• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں مارا جانے والا نقیب اللہ محسود اگر اپنی داڑھی کی تراش خراش نہ کرتا اور لمبی داڑھی رکھتا، اس کی ماڈرن اسٹائل تصاویر نہ ہوتیں بلکہ چند سال پرانی ایک پاسپورٹ سائز تصویر ہوتی تو وہ ایک ’’مثالی دہشت گرد‘‘ تسلیم کر لیا جاتا، ملک کے چاروں کونوں سے دلیر، فرض شناس پولیس افسران کی بہادری پر واہ واہ کی آوازیں بلند ہوتیں، پاک سر زمین کو ایک اور ناپاک دہشت گرد سے پاک کرنے پر خراج تحسین پیش کیا جاتا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو زور و شور سے اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کے عزم کو دہرایا جاتا۔ یہاں تو سب الٹ ہو گیا، ہیرو ایک ہی لمحے میں زیرو ہو کر رہ گئے۔ لیکن آج جب سب لوگ ان پولیس افسران کو نہتا اور کمزور جان کر ان پر تنقید کر رہے ہیں وہاں انکی خدمات کا تذکرہ ضروری ہے۔
یہ حقیقت سمجھنا بہت ضروری ہے کہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ٹریس کرنا، ان کے رابطوں کی نگرانی کرنا، پھر پورے گروپ کو گرفتار کرکے عدالت میں ان کا چالان پیش کرنا اور مقدمے کی پیروی کرکے ان کو سزائیں دلانا، ایک نہایت مشکل اور صبر آزما کام ہے، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کچھ بے گناہ رہا ہو جاتے ہیں اور کچھ کو ’’بابا رحمتا‘‘ معمولی سزائیں سنا دیتا ہے۔ اس لئے آسان، سستے اور فوری انصاف کے لئے پُلس مقابلے کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔
خیبر پختونخوا میں سابق آئی جی ناصر درانی نے ایک’’ تاریخی غلطی‘‘ کی اور پورے صوبے میں جعلی تو کیا، اصلی پُلس مقابلے بھی بند کروا دیئے۔ ان کے خیال میں ایسے سستے انصاف کی کوئی ضرورت نہیں حالانکہ وہ صوبہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہوا، وہاں ہر ضلع میں کم از کم روزانہ ایک مقابلہ ہونا چاہئے تھا کیونکہ پُلس مقابلے وقت کی اشد ضرورت تھے، ہیں اور رہیں گے، اس کے باوجود ان کے کان پر جوں تک نہ رینگی، افسوس صد افسوس، قانون کے کتابی اصولوں پر چلنے والے ناصر درانی کے اس قدم کی وجہ سے پُلس مقابلوں کا سارا بوجھ پنجاب اور سندھ کی پولیس پر آگیا۔
پنجاب میں تجربہ کار ’’بندے مار‘‘ افسران کی کمی کے باوجود ایک سو پچاس سے زائد دہشت گرد اپنے انجام تک پہنچائے گئے، یہ تعداد زیادہ بھی ہو سکتی تھی لیکن نوجوان افسران کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے یہ تعداد کم رہی۔ دوسری جانب پنجاب میں ایک ریفامز یونٹ بھی کام کر رہا ہے، جو خواتین کیلئے رعایتی قیمت پر موٹر سائیکلز، جدید قبرستان کا قیام اور کبھی مظلوم خواتین کو انصاف کی فراہمی کیلئے سنٹرز بناتا ہے، تاریخ کے اس نازک موڑ پر یہ قوم ایسے مثبت اور طویل مدتی اصلاحاتی کام کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ان کے سربراہ سلمان صوفی کو سمجھنا چاہئے کہ ہمیں اس وقت باصلاحیت اور بہادر ’’بندے مار‘‘ افسران کی ضرورت ہے جو نتائج سے بے پروا ہو کر صرف پُلس مقابلے کریں۔ پنجاب میں کچھ رینکر افسران کی تنزلی کے بعد اب سی ایس پی افسران کو اس میدان میں لانے کی ضرورت ہے، آخر کب تک نوجوان پولیس افسران اسکالرشپ اور بیرون ملک تعلیم کے نام پر’’عیش‘‘ کرتے رہیں گے ۔
