• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کو پہلے میں نے دن کے وقت لیہ میں اور سرِشام لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے دیکھا، تو ان کی مستعدی اور فرض شناسی پر بے ساختہ رشک آیا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ ٹیم ورک سے ہم قوم کی بیٹی زینب کے قاتل تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ وہ ٹیم کے اندر شامل جے آئی ٹی، تفتیشی افسروں، انٹیلی جنس ایجنسیوں، فرانزک لیبارٹری کے عملے کا فرداً فرداً شکریہ ادا کر رہے تھے اور فوج کے سپہ سالار، پاکستان کے چیف جسٹس اور میڈیا کے تعاون پر اُنہیں مبارک باد بھی دے رہے تھے۔ وہ بتا رہے تھے کہ میں شب و روز پولیس افسروں کی کارکردگی کی مانیٹرنگ کرنے کے ساتھ ساتھ اُنہیں ہمت بھی دلاتا رہا۔ اس طرح ٹیم کی مشترکہ کوششوں سے پہلا سخت مرحلہ طے پا گیا ہے اور باقی مرحلے بھی پُرخلوص تعاون اور اشتراکِ عمل سے طے پا جائیں گے۔ پریس کانفرنس میں اُن سے کڑے اور سخت سوالات بھی کیے گئے جن کا اُنہوں نے بڑے تحمل سے جواب دیتے ہوئے اِس امر کا یقین دلایا کہ ماضی میں جن جن منصب داروں سے کوتاہی سرزد ہوئی ہے، اُن کے احتساب کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے اور نظام کو مزید بہتر بنانے کے لیے ایک میکانزم تیار کیا جا چکا ہے۔ اُن کی گفتگو سے یہ بات بھی مترشح تھی کہ پنجاب میں جو جدید فرانزک لیبارٹری قائم ہے، اس نے مجرم کا سراغ لگانے میں کلیدی کردار ادا کیا اور ڈی این اے ٹیسٹ نے عمران علی کا جرم بے نقاب کر دیا ہے۔
جناب شہباز شریف کا یہ اعلان قومی سطح پر بہت سراہا گیا کہ وہ قوم کی بیٹی عاصمہ کے قاتل کا سراغ لگانے میں ہر طرح کی تکنیکی امداد فراہم کرنے میں ایک گونہ روحانی سکون محسوس کریں گے۔ اُنہوں نے یہی فراخدلانہ پیشکش صوبہ سندھ کی قیادت کو بھی کی ہے کہ وہ نقیب اللہ محسود کا معمہ حل کرنے میں پورا پورا تعاون کریں گے۔ مجھے شہبازشریف کے اس عظیم جذبے نے بہت متاثر کیا اور میرے دل سے دعا نکلی کہ وہ آگے چل کر ایک ایسا نظام نافذ کرنے میں کامیاب ہو جائیں جو قانون کی حکمرانی، غریبوں کی آسودگی، ملکی استحکام اور خوشحالی کی ضمانت فراہم کر سکے۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ میرا ربِ کریم مجھ ایسے گناہ گاروں اور کم ہمتوں کی دعا بھی قبول فرمائے گا اور پاکستان کو اس عذاب سے نجات دلائے گا جو بچوں کے ساتھ زیادتی اور ہلاکت کی صورت میں ہم پر نازل ہوئی جس کے ذمہ دار زیادہ تر ہم خود ہیں کہ فرائض بجا لانے کے بجائے لہو ولعب میں وقت ضائع کرتے رہتے اور مخرب اخلاق سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
زینب کے مبینہ قاتل کا مقدمہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں چلے گا اور لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب منصور علی شاہ نے اعلان کیا ہے کہ مقدمے کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہو گی۔ عمران علی کے خلاف عوام کے اندر شدید غصہ اور اضطراب پایا جاتا ہے۔ سینیٹ اور سندھ اسمبلی میں اس طرح کی آوازیں اُٹھی ہیں کہ اسے چوراہے میں پھانسی دے کر نشانِ عبرت بنایا جائے۔ جناب شہباز شریف کے جذبات بھی کچھ ایسے تھے، مگر موجودہ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔ بعض حلقے اس رائے کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ ڈی این اے ٹیسٹ بھی غیر معمولی احتیاط کا تقاضا کرتا ہے کہ سیمپل لینے میں تاخیر کی وجہ سے نتائج متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس نکتہ آفرینی کا غالباً مقصد یہ ہے کہ جوش میں ہوش قائم رہنا چاہیے اور قانون کے تمام تقاضے بروئے کار لا کر ہی مجرم کو عبرت کا نشان بنایا جا سکتا ہے۔
