• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے قصور کی ننھی زینب کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والے ملزم کی گرفتاری کا باضابطہ اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ قاتل سیریل کلر ہے، ملزم کا ڈی این اے سو فیصد میچ کر گیا ہے، محلے دار عمران علی نقشبندی نے زینب کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کا اعتراف کر لیا ہے۔ پولی گرافک ٹیسٹ بھی مثبت آیا ہے جس میں ملزم نے اپنی سیاہ کاریوں کا اعتراف کر لیا ہے۔ مردان میں قتل ہونے والی عاصمہ اور کراچی کے نقیب کیس میں بھی معاونت کے لیے تیار ہیں۔
قاتل عمران علی نقشبندی کے حوالے سے محلے داروں اور تفتیش کاروں کے جو بیانات سامنے آ رہے ہیں وہ سوسائٹی میں موجود منافقانہ سوچوں کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ملزم کا ایک دینی تشخص اور پس منظر تھا جس کی بدولت اس کا زینب کے گھر آنا جانا تھا، یوں اپنے ساتھ مانوس بچی کو والدین سے ملانے کے بہانے لے گیا۔ بعد ازاں نہ صرف بچی کو ڈھونڈنے میں اہل خانہ کے ساتھ شامل رہا بلکہ نمازِ جنازہ میں بھی علامہ طاہر القادری کے پیچھے کھڑے وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کا زینب کے والد اور دیگر اہل خانہ سے بھی میل جول تھا۔ بعض شواہد کی بنا پر سانحہ کے فوری بعد جب پنجاب پولیس نے اس بدترین ملزم کو پکڑا تو اہل محلہ میں سے بہت سے لوگوں نے اس نوع کی شہادتیں دیتے ہوئے بیماری کے بہانے اُسے چھڑوا لیا۔اپنی بات آگے بڑھانے سے پہلے یہ درویش اپنی سوسائٹی کے سامنے ایک سوال رکھنا چاہتا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہماری سوسائٹی میں مذہب کے نام پر اس قدر منافقت پائی جاتی ہے چاہے کتنا گھناؤنا شیطان ہو مگر وہ مذہب کے لبادے میں چھپ سکتا ہے؟ اس کے برعکس کوئی شخص صداقت و انسان نوازی کے چاہے جتنے بھی بڑے مقام عظمت پر فائز ہو، انسانی خدمت میں چاہے پوری زندگی نچھاور کردے ہماری روایتی سوسائٹی اس کی قدردانی کے لیے تیار نہیں ہے ۔
اسی معصومہ زینب کے کیس میں دیکھ لیں جب انویسٹی گیشن کے لیے مشترکہ کمیٹی بنائی گئی اور تحقیقات کے بعد جو درندہ سامنے آیا اُس پر کسی کو اعتراض نہیں ہے۔ مردان میں مذہبی رنگ دے کر یونیورسٹی کے ہونہار طالبعلم مشعال خان کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا، آج اُس کا خاندان تحفظ کے لیے دربدر بھٹکتا پھر رہا ہے۔ خیبر پختونخوا سے ہی خبر ہے کہ یونیورسٹی کے طالب علم نے اپنے بے گناہ استاد کو قتل کر دیا ہے۔ ایک اور حضرت صاحب کی خبر آئی ہے کہ انہوں نے حفظِ قر آن کے ننھے طالب علم پر اتنا جسمانی تشدد کیا کہ وہ جان کی بازی ہار گیا۔
ہم پوچھتے ہیں کہ ہم مذہب کے مقدس نام کا غلط استعمال کرتے ہوئے سوسائٹی کو کدھر لیے جا رہے ہیں؟ ہمارے اندر ہیومن رائٹس سے متعلق آگہی کب آئے گی؟ بچوں اور بچیوں پر جنسی و جسمانی تشدد کے حوالے سے آئے روز جس نوع کی خبریں آتی ہیں خواہ وہ دینی مدارس سے آئیں یا عام گلی محلوں سے ان پر سوچ بچار کون کرے گا؟ کہا جاتا ہے کہ یہ سب دین سے دوری کی وجہ سے ہے، یہ مغربی تہذیب کے اثرات ہیں جبکہ ہمارے وہ دوست جو کئی دہائیوں سے مغرب میں رہائش پذیر ہیں وہ یہ ماننے کو تیار نہیں اُن کا موقف ہے کہ ننھے بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی آبرو ریزی کے بعد قتل جیسی گھناؤنی وارداتیں مغرب میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بلاشبہ بالغ لوگوں میں ریپ کیسز ہوتے ہیں، جرائم بھی ہیں لیکن زینب اور عاصمہ جیسی رونگٹے کھڑے کر دینے والی وارداتیں ہمارا خاصا بن کر رہ گئی ہیں وجہ اس کی سوسائٹی میں گھٹن ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب اور اُن کی ٹیم بلاشبہ اتنی گھناؤنی واردات کے ملزم تک دوہفتوں میں پہنچنے پر مبارکباد کے مستحق ہیں لیکن اس کے ساتھ ہم یہ ضرور کہنا چاہیں گے کہ وہ قانون کی حکمرانی پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کا اہتمام کریں۔ یہ کتنی درد ناک حقیقت ہے کہ اتنی بڑی مجرمانہ ذہنیت کا مالک ماقبل ایسی سات وارداتیں کرنے کے باوجود قانون کو چکمہ دینے اور شکنجے میں آنے سے بچ نکلنے میں کامیاب رہا۔ ہمارے جہاندیدہ اور تجربہ کار وزیر اعلیٰ سے یہ بھی امید کی جاتی ہے کہ وہ ایسے مواقع پر نازک انسانی احساسات کا پورا خیال رکھیں گے۔ اتنی معصوم بچی کے ساتھ جس نوع کی دردناک واردات ہوئی ہے اُس کے سفاک قاتل کے پکڑے جانے پر ہمیں جتنی خوشی ہے وہ اُس پہلے والے رنج و غم کے نیچے دبی ہوئی ہے ٹیم کی ستائش مابعد بھی کی جا سکتی تھی اور مابعد کی جانی چاہیے جن لوگوں نے یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے اُن کی لازماً قدر افزائی ہونی چاہیے بلکہ اس تناظر میں KP کی حکومت پر مزید دباؤ آنا چاہیے کہ وہ بھی معصوم عاصمہ کے قاتل کو تلاش کر کے عدالت کے کٹہرے میں لائیں ورنہ یہ اُ ن کی شدید نا اہلی قرار پائے گی۔
دوسرے ہنگامی تنگناؤں سے اوپر اٹھ کر ہمیں معصوم بچوں بچیوں اور خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم کا تدارک کرنے کے لیے مستقل بنیادوں پر حل نکالنا ہو گا۔ غیرت اور توہین کے نام پر جس نوع کی حرکات ہر دوسرے دن ہوتی ہیں نفسیاتی پہلوؤں سے جائزہ لیتے ہوئے سوسائٹی میں فکری بنیادوں پر کئی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ سوسائٹی کے تمام طبقات کو مل جل کر ان کا جائزہ لینا ہوگا تاکہ یہاں مہذب انسانی سوسائٹی تشکیل پا سکے۔

تازہ ترین