• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ میرے لئے بڑے فخر کی بات تھی کہ نہ صرف جنگ گروپ کے ساتھ یوتھ ایمبسڈر کے طور پر منسلک ہوچکا تھا بلکہ میں نے ’’دور نو‘‘ کے عنوان سے کالم بھی لکھنا تھے مجھے اس بات کااقرار کرتے ہوئے کوئی تامل نہیں کہ میں اردو میں بہت زیادہ اچھا نہیں ہوں اس لیے اپنے والدین سمیت بہت سارے رفقاء سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ،کہ میرے پاس موجود جو موضوعات ہیں، زمانہ طالب علمی میں مجھے جو تجربات حاصل ہوئے ہیں ،یوتھ کے حوالے سے جو کچھ کہناچاہتاہوں۔وہ اپنے کا لم کے ذر یعے یوتھ کو ان مشکلات سے بچانے کے لیے اپنے اور اپنے دیگر ساتھیوں کے مشاہدات کو بروئے کار لاکرانکی کس طرح رہنمائی کرسکوں ۔اس کے لئے انداز بیان اگر بہت منفرد یا اچھوتا نہ بھی ہو لیکن پڑھنے والے کوکچھ معلومات یا چاشنی ضرور ملے۔یہ ساری باتیں تھیں جو کالم شروع کرنے سے پہلے میرے ذہن میں تھیں ،لہذا تجربہ کار اور اساتذہ سے میں نے رہنمائی لی۔ ٹیکسٹ بکس کے علاوہ میرا کچھ دیگر کتب کامطالعہ بھی تھا لیکن اس حوالے سے مجھے جو پہلا مشورہ دیاگیاوہ تھا کتب بینی کا ،میرے والد صاحب نے خاص طورپر مجھے نصیحت کی کہ اس وقت جتنے نامور کالمسٹ کے کالم شائع ہورہے ہیں وہ مجھے ضرور پڑھنے چاہیں۔میرے والد صاحب کے ایک قریبی دوست کریم صاحب جو اردو پڑھتے پڑھاتے بھی تھی۔ مجھے والد صاحب کے ساتھ ان کے پاس جانے کا اتفاق بھی ہوا توانہوںنے جہاں مجھے کالم کے حوالے سے کچھ ٹیپس دیں وہاں مجھے یہ نصیحت بھی کی کہ میں منو بھائی کاکالم ضرور پڑھاکروں۔ اور پھرانہوںنے مجھے منو بھائی کے چندکالموں کے زبردست ٹوٹے بھی سنائے جو انہیں زبانی یاد تھے۔ انہوںنے منو بھائی کے ایک کالم کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ایک مرتبہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کسی غیر ملکی ٹیم سے میچ ہار گئی لیکن اس میچ میں مد مقابل ٹیم کے امپائرزنے اپنی ٹیم کے حق میں پوری ڈھٹائی سے جو بے ایمانی کی تھی وہ منو بھائی نے اپنے کالم کا آغاز ہی اس طرح کے فقرے سے کیا کہ پاکستانی ٹیم 6 وکٹوںاور دو امپائرز کے فرق سے میچ ہار گئی ۔ منو بھائی کے فقرے بڑے سادہ لیکن کاٹ دار ہوا کرتے تھے ۔وہ جب اپنی بات واضح کرنے کیلئے دلیل یا واقعہ لکھتے تو وہ بھی بڑا زبر دست ہوتا ،میرے والد کے دوست نے مجھے اسی طرح کا ایک کالم کا کچھ حصہ سناتے ہوئے کہاکہ منو بھائی لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ’’چیل سے کسی نے پوچھا کہ تمہارا اڑنا،تمہارا جھپٹنا،تمہاری چونچ، تمہارا پنجہ سب کچھ عقاب کی طرح ہے بلکہ تم بھی عقاب کی طرح بلندی پر اڑتے ہوئے زمین پر پڑے ہوئے کسی گوشت کے ٹکڑے کو دیکھ لیتی ہو۔لیکن کیا بات ہے کہ تمہارا شکار کرنے کا انداز عقاب کی طرح نہیں ہے۔ توچیل نے جواب دیا کہ یہ درست ہے کہ میرا اڑنا ،میرا جھپٹنا، میری چونچ ،میرا پنجہ اور میری نظر سب عقاب کی طرح ہے لیکن جب میں شکار کو پکڑنے کیلئے اس پرجھپٹتی ہوں تو میرا ’’ہاسا‘‘ نکل جاتا ہے۔کر یم انکل نے منو بھائی کے حوالے سے ایک اور واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں ایک کتاب کی رونمائی کی تقریب تھی۔ جس میں منو بھائی کو بھی خصوصی دعوت پر بلایاگیا تھا۔ تقریب میں قاضی حسین احمد سمیت کئی بڑے بڑے سیاستدان بھی موجود تھے۔ جن صاحب کی کتاب کی تقریب رونمائی تھی انہوںنے آغاز میں خطبہ استقبالیہ کے دوران گلہ کیا کہ میں بارہ کتابوں کامصنف ہوں لیکن مجھے اس معاشرے سے یہ گلہ ہے کہ نہ مجھے حکومتی سطح پر اور نہ ہی عوامی سطح پر پذیرائی دی گئی ہے۔ جب منو بھائی اپنی باری پرتقریر کرنے آئے توانہوںنے مصنف کے حوالے سے برجستہ ایک فقرہ کہا کہ میں نے آپ کی یہ کتاب بھی پڑھی ہے اور مجھے اندازہ ہوگیا ہے کہ اگر آپ بارہ کی بجائے ایک ہی اچھی کتاب لکھ لیتے تو آپ کو ضرور پذیرائی ملتی۔ منو بھائی نے اپنے برجستہ جملوں سے جہاں محفل کو گرمائے رکھا۔ ان حاضرین کی فرمائش پر ایسی کچھ پنجابی نظمیں بھی سنائیں۔ جن میں معاشرتی ناہمواری اور طاقت ور کی طرف سے کئے جانے والے استحصال کے حوالے سے ان کے خوبصورت انداز اور کاٹ دار مصرعے تھے جس سے محفل گرما اٹھی۔ ان کی ایک نظم کے چند اشعاراس طرح ہیں۔
او وی خوب دیہاڑے سن
بھک لگدی سے منگ لیندے ساں
مل جاندا سی کھالیندے ساں
نئیں سی ملدا رو پیندے ساں
اے وی خوب دیہاڑے نیں
بھک لگدی اے منگ نئیں سکدے
ملدا اے تے کھان نئیں سکدے
نئیں ملدا تے رو نئیں سکدے
نہ رویئے تے سو نئیں سکدے
اور ایک اور چھوٹاساقطعہ جس میں بہت گہرائی ہے۔
اک کل میری پلے بن لو
کہن لگا حلوائی
مکھیاں وی اڈ جان گئیاں
جدوں مک گئی مٹھیائی
چند خوبصورت مصرعے
گلاں و چوں باتاں گئیں
باتاں وچوں معنی مطلب
قلماں چوں روشنائی
اللہ منو بھائی کے درجا ت بلند فر ما ئے۔

 

تازہ ترین