• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ )
کوئی اس سے اتفاق کرے یا نہ کرے دونوں باپ بیٹی ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو پاکستان کی سیاست کے انمول کردار ہیں‘ کمزوریاں کس میں نہیں ہوتیں۔ کمزوریوں سے پاک تو فقط ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ تھے‘ باقی شخصیات کے بارے میں رائے قائم کرنے کے لئے ان کی اچھی باتوں اور خامیوں کی بیلنس شیٹ بنائی جاتی ہے‘ آیئے ان باپ اور بیٹی کی بطور ایک سیاستدان بیلنس شیٹ بنائیں اور پھر ان کے بارے میں رائے قائم کریں۔ ذوالفقار بھٹو اور بے نظیر بھٹو عوامی سیاست کے وہ ناقابل فراموش کردار ہیں جو خطرات سے ڈرے اور نہ پیچھے ہٹے بلکہ ہر خطرے کا سینہ تان کر مقابلہ کیا‘ بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے نہ فقط انتہائی بہادری سے عوامی سیاست کی مگر پاکستان کی بے مثال خدمت کرتے وقت سارے اندرونی و بیرونی خطرات کو پس پشت ڈال دیا‘ میں فقط بھٹو کے ایسے ایک کارنامے کا ذکر کرنے پر اکتفا کروں گا‘ اس کارنامے کا تعلق پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے ہے‘ یہ کام نہ ایک دن کا تھا اور نہ اتنا آسان تھا‘ یہ پروگرام حاصل کرنے کے لئے بھٹو صاحب نے کیا کیا کوششیں کیں اور ان کوششوں میں حصہ لیتے ہوئے پاکستان کے کتنے انتہائی اعلیٰ ترین سائنسدانوں نے اپنی جانیں قربان کیں‘ ان کا تو ابھی تک کہیں ذکر نہیں آیا‘ پاکستان کے اس پروگرام کے لئے جانیں قربان کرنے والوں میں سندھ کے دو ممتاز سائنسدان بھی تھے‘ ان میں سے ایک کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ تھے اور سندھ یونیورسٹی میں کیمسٹری ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ تھے‘ دوسرے فزکس میں ڈاکٹریٹ تھے اور سندھ یونیورسٹی میں فزکس کے شعبے کے سینئر پروفیسر تھے‘ دونوں کو بڑی رازداری کے ساتھ یورپ کے دو ملکوں کی اعلیٰ یونیورسٹیوں کے متعلقہ شعبوں میں داخلہ دلایا گیا‘ ان کو خاص شعبوں میں اعلیٰ مہارت حاصل کرنا تھی‘ پہلے کیمسٹری کے پروفیسرکے خاندان کو ٹیلی فون آیا کہ انہوں نے مطلوبہ شعبے میں ڈگری حاصل کرلی ہے اور اب وہ ایک ماہ کے اندر وطن واپس لوٹیں گے مگر ایک ہفتے کے بعد اس ملک سے ان کے خاندان کو ٹیلی فون آیا کہ گزشتہ رات ان کے کمرے میں ان کی لاش پائی گئی ہے‘ اس طرح ان کی ڈیڈباڈی پاکستان بھیج دی گئی‘ یہی کچھ فزکس میں اسی مقصد کے لئے یورپی ملک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے اس تعلیمی ماہر کے ساتھ ہوا‘ یہ بات کسی سے چھپی نہیں کہ اس ایٹمی پروگرام کی تیاری میں لیبیا کے اس وقت کے سربراہ کرنل معمر قذافی نے پاکستان کی بے پناہ مالی مدد کی تھی مگر بعد کی اطلاعات کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات ہونے کی وجہ سے سعودی عرب کے اس وقت کے سربراہ شاہ فیصل نے بھی بڑی رازداری کے ساتھ ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں پاکستان کی مدد کی مگر یہ بات اپنے آپ کو دنیا کا آقا تصور کرنے والے ملک کی قیادت سے ڈھکی چھپی نہ رہ سکی‘ کچھ عرصے کے بعد شاہ فیصل کا انتہائی پراسرار انداز میں خاتمہ کردیا گیا ۔واضح رہے کہ کرنل قذافی اور شاہ فیصل کی ذوالفقار علی بھٹو سے قربت لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر ہوئی اگر یہ اطلاع درست ہے کہ شاہ فیصل کو بین الاقوامی ’’آقائوں‘‘ کے اشارے پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی مالی امداد کرنے پر نشانہ بنایا گیا تو بعد میں ہی سہی کرنل قذافی کا کیا حشر ہوا؟ بلکہ خود لیبیا کو کیا قیمت ادا کرنا پڑی۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام تیار کرنے کے سلسلے میں جب کرنل قذافی اور شاہ فیصل کو نہیں بخشا گیا تو ذوالفقار علی بھٹو جو اس پروگرام کے کرتا دھرنا تھے انہیں یہ طاغوتی طاقتیں کیسے بخشتیں‘ بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے اور پھانسی کا اہم سبب ایٹمی پروگرام ہوسکتا ہے۔ مگر دیکھا جائے کہ بھٹو کو پھانسی پر چڑھانے کے اور بھی کئی بیرونی اور اندرونی عوامل ہیں‘ انصاف کا تقاضا ہے کہ اس سلسلے میں ایک الگ کالم لکھا جائے کہ بھٹو کو پھانسی پر کیوں لٹکایا گیا؟ شہید بے نظیر بھٹو کو بھی دہشت گرد کارروائی کے ذریعے شہید کرنے کے کئی عوامل ذمہ دار ہیں۔ اس سلسلے میں بھی ایک الگ کالم لکھنے کی ضرورت ہے مگر یہاں اس مرحلے پر میں فقط ایک ’’سبب‘‘ کا ذکر کروں گا جس کا تعلق بھی ان کے باپ ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے پاکستان کو دیئے جانے والے ایٹمی پروگرام سے ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھٹو نے پاکستان کو ایٹمی پروگرام دیا وہ اگر زندہ ہوتے تو وہ اس پروگرام کو حقیقی طور پر کارآمد بنانے کے لئے دیگر اقدامات بھی کرتے مگر بین الاقوامی طاقتوں کو پتہ تھا کہ بھٹو یہ بھی کردے گا‘ لہٰذا ان کو پھانسی دلواکر اس دنیا سے ہی رخصت کردیا گیا مگر اس سلسلے میں جو باقی کام رہتا تھا وہ ان کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو نے کیا، جب وہ پاکستان کی وزیر اعظم تھیں تو وہ نارتھ کوریا کے دورے پر گئیں‘ ذوالفقار علی بھٹو تیسری دنیا کے جن ممالک میں سب سے زیادہ مقبول تھے ان میں نارتھ کوریا بھی تھا۔ واضح رہے کہ نارتھ کوریا بھی ذوالفقار علی بھٹو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک اہم ایٹمی طاقت بن چکا تھا‘ اس نے نہ فقط ایٹم بم بنایا بلکہ وہ ٹیکنالوجی ڈویلپ کرلی جس کے ذریعے نارتھ کوریا پر ایٹمی حملہ کرنے والے ملکوں پر وہ خود بھی ایٹمی حملہ کرنے کا اہل ہوگیا‘ جب نارتھ کوریا کی قیادت اور عوام نے قائد ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی شہید بے نظیر بھٹو کا شاندار استقبال کیا‘ نارتھ کوریا کی قیادت بے نظیر بھٹو سے ہر قسم کا تعاون کرنے کے لئے تیار تھی لہذا جب بے نظیر بھٹو نارتھ کوریا کا دورہ ختم کرکے پاکستان لوٹیں تو وہاں سے نارتھ کوریا کے سائنسدانوں کی طرف سے تیار کی ہوئی ’’میزائل ٹیکنالوجی‘‘ بھی اپنے سائنسدانوں کے ذریعے پاکستان لائیں۔
اس وقت کوئی دن خالی نہیں جاتا جب امریکہ کے ’’نیم پاگل‘‘ صدرٹرمپ اور اسکے حواری پاکستان پر حملے کرنے کی دھمکی نہیں دیتے اگر خدانخواستہ ایسا ہوتا ہے تو ایک بار پھر پاکستان کیلئے ’’بھٹو کی نسل‘‘ کام آسکتی ہے اور پاکستان کی موجودہ قیادت اس میزائل ٹیکنالوجی کے ذریعے پاکستان کا دفاع کرسکتی ہے مگر اس مرحلے پر کچھ حلقے یہ بھی سوال کررہے ہیں کہ شہید بے نظیر بھٹو کو اقتدار سے ہٹانے اور بعد میں انہیں شہید کرنے کے بعد کیا اس میزائل ٹیکنالوجی کو موجودہ قیادت نے اس حد تک ڈویلپ کیا ہے کہ پاکستان کا ایسی کسی صورتحال میں دفاع ہوسکے یا یہ ٹیکنالوجی جس صورت میں لائی گئی تھی ابھی تک اسی حالت میں ہے اور اسے مزید ڈویلپ نہیں کیا گیا؟ باتیں تو اور بھی بہت ہیں کہ 18اکتوبر کو دبئی سے کراچی ایئر پورٹ پر اترنے کے بعد ان کے جلوس پر حملے کا کیا پس منظر تھا اور اس مرحلے پر کراچی آنے سے منع کرنے کے بعد انہوں نے واپس آکر جس دیدہ دلیری کا مظاہرہ کیا اسکی کوئی مثال ہے‘ پھر جو کچھ پنڈی کے لیاقت باغ میں ہوا یا اس سے پہلے پشاور میں ان پر حملے کئے جانے کی اطلاعات موصول ہونے کے باوجود کیا وہ پشاور میں جلسہ کرنے سے گھبرائیں‘ کبھی وقت ملا تو ان حقائق پر الگ کالم لکھیں گے۔

تازہ ترین