• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں آخر کتنے ہوں گے۔ جن کے تصوّرات۔ حقیقت میں بدل گئے۔
جن کے خوابوں کو مل گئی تعبیر۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان بھی یہی ہے۔ انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے۔
میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے ایک ایسے کامیاب پاکستانی کو بہت قریب سے دیکھنے سننے کا موقع ملا۔ جس کے خواب حقیقت میں ڈھل گئے۔ جس کے ادارے سے ہزاروں گھروں کے چولہے گرم رہتے ہیں۔
مجھ جیسے اور بہت کارکن ہوں گے جو اس گرانقدر صحافتی ادارے سے وابستہ رہے۔ اس کو بڑھتے۔ پھیلتے۔ ترقّی کرتے دیکھا۔ حکمران فوجی تھے کہ سیاسی۔ سب کو شکوے شکایتیں رہیں۔ سب نے اپنی طاقت سے اسے زیر کرنے کی حکمت عملی مرتّب کی۔ مگر یہ درخت تناور ہوتا گیا۔ اس کے سائے میں کتنے مسافر آرام کرتے رہے۔
یہ سفر ایک چھوٹی سی دُکان سے شروع ہوا تھا۔ جسے وہ اکیلے ہی کھولتے تھے۔ سجاتے تھے۔ اخبار تیار کرکے خود ہی تقسیم بھی کرتے۔ ایک وژن بھی تھا۔ عزم بھی۔ عمل بھی اور ایک توازن بھی۔
وہ مالک بھی تھے۔ کارکن بھی۔ سلطنت بڑی ہوتی گئی۔ مگر سلطان اسی طرح عجز۔ انکسار۔ متانت۔ مروّت۔ شفقت کا پیکر بنا رہا۔ سلاطین جس تکبّر۔ رعونت اور خشونت میں مبتلا ہوجاتے ہیں دمِ آخر تک ان میں سے کسی کو بھی انہوں نے قریب نہ پھٹکنے دیا۔
کسی تقریب میں وہ موجود ہوتے۔ چاہے اسٹیج پر۔ یاسامعین میں۔ وہ اِدھر اُدھر نظر ڈالتے۔ اپنا کوئی رپورٹر دِکھائی نہ دیتا۔ تو وہ اس تقریب کا دعوت نامہ نکالتے اور نکات لکھنے لگتے۔ کہیں اخبار پڑھنے والے تقریب کی روداد سے محروم نہ رہ جائیں۔ نیوز روم میں آتے۔ کرسی کھینچ کر نیوز ایڈیٹر کے پاس بیٹھتے۔ ’’بھئی! یہ تقریب بڑی اہم تھی۔ میں بھی وہاں تھا۔ اپنا رپورٹر دِکھائی نہیں دے رہا تھا۔ میں نے یہ نکات لکھ لئے تھے۔ اس سے خبر بنوالیں۔‘‘
نامہ نگار فون کررہا ہے۔ آپریٹر ڈیسک میں ملا رہا ہے۔ کوئی فون نہیں اٹھا رہا ہے۔ نامہ نگار بڑی بے تکلّفی سے کہتا ہے۔ میر صاحب سے ملوادو۔ ’’میں میر خلیل الرحمن بول رہا ہوں‘‘۔ ’’میر صاحب۔ مجھے خبر لکھوانی ہے۔ کوئی فون اٹھا نہیں رہا‘‘۔ ’’ہاں بھئی! مجھے لکھوا دو‘‘۔ ایک سلطنت کا مالک خبر لکھ رہا ہے۔
لاہور سے پی آئی اے کی پرواز اُتر چکی ہے۔ مسافر باہر آرہے ہیں۔ سب سے بڑے اخباری گروپ کا مالک انتظار میں ہے۔ بتایا گیا ہے کہ نیلی قمیص۔ ادھیڑ عمر کے صاحب ہلکی ہلکی داڑھی والے پیکٹ لے کر آرہے ہیں۔ خبر اور تصویریں اہم ہیں۔ باقاعدہ کارگو سے بھیجتے۔ وصولی میں دیر لگ جاتی۔ اس کام پر مامور ڈرائیور کسی ضروری کام سے کہیں اور گیا ہوا ہے۔ اس لئے وہ خود ایئرپورٹ پہنچ گئے ہیں۔ نیلی قمیص والے کے ہاتھ میں پیکٹ ہے۔ یہ آگے بڑھ کر کہتے ہیں میں جنگ سے ہوں۔ آپ کے پاس ہمارے لئے کچھ ہے۔ وہ صاحب حیرت زدہ کہ مالک خود اس پیکٹ کے لئے آیا ہے۔ رات گئے مالک یہ خبر اور تصویریں خود نیوز روم پہنچا رہے ہیں۔
ادارے اسی طرح مستحکم ہوتے ہیں۔
مالک نسل در نسل محنت کرتے ہیں۔ کارکنوں کی نسلیں اپنا خون پسینہ اپنے ادارے کی نذر کرتی ہیں۔ ایڈیٹروں کے رت جگے۔ سحر خیزی اور عرق ریزی ان کو صیقل کرتی ہے۔
