• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم لوگوں کی یادداشت اتنی اچھی نہیں۔ ذہن پر زور دیں تو یقیناً یاد آجائے گا کہ11 سالہ نعلین کو16 جون 2012 میں زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا تھا جیسے قصور میں ہوا۔ اس بچی کی لاش کنویں سے بر آمد ہوئی تھی۔ کافی کوشش کے بعد مجرم گرفتار کر لیا گیا۔ ٹرائل کورٹ نے ملزم کو سزائے موت دی۔ یقیناً مجرم اسی سزا کا حقدار تھا مگر ہائی کورٹ نے ملزم کی درخواست پر سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا۔ آج عدالت عظمیٰ یعنی سپریم کورٹ نے اسے بری کردیا تھا کہ پوسٹ مارٹم قبر کشائی کے بعد کیا گیا تھا کوئی چشم دید گواہ نہیں تھا وغیرہ وغیرہ ۔
کیا زینب کے قاتل کے متعلق بھی کوئی ایسا ہی فیصلہ آئے گا اور ہم بھول چکے ہوں گے کہ قصور کی بے قصور زینب کا کوئی سفاک قاتل بھی تھا۔ میں اس معاملےمیں عدالتوں کو کوئی دوش نہیں دیتا کیونکہ عدالتوں نے تو ثبوت دیکھ کر فیصلہ سنانا ہوتا ہے مگر ثبوت فراہم کس نے کرنے ہوتے ہیں؟ یہ کام پولیس کا ہے اور پنجاب پولیس اکثر ایسے کاموں میں ناکام ہو جاتی ہے، اس وقت بھی قاتل کی تلاش کرنے پر وزیراعلیٰ خوشی سے تالیاں بجا رہے تھے اوریہی تاثر دیا جارہا تھا کہ قاتل پنجاب پولیس نے تلاش کر لیا ہے۔ یہ بالکل غلط خبر ہے۔ یہ قاتل پاکستان کے ادارے ’’آئی ایس آئی‘‘ کی مسلسل محنت کے نتیجے میں پکڑا گیا ہے۔ آئی ایس آئی کی ٹیم مسلسل پندرہ دن قصور میں مقیم رہی اور آخرکار کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور اس قاتل کی گرفتاری پر میں آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
ایسے مجرموں کی تلاش آئی ایس آئی کا کام نہیں مگر جب انہیں مدد کے لئے بلایا جاتا ہے تو سرکاری اداروں کی مدد کرنا آئی ایس آئی کے فرائض میں شامل ہو جاتا ہے۔ یقیناً بہت سے دوسرے جرائم میں بھی آئی ایس آئی سے مدد لی گئی ہوگی۔ پانامہ کیس میں جو جے آئی ٹی بنائی گئی تھی اس میں بھی مدد مانگنے پر آئی ایس آئی نے اپنا کردار ادا کیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج بھی جب نواز شریف ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا ’’نعرہ مستانہ‘‘ بلند کرتے ہیں تو ان کا اشارہ عدلیہ کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی طرف بھی ہوتا ہے۔
نعلین کے قاتل کی رہائی کا سبب یہی تھا کہ کوئی چشم دید گواہ نہیں تھا۔ چشم دید گواہ تو زینب کے قاتل کا بھی نہیں ہے۔ گواہی میں صرف ایک چیز پیش کی جا سکتی ہے کہ ڈی این اے ٹیسٹ میں میچنگ ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی قانونِ شہادت میں اس شہادت کی حیثیت کیا ہے۔ سرپم کورٹ کے فل بنچ کے فیصلے کے مطابق اس شہادت سےکسی کو سزائے موت نہیں دی جاسکتی۔ اس فیصلہ کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ماضی میں پنجاب فرانزک سائنس لیبارٹری نے ڈی این اے کی غلط رپورٹس جاری کی تھیں، اس لئے اسے قابلِ اعتماد نہیں سمجھا جا سکتا۔ پولی گرافک ٹیسٹ کے متعلق بھی ماہرین کا یہی خیال ہے کہ اسے بنیاد بنا کر کسی کو سزا نہیں دلوائی جا سکتی۔ جدید سائنس کو شہادت کے طور پر استعمال کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ٹیسٹ سو فیصد درست ہوں اور ابھی تک پاکستان میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ اس شہادت کو یقینی بنانے کے لئے حکومتِ پنجاب کو چاہئے کہ وہ بیرون ملک سے فرانزک ٹیسٹ کرائے تا کہ عدالت اس پر اعتبار کر کے سزا سنا سکے۔ بہرحال اب تک تو یہی لگ رہا ہے کہ جس طرح نعلین کا سفاک قاتل رہا کردیا گیا ہے اسی طرح عدم ثبوت کی بنیاد پر زینب کا قاتل بھی رہا ہوسکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پنجاب پولیس اسی ڈی این اے ٹیسٹ کو بنیادی ثبوت قرار دیتی ہے یا کچھ اور چیزیں بھی سامنے لانےمیں کامیاب ہو جاتی ہے ۔
قصور میں احتجاج کے دوران جن دو اشخاص کو پولیس نے سیدھی گولیاں مار کر قتل کیا تھا، ان کے قتل کا معاملہ بھی زینب کے کیس کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ حکومت پنجاب کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح ان دو مقتولوں کے ورثا کو راضی کرکے اس مقدمہ کو بھی داخل دفتر کردیا جائے۔ دیکھئے اس سلسلے میں حکومتِ پنجاب کو کہاں تک کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہیدوں کے ورثا کو خریدنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی تھی جس میں ابھی حکومتِ پنجاب کامیاب نہیں ہو سکی۔ شاید اس کی وجہ ڈاکٹر طاہر القادری سے ان کے ماننے والوں کی بے لوث عقیدت و محبت ہے اور قصور کے مقتول بھی ڈاکٹر طاہر القادری کے مریدین میں شامل ہیں، سو یہاں بھی کامیابی کا امکان کم ہی دکھائی دیتا ہے۔
مجھے اپنے کئے ہوئے کچھ سوال پھر یاد آرہے ہیں کہ دھیرے دھیرے آگے بڑھتی ہوئی زندگی کا نام ہی پاکستان کیوں ہے۔ یہاں وقت کیوں پتھرایا ہوا ہے۔ زمین و آسماں کی گردشیں کیوں رکی ہوئی ہیں۔ موسموں کے دریا کس لئے جمے ہوئے ہیں۔ بصارتوں میں کس نے سلائیاں پھیر دی ہیں۔ سماعتوں میں کس نے سیسہ بھر دیا ہے۔ آوازوں میں کیوں سناٹے گونج رہے ہیں۔ تعبیروں سے محروم خوابوں کے ہجوم کس لئے آنکھوں سے چپک کر رہ گئے ہیں۔ پاکستان کیوں مردہ منظروں کی ایک فلم بن چکا ہے۔ تپتی ہوئی ریت میں گم ہوتے ہوئے آسمان کے آنسو۔ جمہوریت کے ایوانوں میں ہوتا ہوا پتلی تماشا۔ کیوں یہی پاکستان کا ماضی اور حال بن کر رہ گیا ہے۔ مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں امید کا چراغ کون جلائے گا۔ نعلین اور زینب کے قاتلوں کو کون سزا دے گا۔ کون ہوگا جو پاکستان کو ایک ایسے ملک میں بدل دے گا جہاں ایسے جرائم کا تصور بھی ممکن نہ ہوگا۔ کون جرم کو ہونے سے پہلے روک لے گا۔ کون ہوگا جو غریب اور امیر دونوں کے لئے انصاف کی فراہمی کو یکساں بنا سکے گا۔ میری ذاتی رائے یہی ہے کہ عمران خان کے ہاتھ میں اگر عنانِ مملکت آجاتی ہے تو نئے پاکستان کا آغاز ہو جائے گا مگر اس راستے میں مسلسل جو پہاڑ کھڑے کئے جارہے ہیں انہیں دیکھ کر اکثر اوقات دل بیٹھنے لگتا ہے۔

تازہ ترین