• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں ادارے سسکیاں لے رہے ہیں۔ گزشتہ 70سالوں کے دوران کوئی بھی ادارہ مثالی کردار ادا نہیں کرسکا۔ 10سال جمہوریت کے مزے لوٹنے والے کبھی پارلیمنٹ پر لعنت بھیجتے تو کبھی شرمناک جیسے القابات سے نوازتے ہیں۔ چند ماہ قبل سینئر صحافی محمد حنیف نے لکھا تھا کہ پاکستان میں ادارے تو صرف دو ہی ہیں۔ باقی پارلیمنٹ کو تو کوئی ادارہ ماننے کو تیار نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان ریمارکس دیتے ہیں کہ پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں مگر پھر اسی پارلیمنٹ کے قائد ایوان کو گھر بھیج دیتے ہیں۔ وطن عزیز میں اداروں کے آج جو حالات ہیں، ماضی میں کبھی نہیں رہے۔ کسی ادارے کی سنی نہیں جاتی تو کسی کی حد سے زیادہ سنی جاتی ہے۔ ادارے اپنے آئینی حدود سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ ہماری عدلیہ کے معزز دوست جسٹس سجاد علی شاہ کے مشہور فیصلے کا حوالے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ 1997میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے سے طے ہوگیا تھا کہ ایگزیکٹو اور عدلیہ علیحدہ علیحدہ ہیں۔ اس لئے ایگزیکٹو کے پاس عدالتی اختیارات نہیں ہونے چاہئیں۔ بعد میں آمر پرویز مشرف نے اسی فیصلے کو جواز بنا کر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور علاقہ مجسٹریٹ کے عہدے ختم کرکے سول سروس کا ستیاناس کردیا تھا۔ آج کی عدلیہ Executive & Judiciary are seperateکے فیصلے کو سامنے رکھ کر انتظامیہ کو تو عدالتی اختیارات دینے کی مخالفت کرتی ہے مگر عدلیہ کبھی بھی خود اپنے آپ کو انتظامی فیصلوں سے دور نہیں رکھتی۔ آج ہر انتظامی فیصلے میں عدالتی رکاوٹ نظر آتی ہے۔ ہمارے قانون دان دوست اکثر فیصلوں میں بھارت اور برطانیہ کی عدالتوں کی مثال دیتے ہیں۔ ظاہر ہے پاکستان تقسیم سے قبل برطانیہ کی ہی کالونی ہوا کرتاتھا اور برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان اور بھارت اکٹھے وجود میں آئے اور دونوں ممالک میں ایک جیسا عدالتی اور انتظامی نظام متعارف کرایا گیا۔ اس لئے رہنمائی لینے کے لئے بالا دونوں ممالک کی عدالتوں کے فیصلے کا حوالہ دینے میں کچھ مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن ہم ہر معاملے میں سے اپنی پسند کی چیز نکال لیتے ہیں اور باقی معاملات کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ برطانیہ اور ہمسایہ ملک بھارت میں عدالتیں کبھی بھی انتظامی فیصلے پر اثر انداز نہیں ہوتیں۔ بھارت میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وفاقی کابینہ کوئی فیصلے کرے اور سپریم کورٹ آف ہندوستان اس فیصلے پر عملدرآمد سے روک دے۔ کسی آئی جی یا چیف سیکرٹری کی تعیناتی کے لئے ڈکٹیشن کبھی نہیں دی جاتی۔ پارلیمنٹ کو ہمیشہ سپریم سمجھا جاتا ہے۔ ملک کی پارلیمنٹ جو فیصلہ کردے، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اس فیصلے میں کوئی عدالتی حکم رکاوٹ ڈال سکے۔ برطانیہ میں تو پارلیمنٹ اتنی مضبوط اور سپریم ہے کہ کہا جاتا ہے کہ دنیا کی بااختیار ترین پارلیمنٹ ہے۔ جو مرد کو عورت اور عورت کو مرد بنانے کے سوا کچھ بھی کرسکتی ہے۔