دراصل بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں اور پاکستان کو دہشت گردوں سے نجات دلانے کے نام پر پولیس شہریوں کو موت کے گھاٹ اُتارتی جا رہی ہے۔ قصور میں زینب سے پہلے سات وارداتیں ہوئیں اور وہاں کی پولیس ڈی این اے ٹیسٹ کرائے بغیر پانچ شہریوں کو پولیس مقابلے میں موت کی نیند سلا چکی ہے۔ اس نوع کے واقعات بلاروک ٹوک ملک کے مختلف حصوں میں رونما ہو رہے ہیں۔ لوگوں کو گھروں سے اُٹھا لینے اور انہیں غائب کر دینے کی وارداتوں میں اضافہ تشویش ناک ہے۔ ایک زمانے میں گم شدہ افراد بلوچستان کا سب سے وحشت ناک مسئلہ تھا اور سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینا پڑا تھا۔ فاضل جج صاحبان کی پُرعزم کوششوں سے گمشدہ افراد کی تعداد میں قابلِ لحاظ کمی آنے سے صوبے میں کسی قدر استحکام آ گیا تھا اور دہشت گردی کے واقعات کا گراف بڑی حد تک نیچے آتا جا رہا تھا۔ یہ کامیابیاں ٹیم ورک سے حاصل ہوئی تھیں۔ وہاں کی حکومت اور عسکری قیادت ایک منصوبے کے تحت علیحدگی پسند عناصر کو قومی دھارے میں لانے کے لیے مختلف محاذوں پر کام کر رہی تھیں جس کے مثبت نتائج ظاہر ہوتے جا رہے تھے۔ بعد ازاں مختلف وجوہ سے توازن قائم نہ رہ سکا اور دو تین ماہ سے دہشت گرد دوبارہ فعال ہو گئے۔ پولیس، ایف سی اور فوجی تنصیبات پر حملے بڑھتے گئے اور اس کے ساتھ ساتھ ہم نے دیکھا کہ حکومت کے خلاف سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں۔ آناً فاناً وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف اسمبلی میں عدم اعتماد کی قرارداد آئی اور اُنہیں مستعفی ہونا پڑا۔ اب جتنے منہ اتنی باتیں، بعض تجزیہ نگار اسے جناب آصف زرداری کا ’کرشمہ‘ قرار دیتے ہیں جبکہ منجھے ہوئے سیاست دان جناب حافظ حسین احمد کی رائے میں زرداری صاحب نے صرف تڑکا لگایا ہے جبکہ ہانڈی کسی اور نے تیار کی تھی۔ کچھ کالم نگار اور سیاست دان اس ’کارنامے‘ کو غیر سیاسی طاقتوں سے منسوب کرتے ہیں، مگر ہمارا ذہن اس تجزیے کو قبول کرنے پر تیار نہیں۔ دیانت داری کی بات یہ ہے کہ ماضی میں فوج نے بلوچستان میں حالات کو معمول پر لانے کے لیے بڑی کاوشیں کی ہیں اور وہ عام انتخابات سے چند ماہ پہلے حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کیوں کرے گی؟ اس کے علاوہ ملک سے باہر بیٹھے ہوئے آزاد بلوچستان کے حق میں پروپیگنڈہ کرنے والوں کے ہاتھ میں یہ ہتھیار کیوں دے گی کہ بلوچستان کا وزیراعلیٰ وہ شخص ہے جس نے انتخابات میں پانچ سو سے بھی کم ووٹ حاصل کیے تھے۔ اس کا انتخاب جمہوریت اور صوبے کے ساتھ ایک سنگین مذاق معلوم ہوتا ہے۔ فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ بار بار اعلان کر چکے ہیں کہ وہ جمہوری اداروں کے تسلسل اور استحکام پر یقین رکھتے ہیں اور ان کا سیاسی معاملات سے کوئی تعلق نہیں، تاہم بلوچستان میں سیاسی استحکام کو زیروزبر کر دینے والا جو ناخوشگوار واقعہ رونما ہوا ہے، اس کے منفی اثرات کی روک تھام کے لیے پاکستان کے وسیع تر مفاد میں مختلف طاقتوں کو ایک صفحے پر آنا اور ٹیم ورک سے کام لینا ہو گا۔
صوبہ سندھ میں بھی ٹیم ورک وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ وہاں دہشت گردی کے سدِباب کے نام پر ایس ایس پی راؤ انوار کو غیر معمولی اختیارات سونپ دیے گئے تھے۔ اخبارات میں یہ بھیانک حقیقت شائع ہو چکی ہے کہ انہوں نے ساڑھے چار سو کے لگ بھگ شہری پولیس مقابلے میں بے دردی سے مار ڈالے ہیں۔ اس وقت سپریم کورٹ کی مداخلت سے جناب اے ڈی خواجہ آئی جی کے منصب پر فائز ہیں جنہوں نے راؤ انوار کے خلاف قتل کے مقدمات درج کرنے کا حکم دیا ہے جس کے باعث حکومت کے معاملات میں توازن کی امید کا چاند طلوع ہونے والا ہے۔

تازہ ترین