• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہلکی ہلکی بارش سے گلی میں کیچڑ ہو چکا تھا ایسے میں فقہ کے سب سے بڑے امام، امام اعظم ابوحنیفہ نے گلی میں چلتے ہوئے، ایک نوعمر لڑکے کو کہا بیٹا دھیان سے پھسل نہ جانا۔ جوان بھی امام کی علمی و ر وحانی مجالس سے مستفیض تھا، بے ساختہ کہا حضور والا! میری خیر ہے آپ اپنا دھیان رکھنا، میرا پھسلنا صرف ایک نوجوان کا پھسلنا ہوگا، اگر آپ پھسل گئے تو فقاہت و امامت پھسل جائے گی جو پوری قوم کیلئے باعث عار ہوگا۔ مسئلہ بابا بلھے شاہ کی نگری قصور کا نہیں آپ کے قصور وار ہونے کا تھا۔ انکل میرے والدین تو مجھ سے پہلے سفاکی کا نشانہ بننے والی بچیوں کے والدین کی طرح صبر کر ہی لیتے اور میں بھی جنت میں محو استراحت ہو جاتی اگر میرا قاتل، میرا مجرم، سفاک درندہ، مذہبی بہروپیا، ننگ انسانیت ظالم، خونخوار بھیڑیا نہ پکڑا جاتا، تو’’جبر‘‘ جیت جاتا ’’صبر‘‘ ہار جاتا، ملک کا نظام غیرمعتبر ہو جاتا، ہوس کا مارا بزدل اپنے آپ کو قاتل اعلیٰ سمجھتے ہوئے خادم اعلیٰ کا مذاق اڑاتا، کہ میں حوا کی بیٹیوں کا مظلوم ننھا قافلہ لوٹنے میں مسلسل کامیاب ہوں، انکل پولیس کی تبدیل شدہ نئی وردی، شبانہ روز محنت و لگن پر انگلیاں اٹھنے کی بھرمار ہو جاتی۔ انکل آپ نے درندے قاتل کو پکڑا کر، ملک و ملت اور حکومت پنجاب کے وقار کو بلند کیا ہے۔ جس پر ’’اجتہاد‘‘ آپ کو سلام تحسین پیش کرتا ہے۔ انکل میرے ننھے کانوں نے بڑوں سے کئی بار سنا تھا کہ حکومتیں جو کرنا ’’چاہیں‘‘ کرسکتی ہیں۔ انکل میں مشکور ہوں آپ نے میرے قاتل اظلم الظالمین (بڑے ظالم) کو نشان عبرت بنانے کا جو شہبازی عندیہ دیا ہے اصل میں وہ قرآن حکیم کا بہترین حکم ہے ولکم فی القصاص حیاہ یا اولیٰ الباب (ہر باشعور جانتا ہے قصاص میں حیات) دعا ہے ارحم الراحمین (خدا آپ پر اپنا کرم فرمائے) انکل! میں نے سابقہ ’’اجتہاد‘‘ کے ذریعے آپ سے بڑے گلے شکوے اور شکایات کیں، آپ نے ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ ان باتوں کو سنا اور بروقت ایکشن بھی لیا اور ’’اجتہاد‘‘ کو مطمئن بھی کیا۔ میں آپ سے اور آپ کی پوری ٹیم سے دلی طور پر خوش ہوں۔ آپ نے اور آپ کی ٹیم نے وہ سب کر دکھایا جو بظاہر مشکل اور ناممکن دکھائی دے رہا تھا۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا تھا کہ من جدوجد (جو کوشش کرتا ہے وہ مقصد کوحاصل کر لیتا ہے)میں، میری والدہ، والد، خاندان اور پورا پاکستان آپ کی کارکردگی کو ’’سلام‘‘ کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ’’اجتہاد‘‘ 21کروڑ عوام کا ڈاکیا (پوسٹ ماسٹر) تھا، ہے اوران شاء اللہ رہے گا۔ جو عوام چاہیں گے، سوچیں گے، سمجھیں گے اور توقعات کا اظہار کریں گے، وہ ڈاک آپ تک پہنچاتا رہے گا۔ چاہے اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔ اس وقت قوم آپ کی مشکور ہے، لہٰذا ’’اجتہاد‘‘ بھی آپ کا شکریہ ادا کر رہا ہے۔ انکل معروف حکایت ہے کہ دو جانور درخت پر بیٹھے تھے، ایک مشکوک شخص کو دور سے آتا دیکھ کر مادہ جانور نے نر جانور سے کہا کہ شکاری آرہا ہے ہم یہاں سے اُڑجائیں، نر نے کہا اس کے پاس ہتھیار نہیں بیٹھے رہیں۔ قریب پہنچتے ہی مشکوک شخص نے چھپایا ہوا ہتھیار نکالا اور نر جانور کو نشانہ سے زمین پر مار گرایا، مقدمہ مادہ جانور وقت کے منصف کے پاس لیکر پہنچی، شکاری کہنے لگا میں نے شکار کیا ہے اور شکار شریعت میں جائز ہے، منصف نے بھی فیصلے کی تائید کر دی تو مادہ جانور زینبی آواز میں روتی ہوئی بولی ٹھیک ہے، لیکن شریعت میں دھوکہ دینا تو جائز نہیں ہے نا، منصف نے جواب دیا نہیں، جواب میں مادہ جانور بولی اور کہا، اسے کہیں اگر شکاری ہے تو پھر شکاریوں والے روپ میں ہی رہا کرے اور شکار والا ہتھیار چھپا کر نہ رکھا کرے، تاکہ معصوم جانور اس کے دھوکہ سے بچ سکیں۔ انکل اس خبیث نے جو روپ بنا رکھا تھا یہ سب ہمارے سسٹم کی کمزوری ہے اور اجتماعی بے حسی ہے یہاں پرجہاں جعلی دودھ سے لیکر جعلی نقیبان محافل، جعلی دین فروشوں سمیت ہر دو نمبر چیز کی بھرمار ہوتی جارہی ہے، اور یہ جعلی لوگ اپنی شیطنیت اور گھنائونے کرتوتوں کو چھپانے کیلئے اس طرح کے روپ دھارتے رہتے ہیں۔ آپ کی ٹیم جس میں فرانزک لیب کے ڈی جی ڈاکٹر محمد اشرف طاہر، جے آئی ٹی کے ہیڈ، تمام ممبران ٹیم، آئی جی پنجاب اورجس محکمہ نے کسی طرح بھی اس کیس میں مدد کی ہے ان تمام کی ممنون ہوں اور ان کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں۔ انکل آپ نے میرے قاتل شمر کے حوالے سے پریس کانفرنس میں سورہ کوثر کی تلاوت سے نا صرف میرے دل و دماغ کو سکون پہنچایا ہے بلکہ ایسے درندوں کو قرآن کا ابدی پیغام سنایا ہے کہ بے شک ایسے درندے ہی دنیا سے بے ناموں و نشان (ابتر) اٹھیں گے، جو اس نبی رحمت ﷺکی امتی اورحوّا کی بیٹیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔ 21کروڑ عوام کی طرح اب میری بھی تمام تر نگاہوں کا مرکز عدالتی نظام ہے کہ وہ کیسے، کب اور کتنی جلدی اس شمر لعین کو انجام تک پہنچاتا ہے۔ انکل کوشش کریں اس بھیڑیئے کے وجود کے بوجھ سے جلد از جلد پاک دھرتی کو پاک کیا جائے۔ انکل چالیس سالہ ویران گرائونڈ جو میری شہادت گاہ بنا وہیں پر اس ظالم درندے کو پھانسی دے کر ایسے کئی بے شمار درندوں کیلئے اس جگہ کو عبرت گاہ بنادیں اور ایک معصوم سی خواہش یہ بھی ہے کہ وہاں اچھا چلڈرن اسپتال جیسے ’’زینب اسپتال‘‘ ’’میری بچیاں اسپتال‘‘، ’’میری بیٹیاں اسپتال‘‘ کا اعلان کریں۔ انکل میرا معصومانہ سا شکوہ سینیٹر فرحت اللہ بابر کو پہنچا دیں کہ جنہیں اتنے بڑے اندوہناک واقعہ کے بعد بھی غم زدہ خاندانوں سے زیادہ مغرب کی خوشنودی عزیز ہے۔ انہیں کوڑے کے ڈھیر پر پڑی ننھی لاشوں سے نہیں قاتلوں، اغواکار غنڈوں اور جنسی درندوں کے حقوق کی فکر تو ہے، کسی دوسری زینب کی فکر نہیں۔ اس جنسی مریض کے اوپر پی ایچ ڈی کروائیں تاکہ ان کی نفسیات عوام کے سامنے آسکیں اور مائیں ایسی نفسیات والے لوگوں سے وقت سے پہلے بچوں کو آگاہ کر سکیں۔ انکل جو سخت سے سخت فیصلے اور قانون سازی ان درندوں کے بارے کراسکتے ہیں، کریں کیونکہ ان فرعونوں کے ساتھ کوئی اظہار ہمدردی والا شخص ابھی تک دنیا میں پیدا نہیں ہوا۔ انکل اگر پولیس ہمیشہ ہر کیس کو میرے کیس کی طرح لے، تو کبھی بھی باقی اداروں کو بلانے کی ضرورت ہی نہ پڑے، 70سال پولیس کو اور نظام کو لعن طعن کرنے والوں کو چاہئے کہ ایک بار پولیس کی کارکردگی کو بھی سلام پیش کریں۔ انکل ایک تحقیقاتی کمیٹی بنائیں کہ مجھ سے پہلے 8بچیوں کے کیس میں شک کی بنیاد پر 5نوجوانوں کو پولیس نے کیوں مارا؟ انکل خیبرپختوا کے عوام کو ایک فرانزک لیبارٹری، پنجاب کے عوام کی طرف سے گفٹ کر دیں۔ انکل آپ کے فیس بکی دانشوروں کے طعن و تشنیع کے نشتر چلانے والے معترضین کو پنجابی شاعر پروفیسر شاہد کا یہ شعر سناتی ہوں
شاہد جی فنکار سدو نا ایڈا سوکھا نہی
تخلیقاں وچ خون جگر دا بھرنا پیندا اے
انکل تین دن پہلے نارووال میں میری ایک بہن نمرہ کو گن پوائنٹ پر اغوا کیا گیا جس پر آپ کی پولیس کے جواں عزم اور متحرک ڈی پی او عمران کشور نے صرف 9گھنٹوں میں نمرہ کو جدید ٹیکنالوجی سے باحفاظت بازیاب کرایا۔ نمرہ کے انکل عمران کو آپ کی طرف سے شاباش ملنی چاہئے۔ انکل !سرور حسین نقشبندی نے جو خوبصورت نظم میرے لئے لکھی اس کا ایک شعر حاضر ہے ۔
وقت کی آنکھ یہ منظر ابھی دکھلائے گی
جسم سے تیرے درندوں کو گھن آئے گی
میری مائیں بہنیں، بیٹیاں اور بھائی آج جمعہ 80بار درود شریف ضرور پڑھیں ۔

تازہ ترین