آج پاکستان میں کوئی ادارہ بھی اپنا کام ذمہ داری سے ادا نہیں کرپارہا۔ پارلیمنٹ کی خامیاں بجا مگر کوئی ادارہ بھی پارلیمنٹ سے سپریم نہیں ہوسکتا۔آج ہر ادارے کو دوسرے ادارے سے شکایات ہیں۔چیف ایگزیکٹو کے احترام کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔گزشتہ ہفتے کافی عرصے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت میں جانے کا اتفاق ہوا۔یہ خاکسار سپریم کورٹ کی دوسری منزل پر واقع کورٹ روم نمبر دو کی پشت سے ہوتا ہوا ایڈمن بلاک کی طرف جارہا تھا تو کورٹ روم نمبر 1کے مرکزی دروازے سے گزر ہوا۔یہ دروازہ اکثر اوقات بند ہوتا ہے اور کورٹ روم نمبر 1سے ملحقہ ہال میں کسی تقریب پر کھولا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کے مرکزی دروازے پر پہنچ کر میرے قدم رک گئے۔ دروازے کے ساتھ ماربل کی دو مضبوط تختیاں لگی ہوئی تھیں۔ ایک تختی پر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا نام لکھا ہوا تھا۔ محترمہ نے اس عمارت کا سنگ بنیاد رکھا تھا، جبکہ بائیں جانب والی تختی پر ’’نااہل‘‘ وزیر اعظم نواز شریف کا نام لکھا ہوا تھا۔ نواز شریف نے اس عمارت کی تعمیر کے بعد بطور وزیراعظم اس کا افتتاح کیا تھا۔ بات کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر تنقید کی جاتی ہے کہ نااہل شخص پارٹی کا سربراہ بن گیا ہے تو بہت سے ادارے ایسے ہیں جو نواز شریف کے ہاتھ سے تعمیر ہوئے ہیں تو پھر ان کے بارے میں کیا کہیں گے۔ صرف یہی نہیں بلکہ مجھے یاد ہے کہ کسی دور میں ایف بی آر پرانا سی بی آر کا دفتر زیرو پوائنٹ پر ہوا کرتا تھا۔ نواز شریف بطور وزیراعظم کسی تقریب میں شرکت کے لئے زیرو پوائنٹ پر قائم سی بی آر کے دفتر گئے تو چیئرمین سی بی آر نے کہا کہ ہمارا ذکر بھی آئین پاکستان میں موجود ہے اور جس جس ادارے کا ذکر آئین میں موجود ہے، اس کا دفتر شاہراہ دستور پر ہونا چاہئے۔ نواز شریف نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ جس ملک کا ریونیو دفتر ہی زیرو پوائنٹ پر ہو اس ملک نے کیا ترقی کرنی ہے۔ یوں نواز شریف نے شاہراہ دستور پر ایف بی آر کا دفتر منتقل کیا۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جو شخص تین دفعہ وزیراعظم اور دو دفعہ وزیر اعلیٰ پنجاب جیسے منصب پر رہا ہو، اس شخص کے بغیر ملکی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔ کئی اداروں کی عمارتوں کی اینٹیں اس نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہوں۔ ایسے شخص کو متنازع فیصلوں سے نکالنا اداروں کے بہتر مفاد میں نہیں ہوتا اور بقول محمد حنیف پاکستان میں آجکل ادارے تو صرف دو ہی ہیں۔
زندہ قومیں اپنے بزرگ سیاستدانوں کی قدر کرتی ہیں۔ بھارت میں اندرا گاندھی اور نہرو کی کانگریس کو کسی متنازع فیصلے سے فارغ نہیں کیا جاسکتا۔ کانگریس کو اس کی اپنی پالیسیوں نے 17سیٹوں تک محدود کیا مگر کسی ادارے نے کانگریس کا حجم کم کرنے کی نہیں ٹھانی تھی۔ جس طرح بھارت میں اندرا کا نام نہیں مٹایا جاسکتا، اسی طرح پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو، نواز شریف، بے نظیر بھٹو کو ایک فیصلے کی مدد سے بے دخل نہیں کیا جاسکتا۔ آج ایک معروف قانون دان گھر تشریف لائے۔ ملکی صورتحال اور اداروں کے حالیہ کردار پر کافی رنجیدہ تھے۔ میں نے انہیں روایتی انداز سے چھیڑتے ہوئے کہا کہ آپ کے لئے کیوبا سے Cohibanسگار منگوائے ہیں اور یہ کہتے ہوئے میں نے ایک تازہ سگار انہیں پیش کردیا۔ بزرگ قانون دان کہنے لگے کہ کیا کیوبا والے فیڈرل کاسترو کے ساتھ ایسا سلوک کرتے جو ہم نے نواز شریف کے ساتھ کیا ہے۔ میں نے کہا کیا مطلب ہے آپ کا؟ تو کہنے لگے کہ تم جانتے ہو کہ میں بائیں بازو کا حمایتی ہوں اور کبھی نواز شریف کو ووٹ نہیں دیا اور آئندہ بھی نہیں دوں گا مگر کوئی بھی ملک یا ادارہ اس معیار اور سطح کے سیاستدان کے ساتھ ایسا سلوک کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا، جو ہم نے نواز شریف کے ساتھ کیا ہے۔ بزرگ قانون دان سخت باتیں کرکے چلے گئے مگر میں رات گئے تک سوچتا رہا کہ ہم 2018کی نوجوان نسل کو کیسا پاکستان دے رہے ہیں۔ ایک ایسا پاکستان جہاں پر ادارے ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ کیا یہی قائداعظم محمد علی جناح کا پاکستان ہے؟

تازہ ترین