سندھ پولیس کے ایس ایس پی رائو انوار کی قابلیت اور مہارت اپنی جگہ لیکن پنجاب اسپیڈ کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا ،2016میں تاریخ نے وہ دن بھی دیکھا کہ لاہورکے قریبی ضلع اوکاڑہ میں پُلس مقابلے کے دوران القاعدہ کے چھ دہشت گرد مارے گئے، ان سے بھارتی ساختہ اسلحہ برآمد ہوا اور وہ پیپلزپارٹی کے ایک لبرل اور ترقی پسند رہنما سے رابطے میں تھے۔ ایسی ’’مثالی شیطانی تکون‘‘ ایس ایس پی رائو انوار آج تک نہیں بنا پائے، وہ دہشت گردوں کو ہتھکڑی لگا کر ضرور پُلس مقابلہ کرتے ہیں لیکن مزہ تو تب ہے کہ رائو انوار ایسا نادر اور بے مثال پُلس مقابلہ کر کے دکھائیں، جس میں لبرل بھی رگڑا جائے، القاعدہ بھی ہو اور بھارت جیسا دشمن بھی ہو۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پُلس مقابلہ بھی ایک سائنس کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ نت نئے جدید تجربات کی بنیاد پر اس میں بہتری لائی جا رہی ہے، پہلے ملزم کے بھاگنے پر فائرنگ ہوتی تھی، اب ملزم ہتھکڑی لگا کر بھگایا جاتا ہے۔ پہلے میدان کا انتخاب ضروری ہوتا تھا لیکن ان شہری ضرورتوں کی وجہ سے یہ شرط بھی ختم ہو چکی ہے۔ پہلے پولیس کو ملزم خود پکڑنا پڑتا تھا اب ہندی فلموں کی طرح کہیں سے گفٹ بھی آ جاتا ہ، پہلے پولیس کو خود گولیاں چلانا پڑتی تھیں اب دھماکے کی وجہ سے چھت ہی گر جاتی ہے اور سب دہشت گرد اس میں دب کر مارے جاتے ہیں، پہلے ملزم کی موت کی تسلی فوراً کی جاتی تھی، اب وہ زخمی بھی ہو تب بھی مردہ خانے بھیج دیا جاتا ہے کیونکہ موت اس کا مقدر ہے۔ پہلے ایک دہشت گرد کا مقابلہ بھی چل جاتا تھا اب کم از کم تین سے چار ہوں تو ہی خبر اچھی چلتی ہے۔ پہلے ملزمان کم ہوتے تھے اس لئے ڈیل کا امکان بھی کم ہوتا تھا، اب دہشت گردوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے ایک آدھ سے چار پانچ لاکھ روپے لے کر چھوڑ دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
اس صورتحال میں ہمارے پاس دو راستے ہیں، ایک یہ کہ انصاف کے اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے اور ماورائے عدالت قتل کی سختی سے روک تھام کیلئے ملوث افسران کو سزائیں دی جائیں، تمام جعلی پُلس مقابلوں کی تحقیقات کی جائیں، جے آئی ٹی بنا کر ذمہ دار اہلکاروں پر مقدمات قائم کئے جائیں۔ ایسی باتیں کتابوں میں پڑھنا اور تحریروں میں لکھنا بہت اچھا لگتا ہے لیکن عملی طور یہ راستہ اپنانا دیوانے کا خواب لگتا ہے، ترقی یافتہ اور مہذب معاشروں کی طرح غور و فکر، اصلاحات اور اپنی غلطیو ں پر شرمندگی کی ضرورت بالکل بھی نہیں، ہمیں ڈھیٹ بن کر یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ ’’بندے مار‘‘ افسر وقت کی ضرورت رہے ہیں اور ان کے بغیر نظام ریاست و حکومت چلنا مشکل ہے، قوم کے وسیع تر مفاد میں کسی کو بھی سچ نہیں بولنا چاہیے بلکہ سسٹم کو چلتے رہنا چاہیے اور معطل افسران کو شک کا فائدہ دے کر فوری طور پر بحال کرنا چاہیے تاکہ وہ انجانے میں کی گئی اپنی غلطیوں کا کفارہ ادا کرتے ہوئے پُلس مقابلوں کے ذریعے مزید ’’اصلی اور نسلی‘‘ دہشت گردوں کو جہنم رسید کر سکیں۔

تازہ ترین