میرے اعزاز میں ایک تقریب ہے۔ میں اب ادارے سے وابستہ نہیں ہوں۔ لیکن تعلقِ خاطر اور احترام اسی طرح برقرار ہے۔ منتظمین کی درخواست پر وہ تشریف لے آتے ہیں۔ کہتے ہیں میں تو ایسی تقریبات ایسی شاموں سے بہت لطف اندوز ہوتا ہوں۔ یہاں کوئی حاکم ہے نہ اعلیٰ افسر۔ سب اپنے ہیں۔ شعر بھی پڑھتے ہیں۔
تمہارے شہر کا موسم بہت سہانا لگے
میں ایک شام چرا لوں اگر برا نہ لگے
آنکھوں میں ایک نمی۔ لبوں پر وہ مسکراہٹ جو ہمیشہ پھولوں کی طرح کھلی رہتی ہے۔
اردو ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی۔ اردو کے جتنے بڑے اہل قلم تھے۔ سب سے ہی انہوں نے ’’جنگ‘‘ سے وابستگی کی پیشکش کی۔ سب نے اس کے صفحات پر اپنے فکر کی ضو بکھیری۔ مجید لاہوری۔ جوش ملیح آبادی۔ سید محمد تقی۔ نیاز فتح پوری۔ رئیس امروہوی۔ شوکت تھانوی۔ ابراہیم جلیس۔ پیر علی محمد راشدی۔ ابن انشا۔ حفیظ جالندھری۔ جمیل الدین عالی۔ احمد ندیم قاسمی۔ ایک سے ایک بڑا ستارہ۔ ایک کہکشاں۔ خواہش یہی کہ ہماری قومی زبان آگے بڑھے۔ ہر نسل اس پر ناز کرے۔
ٹیکنالوجی کو وہ ملک اور اخبار کی ترقی میں سب سے اہم زینہ خیال کرتے تھے۔ جدید ترین مشینوں کی تلاش میں رہتے تھے کہ جو بھی نئی ایجاد ہو سب سے پہلے ’جنگ‘ کو میسر ہو۔ فوٹو آفسٹ طباعت پھر رنگین پرنٹنگ اور سب سے بڑا فیصلہ جس نے اردو کو ترقی یافتہ زبانوں کی صف میں لاکھڑا کیا۔ اردو کی برقی خوش نویسی جہاں مرزا احمد جمیل، مطلوب الحسن سیّد کی مرہون منت رہے گی وہیں میر خلیل الرحمن کا نام بھی محسنین اردو میں سرفہرست رہے گا کہ وہ اگر اپنے ادارے کے لئے اس سسٹم کو قبول کرنے اور انتہائی مہنگے داموں خریدنے کا خطرہ مول نہ لیتے تو اردو کو آج جو یکسانیت۔ حُسن اور تیز رفتاری میسّر ہے یہ کبھی نہ ہوتی۔ ٹی وی چینلوں کے لئے بھی اردو کی پٹّیاں دینا ممکن نہ ہوتا۔سرکاری خط و کتابت۔ شناختی کارڈ۔ رسیدیں۔ سب کچھ اس برقی خوش نویسی سے ممکن ہوا۔ کسی اور ادارے نے شروع میں اس کے لئے آرڈر نہیں دیا۔
فیکس مشین بھی سب سے پہلے ہم نے ان کے دفتر میں ہی دیکھی۔ نیوز ایجنٹس۔ ہاکرز۔ اخبار فروش جب چاہے ان کا دروازہ کھول کر داخل ہوجاتے۔ سکھر سے دائود بھائی آتے۔ ان کی عوام کی نبض پر انگلیاں ہوتی تھیں۔ کہتے میر صاحب! ایوب نیچو۔ بھٹو اونچو۔ یوں اندازہ ہوجاتا کہ پبلک کس کی خبریں پڑھنا چاہتی ہے۔ کراچی میں طاہر صاحب یہ مشورے دیتے۔ لسانی مذہبی تنظیمیں اخبار کا بائیکاٹ کرتیں۔ ان سے مذاکرات ہوتے۔ طویل گفتگو ہوتی۔ آخر میں کہتے آپ کی مہربانی۔ آپ نے بائیکاٹ کیا۔ لیکن میرے اخبار کی ایک کاپی بھی کم نہیں ہوئی۔
یادوں کا ایک دریا ہے جو بہہ رہا ہے۔ بہت کچھ ہے۔ کہنے کو۔ سُنانے کو۔ ہر کارکن کی غمی اور شادی میں شرکت ان کی سب سے قابل تحسین عادت رہی۔ کوئی ایڈیٹر اچھا صفحہ مرتب کرتا۔ کوئی رپورٹر خصوصی خبر دیتا تو اپنی جیبِ خاص سے خود اس کے پاس جا کر انعام دیتے۔ خبر کی جستجو میں رہتے۔ بہت سی خبریں خود ان کے پاس چل کر آتیں۔ کتنے خوش ہوتے کہ ’’ہاکر سے کہا جائے کہ آج کا اخبار دے دو۔ تو وہ ’’جنگ‘‘ نکال کر دیتا ہے۔ ’’جنگ‘‘ لوگوں کی عادت بن گیا ہے۔‘‘
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی
بات یہاں ختم کروں گا۔
وے صورتیں الٰہی اب کس ملک بستیاں ہیں
اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں.

تازہ ترین