• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قصور میں معصوم زینب کے سفاکانہ قتل کا درد و رنج پوری قوم نے محسوس کیا۔ وزیر اعظم پاکستان، چیف جسٹس آف پاکستان، وزیر اعلیٰ پنجاب، سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور دیگر قائدین، ارکانِ پارلیمنٹ اور دیگر علمی و سماجی شخصیات نے اس سانحہ پر شدید رنج و غم کا اظہار کیا۔ ٹیلی وژن کی خبروں اور ٹاک شوز میں، اخبارات کے خبری اور اداراتی صفحات میں اور سوشل میڈیا پر ایک معصوم بچی کے اس سفاکانہ قتل پر بہت کچھ کہا اور لکھا جارہا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ یہ سانحہ پوری قوم کے لئے شرمندگی کا سبب بنا ہے۔ واقعی قوم کی ایک معصوم بیٹی زینب کے قتل کی خبر سب نے نہایت دکھ اور افسوس کے ساتھ سُنی۔ خصوصاًننھی بچیوں اور بچوں کے والدین کے لئے ایسی خبریں دکھ کے ساتھ ساتھ شدید تشویش اور فکرمندی کا باعث بھی ہیں۔ معصوم زینب کے قتل کی خبر سے سارے ملک میں بچوں کے والدین میں خوف کی ایک لہر پھیل گئی۔ کیا شہر کیا دیہات ہرجگہ امیر ہوں، متوسط طبقے کے افراد ہوں یا غریب گھرانوں کے لوگ ہوں سب ہی اپنے اپنے معصوم بچوں کی عزت و سلامتی کی طرف سے مزید فکرمند ہوئے۔ زینب کے قتل کو ساری قوم کے لئے شرمندگی کا سبب کہا جارہا ہے۔ لیکن میں سوچتا ہوں کہ اس سانحہ پر ہم کیا واقعی شرمندہ ہوئے ہیں۔ اس سانحہ نے ہماری اشرافیہ، حکومتی ارکان اور افسران کو اس حد تک جھنجھوڑ دیا ہے کہ وہ آئندہ اس قسم کے واقعات نہ ہونے دینے کا عزم کرلیں۔ ٹیلی وژن چینلز پر حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے کئی سیاستدانوں کی باتیں سنتے ہوتے تو ایسا نہیں لگ رہا۔ ان ٹاک شوز میں حکومتی ارکان اپنے اقدامات کے دفاع اور اپوزیشن کے لوگ اپنی اپنی پارٹی پالیسیوں کے مطابق حکومت پر نکتہ چینیاں کرتے نظر آرہے تھے۔
معصوم زینب کا لرزہ خیز قتل ہمارے ملک میں کسی معصوم بچے کا کوئی پہلا قتل یا اپنی نوعیت کا کوئی منفرد واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے ہمارے ملک کے ہر صوبے میں مختلف شہروں، قصبات اوردیہات میں دل لرزادینے والے ایسے کئی افسوس ناک واقعات ہوچکے ہیں۔ ایسے محض چند واقعات ہی رپورٹ ہوتے ہیں۔ کم عمر لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کے کثیر واقعات تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔
معصوم زینب کے بہیمانہ قتل پر حکومت، عدلیہ، اہل سیاست و صحافت سمیت کئی حلقوں کا شدید ردعمل کئی حقائق کا سامنا کرنے اور بہت کچھ سوچنے کی دعوت دے رہا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسکولوں میں سن بلوغت کے مسائل اور تولیدی صحت پر مشتمل تعلیم کی فراہمی سے بچوں میں شعور پیدا ہوگا۔ اس سے بچوں کے ساتھ زیادتی کے گھناؤنے واقعات کی روک تھام میں بہت مدد ملے گی۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات کا سبب غربت اور معاشرے میں پائی جانے والی گھٹن بھی ہے۔ دیکھا جائے تو ایک سنگین المیے اور ایک بہت بڑے دکھ پر سنجیدہ غور و فکر کے بجائے کئی عناصر اسے اپنے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے اور اپنے نظریات کے ابلاغ کے لئے استعمال کررہے ہیں۔
