• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیسویں صدی کے عظیم مفکر سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنے بلند پایہ لٹریچرکے ذریعے پوری دنیا میں احیائے اسلام کیلئے اپنابھرپور کردار ادا کیا تھا۔ آج ایسے ہی ایک اور عظیم انسان کا میں اپنے کالم میں ذکر کررہا ہوں کہ جس نے21 کروڑ پاکستانیوں کے دلوں میں قرآنی نظام حیات کی آرزو کو ازسر نو پیدا کیا ہے۔ یہ عصر حاضر کے عظیم مبلغ خواجہ محمد اسلم امیر تحریک رحمت ہیں۔ گزشتہ دنوں لاہور میں میری ان سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ ہم لوگ کسی دوسرے ملک میں اس نوعیت کا کام سرانجام دینے والے کو عقیدت و ارادت کے چراغوں کی لَو میں اُن کا خیرمقدم کرتے ہیں مگر اپنے سچے بہی خواہ کے کام کو نظرانداز کردیتے ہیں مگر خواجہ محمد اسلم صلے کی پروا اور ستائش کی تمنا کا تصور بھی نہیں رکھتے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میرا اجر تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور وہ اسی دھن میں عرصہ37سال سے ابلاغِ دین کے ذریعے قرآنی نظامِ حیات کے نفاذ کے لئے کام کر رہے ہیں ایسے مصمم ارادے کے مالک کے سامنے کوئی چٹان راستہ نہیں روک سکتی۔ ایسے مضبوط ارادے کی ہی بدولت خواجہ محمد اسلم صاحب نے اپنی دنیا آپ پیدا کی ہے اور یہ عظمت و فضلیت آپ کو سونے چاندی کی طشتری میں رکھ کر تحفے میں نہیں ملی اس کے عقب میں محنت شاقہ، مہارت تامہ اور طویل ریاضت کی سختیاں اور تکلیفیں کار فرما ہیں اور یہ درد و اثر وہی جانتے ہیں جنہوں نے مشکلات کی گھاٹیوں کو اپنے عزم بالجزم سے عبور کیا ہو۔ اس وقت ہمارا مقصود صرف یہ ہے کہ حالات کی سنگینی اور واقعات کی بدلتی ہوئی عالمی صور ت حال کے حوالے سے کوئی ایسی جماعت یا کوئی ایسا دانشور ہے جو اِس بحران سے نکالنے کی کوئی عملی تدبیر رکھتا ہو۔ مجھے تو ایسے معلوم ہوا کہ ہمارے درمیان عرصہ37 سال سے بے غرض اور بے لوث نظام اسلام کے نفاذ کا ابلاغ کرنے والا ایک ہی ادارہ ایسا ہے جو کسی دنیاوی لالچ کی تمنا رکھتا ہے اور نہ ہی ایسے صلے کی پروا اور وہ تحریکِ رحمت کے امیر خواجہ محمد اسلم کی ذات گرامی ہے جنہوں نے اپنے استاد حکیم جمالیات ڈاکٹر نصیر احمد ناصر سے مسلسل16 سال زانوئے تلمذ تہہ کرکے علم حاصل کیا اپنا سارا کاروبار اپنے بیٹوں کے سپرد کر دیا اور دل میں علم کی لگن کی ایک ایسی چنگاری ابھری کہ اب وہ شعلہ جوالا بن چکی ہے ۔ اپنے کاروباری تجربات بھی سپرد پسران کر دیئے۔ مجھے منشا قاضی نے تحریکِ رحمت کے اغراض و مقاصد اور درویش صفت انسان جناب خواجہ محمد اسلم صاحب کے بارے میں بتایا کہ تحریکِ رحمت کا ایک نکاتی منشور ہے کہ عوام کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لایا جائے۔ دوسرے لفظوں میں انسانیت جو فرعونوں، ہامانوں، قرونوں اور آذروں کے چُنگل میں پھنس کر لذتِ حیات سے محروم ہوچکی ہے جس کے نتیجے میں لوگ زندوں میں ہیں نہ مُردوں میں۔