلا جانےوالا سیاسی کھیل منفی سمت کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
پاکستان کی ہر چھوٹی اور بڑی سیاسی جماعت موقع پرستی اور تنگ نظری کے راستے پر چل رہی ہے۔ پچھلے دنوں جس طرح سے مولانا طاہر القادری کی رہنمائی میں حزب مخالف کی پارٹیوں کا اتحاد ہوا اور جس طرح سے اس کا جلسہْ یا دھرنا ناکام ہوا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی پارٹی کا مقصد عوام کے مسائل کا حل پیش کرنا نہیں بلکہ اس ساری سیاسی کارروائی کا مقصد مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو گرا کر اقتدار پر قبضہ کرنا ہے۔ اور المیہ یہ ہے کہ عوام حزب مخالف کی حکمت عملی سے لا تعلق ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو چلتا کرنے کیلئے مزید غیر جمہوری نوعیت کے اقدامات کئے جائیں گے ۔ تشویشناک امر یہ ہے کہ اگلے انتخابات میں کوئی سیاسی پارٹی ملکی سطح پر جیت کر سامنے آنے کے قابل نظر نہیں آتی۔ قطع نظر سیاسی پارٹیوں کی اچھل کود اور ٹی وی اینکروں کے خطبوں اور دیسی نسخوں کے، کچھ زمینی حقائق بہت خوفناک ہیں۔ ملک میں ریاست کی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ عمران خان، طاہر القادری کے دھرنوں سے لے کر تحریک لبیک یا رسول اللہ کے فیض آباد چوک کو بند کرنے کے، ریاست بے بس نظر آئی۔ فیض آباد چوک بند کرنے والوں نے تو ہائی کورٹ کے حکم کو بھی ماننے سے انکار کردیا اور حکومت اعلیٰ عدالت کے احکام پر عمل درآمد نہ کرا سکی۔ صورت حال یہ ہے کہ کوئی بھی مذہبی گروہ جس وقت چاہے شہروں کو بند کروا سکتا ہے۔ زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ریاست کے سب سے زیادہ طاقتور ادارے ریاستی رٹ کی عدم موجودگی کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہیں اور وہ حکومت کو مذہبی انتہا پسندوں کے سامنے جھک جانے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ غالباً خوش فہمی یہ ہے کہ اگر وہ شمالی علاقوں اور کراچی سے مسلح دہشت گردوں کا صفایا کر سکتے ہیں تو وہ باقی پہلوئوں سے بھی ریاست کی رٹ قائم کر سکتے ہیں۔ اگر تو انتہا پسند گروہ واقعی کسی ادارے کے اشارے پر سب کچھ کرتے ہیں تو وہ ادارے جب بھی چاہیں ان کو لگام دے سکتے ہیں لیکن شاید ایسا ہے نہیں۔ اگر جمہوری حکومتوں کے تحت ریاستی رٹ قائم نہیں ہو سکتی تو بالآخر ملک کو طوائف الملوکی سے بچانا بہت مشکل ہے۔
پاکستان میں قومی بیانیہ دن بدن تنگ نظری کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ اب ملک میں روشن خیالی اور مختلف عقیدوں کو برداشت کرنے کی فضا سکڑ رہی ہے۔ اب نہ صرف غیر عقلی عقیدے سماج میں غالب آتے جا رہے ہیں بلکہ خود ریاست کے ادارے روشن خیال افراد کو غائب کرتے رہتے ہیں۔ مذہبی قدامت پرست اگر دندناتے پھریں تو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اور ریاست کے اس رویے کی تھوڑی سی بھی تنقید کرنے والوں کوبچانے والا کوئی نہیں۔ ساری دنیا کو پاکستان میں مذہبی انتہا پسندوں کے بیانیے کے غالب ہونے کا علم ہے اور ظاہر بات ہے کہ چینی بھی اس تلخ حقیقت سے ناواقف نہیں ہیں۔
پاکستان میں ریاست کے مختلف ادارے ایک دوسرے کے دائرہ عمل میں مداخلت کو جائز سمجھتے ہیں۔ بظاہر انصاف کے ادارے دن رات ایسے اقدام اٹھاتے رہتے ہیں کہ جن سے عوامی فلاح کا بول بالا ہو لیکن یہ سب کچھ جمہوری حکومت کی جڑیں مزید کمزور کر رہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ خود جمہوری حکومتیں نا اہل ہیں اور اپنے فرائض منصبی ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ اس کا حل تو یہ ہے کہ جمہوری اداروں کو مزید مضبوط کیا جائے اور ان کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ ریاست کی رٹ قائم کر سکیں اور وہ وہ کام کرسکیں جو دنیا میں حکومتی ادارے ہی کرتے ہیں۔ ریاست کے غیر جمہوری اعلیٰ اداروں کی در اندازی عارضی طور پر تو خوشنما نظر آتی ہے لیکن اس سے ملکی نظام میں ہم آہنگی قائم نہیں ہو سکتی۔ المختصر پاکستان کے بڑھتے ہوئے سیاسی بحران کے بارے میں چین سمیت ہر سرمایہ کار کی تشویش کی ٹھوس وجوہات ہیں اور اس کا فوری حل نکالا جانا از حد ضروری ہے۔

تازہ ترین