ذرا سا غور کیا جائے تو واضح ہوجائے گا کہ پاکستان میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کا تعلق تعلیم کی کمی، اسکولوں میں تولیدی صحت پر مشتمل تعلیم کی عدم فراہمی، غربت، سماجی گھٹن وغیرہ سے نہیں ہے۔بچوں کے ساتھ زیادتی ایک عالمگیر مسئلہ ہے۔ ایسے واقعات دنیا کے کم تعلیم یافتہ اور غریب ممالک پر مشتمل خطے افریقہ میں ہی نہیں بلکہ تعلیمی لحاظ سے دنیا بھر میں اولین نمبروں پر رہنے والے خوش حال اور اظہار رائے کی آزادی رکھنے والے امریکا، برطانیہ اور کئی یورپی ممالک میں بھی ہوتے رہتے ہیں۔ کم عمروں سے جنسی زیادتی کے واقعات تقریباً سب مسلم ممالک میں بھی سننے میں آتے ہیں۔ اس قبیح فعل یا شدید گھناؤنے جرم میں بھارت دنیا بھر میں سرفہرست ہے۔ کئی ایشیائی ملکوں کے اعداد وشمار دستیاب نہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں سب ٹھیک ہے۔ دنیا کے 22ممالک سے لئے گئے اعداد وشمار کے مطابق 12تا 18 فیصد لڑکیوں اور 7فیصد سے زیادہ لڑکوں کو جنسی زیادتی کے واقعات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں افریقی ممالک 34فیصد سے زائد واقعات کے ساتھ سرفہرست، ایشیائی ممالک 23فیصد، امریکہ کینیڈا 10فیصد اور یورپی ممالک 9 فیصد کے ساتھ دوسرے تیسرے اور چوتھے نمبروں پر ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ بچوں کے ساتھی زیادتی اسلامی جمہوریہ پاکستان یا چند ایشیائی ممالک نہیں بلکہ یہ دنیا کے ہر ملک کو درپیش ایک انتہائی سنگین مسئلہ ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں ایسے اکثر کیسز کی رپورٹ درج نہیں کی جاتی۔ اس لئے اس قبیح جرم اور گھناؤنے فعل کے پھیلاؤ کے بارے میں درست اعداد و شمار ملنا بہت مشکل ہے۔ پاکستان میں صرف بچوں سے زیادتی ہی نہیں بلکہ چوری، ڈکیتی، موبائل فون کی چھینا جھپٹی اور دیگر کئی جرائم کی رپورٹ یا تو پولیس درج ہی نہیں کرتی، یا متاثرہ افراد خود بوجودہ رپورٹ درج کروانے سے گریز کرتے ہیں۔ اس صورتحال میں بھی پاکستان میں2016ء میں 4139 بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز رپورٹ ہوئے۔ یہ تعداد 2015ء میں رپورٹ ہونے والے کیسز سے 10فیصد زیادہ ہے۔ 2016ء میں سب سے زیادہ 2676کیسز پنجاب سے رپورٹ ہوئے۔ 4139 کیسز کے متاثرین میں 2410 یعنی 58فیصد لڑکیاں اور 1729یعنی 42فیصد کم عمر لڑکے کے شامل تھے۔ ان میں سے 76فیصد کیسز دیہی علاقوں اور 24فیصد شہری علاقوں میں رپورٹ ہوئے۔ 2017کے ابتدائی 6ماہ میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے 1764کیسز رپورٹ ہوئے۔ پاکستان میں ہر روز تقریباً 11 بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز درج ہوتے ہیں۔
میں اپنے قارئین کو یہ بھی بتا نا چاہتا ہوں کہ جمہوریت، آزادی ٔ رائے کی جنم بھو می ریاست برطانیہ میں جہاں بچوں کے حقوق اور ہر طرح کی تعلیم پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کے نصاب میں شامل ہے۔ اس ملک میں 2015/16 میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے 54ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے ان میں سے 30ہزار مجرموں کو پکڑ کر تفتیش اور نظام ِ انصاف کے مختلف مراحل سے گزار کر سزائیں دی گئیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 55فیصد سے زائد مجرم گرفتار ہو کر جیلوں میں سزائیں بھگت رہے ہیں۔ اس کے باوجود وہاں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات مسلسل ہورہے ہیں۔ پاکستانی معاشرے کو اس برائی سے محفوظ رکھنے کے لئے بچوں کے تحفظ کے لئے مناسب قوانین کے نفاذ اور نفوذ کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ہر طبقے کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ بچوں کے ساتھ زیادتی سمیت کئی جرائم کی روک تھام کے لئے قانونی، معاشرتی، تعلیمی اور تربیتی سطحوں پر کثیر پہلوی ٹھوس اور قابلِ عمل اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں والدین کی ذمہ داریاں سب سے زیادہ ہیں۔

تازہ ترین