تن من دھن کیساتھ جدو جہد کرکے ان کے بنیادی انسانی حقوق بحال کروا کر ان کو لذتِ زندگی سے آشنا کیا جائے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ امیرِ تحریکِ رحمت خواجہ محمد اسلم ایم اے او کالج، امرتسر، میں زیرِ تعلیم تھے کہ تقسیمِ ہند ہوئی اور پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔ ہجرت کے بعد تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ اوائل عمری کے باوجود آپ نے تجارت کو بطور پیشہ منتخب کیا اور دیکھتے دیکھتے ترقی کی کئی منازل طے کر گئے۔ تجارت کے سلسلے میں دنیا کے تقریباً نصف ممالک کی سیاحت کا موقع ملا۔ یہ سب کچھ ہوا مگر امتدادِ زمانہ اور زندگی کے نشیب و فراز خواجہ صاحب کے قلب سے حصولِ علم کا شوق کم نہ کرسکے۔1980 کا زمانہ تھا، آپ زندگی کی52 بہاریں دیکھ چکے تھے؛ ایک معروف تاجر بھی تھے اور صنعتکار بھی کہ ایک اشجار سے معمور باغ میں، جہاں وہ صبح کی سیر کے لیے جایا کرتے تھے، حُسنِ اتفاق سے، اُن کی ملاقات مشہورِ زمانہ عظیم دانشور، فلسفی و حکیم، مفکّر و محقِق، سیرت نگار و مفسرِ قرآن ڈاکٹر نصیر احمد ناصر، ایم اے ڈی لٹ، سابق وائس چانسلر، اسلامیہ یونیورسٹی، بہاولپور، سے ہوئی۔ نگاہِ مردِ مومن نے خواجہ صاحب کی کایا پلٹ دی۔
اُنکے شوقِ حصولِ علم نے انگڑائی لی۔ کاروبار کو نوخیز بیٹوں کے سپرد کیا اور خود ڈاکٹر صاحب کے آگے زانوے تلمذّ تہہ کیا اوراُن کی وفات (14اپریل1997 ) تک، یعنی مکمل سولہ سال، اُن کی شاگردی میں گزاردیئے۔ اُن سے علم حاصل کیا اور قُرآنِ حکیم کا مطا لعہ بالحق اور اُس کی آیات پر حکیمانہ غورو فکر کرنا سیکھا۔ 1984 میں ڈاکٹر نصیر احمد ناصر اورخواجہ صاحب نے مل کر تحریک ِ رحمۃ اللعالمینی ؐ کے نام سے تحریکِ رحمت کی بنیاد رکھی۔1997 میں ڈاکٹر صاحب کی وفات کے بعد دوستوں نے تحریکِ رحمت کی امارت خواجہ صاحب کو تفویض کردی۔ اس وقت خواجہ صاحب کی عمرنوے سال ہے۔ اس بڑھاپے کے باوجود وہ آج تک تن من دھن کیساتھ جِدّو جُہد میں مصروف ہیں، اس یقینِ محکم کیساتھ کہ سرمایہ داری نظام کا قَلع قَمع ضرور ہوگا اور اُسکی جگہ نظام اسلام نافذ ہوگا کیونکہ یہ احکم الحاکمین کی مشیّت بھی ہے اور پیغمبرِ اعظم و آخر ﷺ کا فرمان بھی۔نسخہ کیمیا خواجہ صاحب کے رشحاتِ قلم سے نکلے ہوئے وہ اسلامی شہ پارے ہیں جو گاہے گاہے وہ معاشرے کی اصلاح اور ملت کی فلاح کے لئے تحریری صورت میں مختلف مجالس میں بیان کرتے رہے ہیں۔ منشا قاضی کی یہ دلی خواہش تھی کہ خواجہ صاحب کے یہ قیمتی نگارشات کتابی صورت میں منصہ شہود پر آجائیں کیونکہ یہ نسخہ کیمیا انسانوں کے روحانی اور مالی بیماریوں کی مکمل شفا کا سبب ہے۔ خواجہ محمد اسلم کی یہ محنت شاقہ اور مہارتِ تامہ موصوف کے اخلاص کا نتیجہ ہے۔صاحبانِ علم و حکمت کیلئے بھی یہ کتاب بڑی خاصے کی چیز ثابت ہوگی جو انہیں زندگی کی نئی راہوں سے متعارف کرائے گی۔میں نے اُنکے تمام اشاعتی مواد کا سرسری جائزہ لیا ہے اور میرے دل میں مزید مطالعہ کی لگن پیدا ہوئی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اس نسخہ کیمیا کو آزمائیں۔ آپ اس آسان ترین نسخے پر عمل پیرا ہو کر نمرودوں ، آزروں، ہامانوں اور قارونوں کے تشدد آمیز اور استحصالی نظاموں سے چھٹکارہ پاسکتے ہو اور یہ قول کسی دانشور کا نہیں بلکہ جس نے پوری دنیا بنائی ہے اسکا فرمان ہے جس کا منظوم ترجمہ ظفر الملت والدّین مولانا ظفر علی خاں نے یوں کیا ہے:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا.

تازہ ترین